تاک دھنا دھن تاک
صاحبو چند سال پہلے مجھ پر ایک عجیب انکشاف ہوا۔ ۔۔ ہم سب ناچ رہے ہیں، اندھادھند اُلٹا سیدھا بے ہنگم ناچ۔ کچھ اچھا ناچ رہے ہیں کچھ بُرا اور کچھ بہت ہی بُرا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ ارے۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اسی حیرت کے عالم میں میں ناچتے ناچتے رک گیا۔ ناچ دیکھنے کیلئے سب کو ناچتا دیکھنے کیلئے۔ خیریت؟ کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کچھ نے تو یوں پُوچھا گویا کہہ رہے ہوں ”دماغ تو ٹھیک ہے؟“ کسی چہرے پر حیرت، کسی پر ہمدردی اور بہت سی طنزیہ مسکراہٹیں۔ اپنے پرائے سبھی نے پوچھا۔ ”کچھ نہیں ذرا تھک گیا تھا“ میں نے بہانہ بنایا اور اٹھ کر پھر ناچنا شروع کر دیا۔ میرے آس پاس والوں کے چہروں پر اطمینان دوڑ گیا۔
پھر پچھلے سال میں کلاس میں بیٹھا تھا۔ پروفیسر صاحب نے ایک تھیوری پڑھائی “The Treadmill of Technological Advance” لُبِ لُباب اُس کا یہ تھا کہ جو کسان زراعت کی نئی تکنیک نہیں اپناتے وہ جلد ہی اس کھیل سے باہر ہو جاتے ہیں گویا جو زیادہ تیز دوڑے گا وہی باقی رہے گا۔ میں نے سوچا یہ تھیوری تو ہم سب کی زندگیوں پر لاگو ہوتی ہے۔ جو زمانے کے ساتھ نہ دوڑا وہ کچلا گیا، لوگوں کے پیروں تلے روندا گیا۔ اُٹھ میرے بھائی ناچ۔ ناچ ورنہ مارا جائے گا۔
ایک کہانی ہے بڑی پرانی۔ آپ نے بھی سنی یا پڑھی ہو گی۔ طفننِ طبع کے لئے دہرائے دیتا ہوں۔ ٹھگوں کا ایک ٹولہ بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر ہوا۔ ”حضور ہم آپ کے لئے ایک خاص لباس تیار کرنا چاہتے ہیں جواس سے پہلے نہ کسی نے دیکھا نہ سنا“۔ بادشاہ بڑے اچھے ذوقِ لطیف کا مالک تھا۔ پیرس ، اٹلی، ہالی وڈ کے سب ڈیزائنرز اُ س کے درباری تھے۔ سو فوراً تیار ہو گیا۔ ”حضور اس کام کے لئے ہمیں آٹھ دس عدد صندوق چاہیئں۔ نہیں نہیں، خالی نہیں، سونے چاندی ہیرے موتیوں وغیرہ کے بھرے ہوئے۔ اور اگرآپکا کریڈٹ کارڈ بھی مل جائے تو رنگ ذرا چوکھا آئے گا۔ لباس آپکو نیو ایر نائٹ پر پہنایا جائے گا“۔ بادشاہ نے سب کچھ من و عن تسلیم کر لیا۔ خیر مقررہ شام ٹھگ دربار میں حاضر ہوئے بمعہ ایک بھاری بھرکم صندوق کے۔”حضور ایک بات عرض کرناہم بھول گئے تھے کہ یہ لباس بے وقوفوں کو ہرگز دکھائی نہیں دے گا“۔ ٹھگوں کی یہ بات سُن کر بادشاہ سلامت اپنے تخت پر پہلو بدل کر رہ گئے لیکن بولے کچھ نہیں۔ ٹھگوں نے یونہی صندوق میں جہاں تہاں ہاتھ چلائے اور پھر بادشاہ سلامت کو گویا کوئی پوشاک پہنا دی۔آپ حضور نے ایک نظر درباریوں پر ڈالی جو ہکا بکا کھڑے تھے اور پھر کڑک کر وزیرِ اعظم (پرائم منسٹر نہیں) سے پوچھا ”کیسا ہے؟“ پہلے تو وزیر کے منہ سے نکلتا تھا ”جی کیا؟“ لیکن آخر وزیر تھا فوراً بولا ”حضور کا اس سے بہتر لباس تو میں نے آج تک نہیں دیکھا“۔ پھر کیا تھا ہر طرف سے مبارک سلامت کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ شاہی سواری محل سے نکلی۔ دو رویہ کھڑی عوام نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں(بادشاہ پر) بڑی بوڑھیوں نے بلائیں لیں (بادشاہ کی) اور شاعروں نے قصیدے پڑھے (اوہو بھئی ظاہر ہے بادشاہ کے) ۔ آخر ایک بچہ ہجوم سے نکل کر بادشاہ سلامت کے پاس آیا اور معصومیت سے پوچھا ”انکل آپ ننگے کیوں ہیں؟“
صاحبو یہی حال ہمارا تمہارا ہے۔ سب ناچ رہے ہیں لیکن اکثر تو جانتے ہی نہیں کہ ہم ناچ رہے ہیں۔ جو جانتے ہیں وہ مانتے نہیں اور جو مانتے ہیں وہ پوچھتے نہیں ”انکل ہم ناچ کیوں رہے ہیں؟“۔ بس سب ناچے جا رہے ہیں۔ کسی کو پیٹ نچا رہا ہے تو کسی کو سٹیٹس ، کسی کو کرسی تو کسی کو فیشن۔ سب کے سب تا ک دھنا دھن تاک ۔ اور اگر کوئی نہ ناچے تو؟ نہیں بھائی ہم سب عقلمند ہیں۔ بادشاہ حضور ننگے نہیں ہیں۔ جو ناچے وہ سکندر، جو نہ ناچے وہ بندر۔۔۔۔
(یہ بلاگ ماضی میں اُردو پواءنٹ کی ساءٹ پر چھَپ چکا ہے)
leave a comment