Faisaliat- فیصلیات

میری گردن اور سنہری پٹہ

Posted in Politics, urdu by Shah Faisal on مارچ 14, 2007

حضور ایک بات سے تو آپ اتفاق کریں گے کہ آج کے دور میں چند خوشقسمت لوگ ہی اپنے موجودہ حالات، اپنے ماحول اور اپنے طرزِ زندگی سے خوش ہیں، چاہے دیس ہو یا بدیس، گورا ہو یا کالا۔ اکثریت تو بس آنے والے وقت کے بہتر ہونے کی اُمید میں وقت گزار رہی ہے یا پھر ماضی میں رہ کر خوش ہے۔ میرے محلے کے دکاندار کو ہی لیجئے۔ آج کی نوجوان نسل سے نالاں ہے۔ جناب یہ نسل تو بالکل نکمی ہے، کام کاج آتا نہیں، بڑے چھوٹے کی عزت نہیں، سگریٹ پان اور دوسرے نشوں کی رسیا۔ میں نے پوچھابھیا پھر آپ پان سگریٹ کیوں بیچتے ہو؟ ٹھنڈی آہ بھر کر بولا جناب کیا کریں اس لعنت کے بغیر کاروبار میں مندہ ہوتا ہے، کوئی دکان پرہی نہیں آتا۔ ایک اخبار کے مالک سے پوچھا آپ عورتوں کی تصاویر کیوں چھاپتے ہیں؟ بولے اگر یہ نہ کریں تو رسالہ کون خریدے گا؟ ایک سیاستدان سے پوچھا جناب آپ جھوٹے وعدے کیوں کرتے ہیں؟ بولے بھیا آخر ووٹ بھی تو لینے ہیں اگر یہ وعدے نہ کروں تو آپ ووٹ دینگے بھلا؟ میں بغلیں جھانک کر ہی تو رہ گیا۔

ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم سب مجبور ہیں؟ کیا ہماری زندگیوں کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے؟ یہ سب ویسا کیوں نہیں جیسا ہم چاہتے ہیں؟ کم از کم ہماری اپنی زندگی تو ہماری مرضی کی ہو، ساری دنیا کی تو بات ہی جانے دیجیے۔ پھر مجھے بچپن کی سنی ایک کہانی یاد آئی۔ ایک فاقہ حال جنگلی کتے کا موازنہ ایک ایسے شہری کتے سے کیا گیا تھا جسکی زندگی کے سب پہلو قابلِ رشک تھے، سوائے گردن میں بنے اس نشان کے جسکی وجہ مالک کا پہنایا ہوا سنہری پٹہ تھا۔ کبھی کبھی یہ نشان مجھے اپنی گردن پر بھی دکھائی دیتا ہے!

صاحبو تھوڑی بہت کوشش تو میں نے بھی کی تھی اس پٹے کو اتار پھینکنے کی ۔ پتہ نہیں اسمیں کامیابی کتنی ہوئی لیکن ایک فائدہ ضرور ہوا۔ پہلے دنیا جتنی گنجلک لگتی تھی، اب اس سے تھوڑی کم لگتی ہے۔ تھوڑا سا غور کیا تو اس دنیا میں بسنے والے انسان مجھے تین اقسام میں منقسم نظر آئے۔ جی ہاں بالکل ویسے ہی جیسے قدیم (اور گاہے عصری) ہندو معاشرہ چار قسم کے انسانوں میں تقسیم تھا۔ برہمن، کھتری، ویش اور شودر۔ یقین مانیے یہ تقسیم ہر معاشرے میں، ہر دور میں رہی ہے۔ کچھ لوگ ہمیشہ ہر معاشرے میں خاص رہے ہیں۔ آج بھی ہیں۔ انکی نمایاں خصوصیت تو یہ ہے کہ ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں۔ اور بھی باتیں ہیں جو انہیں خاص بناتی ہیں۔ مثلاً کوئی مذہب نہیں رکھتے، پیسہ کمانے کا ہنر جانتے ہیں اور انسانی نفسیات پر گہرا عبور رکھتے ہیں، دل سے نہیں دماغ سے سوچتے ہیں، شہرت سے دور بھاگتے ہیں اسی لیے کم کم جانے جاتے ہیں۔ انکی زندگی کا ایک اور صرف ایک مقصد ہے۔۔۔ پیسہ، پیسہ اور بہت سارا پیسہ!

اب آتے ہیں دوسری قسم کے لوگوں کی طرف۔ انکی سب سے بڑی اور نمایاں خصوصیت یہی ہے، یعنی نمایاں ہونا۔ یہ بھی گرچہ اقلیت ہے لیکن آپکو ہر طرف یہی نظر آئیں گے۔ اخبار، ریڈیو، ٹی وی اور کوئی بھی ایسی جگہ جہاں یہ نمایاں ہو سکیں۔ جی ہاں آپ صحیح سمجھے، یہ اداکار طبقہ ہے، نہیں نہیں صرف وہ نہیں جو ہالی وڈ، بالی وڈ یا ایسی دیگر جگہوں پر آپکو نظر آتا ہے۔ یہ تو اور بھی کئی مقامات پر پایا جاتا ہے مثلاً حکومتوں میں، سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں، تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں، اقوامِ متحدہ، عالمی بنک اور اسی قبیل کے دیگر اداروں میں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہمارے لئے رول ماڈلز (Role Models) ہیں یعنی ایک عام آدمی ان جیسا بننا چاہتا ہے، ان جیسا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، بولنا اور رہنا چاہتا ہے۔ ہمارے طرزِ زندگی (Lifestyles) انکی مرہونِ منت ہیں۔ ہمیں تہذیب یہ لوگ سکھاتے ہیں۔ ہمارا لباس، ہماری زبان، ہمارے رشتے سب پر انکا گہرا اثر ہے۔ یہ لوگ ہمارے دماغ، ہمارے تھنک ٹینک (think tank) ہیں، نئی نئی تحاقیق اور نئی نئی سائنسی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی اصطلاحالات کے ذریعے ہمیں انگشت بہ دنداں رکھتے ہیں۔مختصراً یہ کہ جو چاہے آپکا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ طبقہ بھی بڑا مظلوم ہے۔ انکی عزت، شہرت، دولت سب ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو انہیں یہاں تک لائے ہیں۔اگر یہ وہ سب نہ کریں جو اوپر والوں کا حکم ہے تو آسمان سے زمین پر پٹخ دیے جائیں۔ سکینڈلز، مقدموں وغیرہ میں الجھ کر ہیرو سے زیرو ہو جائیں۔ یہ طبقہ دراصل ان افراد پر مشتمل ہے جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی محنت ، ذہانت ، قسمت اور لوگوں کو متاثر کرنے کی قابلیت کی وجہ سے اوپر بیٹھے لوگوں کا چناو ہوتا ہے۔ چند مجاہد ان میں سے بھی ہر دور میں نکلے ہیں لیکن زہر کا پیالہ پینا پڑا، مجنوں کہلائے اور بستی بدر ہو گئے۔

پھر آتا ہے عام عوام کا طبقہ یعنی میں، شائد آپ بھی بلکہ ہم سب۔ ہمارے خواب ہمارے نہیں اور ہماری زندگی ہماری نہیں۔ہمارے خواب وہ جو اوپر مذکور طبقے نے دکھائے ہیں اور ہماری زندگی ان کے ہاتھ میں جو سب سے اوپر بیٹھے ہیں۔ عرفِ عام میں ہم مڈل کلاس کہلاتے ہیں اور لگ بھگ چھ ارب کی تعداد ہے ہماری۔ فیکٹریوں، کھیت، ہسپتالوں، سکولوں کی رونق ہم اور معیشت کا انجن بھی ہم۔ ہم صارف (consumer) طبقہ ہیں۔ ہم نہ ہوں تو کاروبار بند ہو جائیں، منڈیاں (markets) اجڑ جائیں اور حکومتیں فارغ ہو جائیں۔ لیکن وائےافسوس کہ ہم کمزور ترین طبقہ ہیں اور سب سے زیادہ منقسم بھی۔ اپنے اردگرد کے حالات کو دیکھتے ہیں اور جیسا سب کر تے ہیں ویسا ہم بھی کرتے ہیں۔ اس طرح شائد ہم انفرادی ذمہ داری سے تو جان چھڑا لیتے ہیں لیکن اپنے گلے میں پٹہ پہن کر رسی کسی اور کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ اوپر بیٹھے لوگوں کی نظروں میں ہمارا رنگ، نسل، مذہب کوئی معنی نہیں رکھتا، انکے نزدیک ہم سب شودر ہیں، انسان نما حیوان (gentiles) ہیں, ان کے اشاروں پر ناچنے والے حیوان۔ اور یوں یہ کھیل جاری ہے، تاک دھنادھن تاک کا کھیل!

مجھے نفرت ہے، یا شائد نہیں ہے۔۔۔

Posted in Humor, urdu by Shah Faisal on مارچ 10, 2007

یارو یہ سارا جھنجھٹ قدیر میاں کا پھیلایا ہوا ہے۔ نہ جانے آپ جناب کے دماغ میں کیا سمائی کہ بیٹھے بٹھائے ایک عدد بلاگ یہ لکھ مارا کہ مجھے فلاں فلاں باتوں سے نفرت ہے۔ باقی تو مجھے بھول گیا صرف ایک چیز یاد رہ گئی اور وہ تھی قدیر کی جرابیں جن سے انہیں نفرت ہے۔ میاں قدیر خدا جھوٹ نہ بلوائے محبت تو ہمیں بھی آپکی جرابوں سے ہرگز نہیں خصوصاً یہ جاننے کے بعد کہ آپکو نہانے سے بھی الرجی ہے۔ خیر بات یہں تک رہتی مگر آپ نے جناب بدتمیز صاحب کو بھی اس بحث میں گھسیٹ لیا۔ ارے نہیں صاحب یہ بدتمیز صاحب واقعی بدتمیز نہیں صرف تخلص کرتے ہیں یا شائد لقب ہی ہو، عرفیت بھی ہو سکتی ہے۔ خیر اب یہ سلسلہ جو چلا تو بدتمیز صاحب نے اچھے اچھوں کو مجبور کر دیا کہ وہ سرِبازار یہ بتائیں کہ اُنھیں کیا ناپسند ہے یا کون ناپسند ہے۔ اس ریلے میں جہاں افتخار اجمل انکل، راشد کامران، خاور کھوکھر اور متعدد دوسرے بلاگر صاحبان کہ جنکے نام اسوقت ذہن میں نہیں رہے اور جسکے لئے معذرت ، بہہ گئے وہیں ناچیز بھی تھا۔ اب بدتمیز نے زندگی میں پہلی مرتبہ کوئی فرمائش کی ہے تو پوری تو کرنا پڑے گی۔ ہاں زیادہ سوچ ساچ کر نہیں لکھونگا بس جو فی الوقت ذہن میں باتیں آئیں گی وہی عرض کر دونگا۔

ہاں تو جناب مجھے جو باتیں ناپسند ہیں (یا شائد نفرت بھی ہو) وہ کچھ یوں ہیں، بلا کسی خاص ترتیب کے:

1۔ اپنی غیبت کی عادت: آہ صاحب یقین کریں کس مشکل سے میں یہ کہہ پایا ہوں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ مجھے کسی کے پیٹھ پیچھے باتیں کر کے بڑا مزا آتا ہے۔ اور ہمیشہ ایسا کرنے کے بعد میں پچھتاتا بھی ہوں اور روزِ قیامت سے ڈر بھی بڑا لگتا ہے لیکن

؎ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

دعا کریں کہ چھوٹ جائے۔

2۔ اپنی وقت ضائع کرنے کی عادت: جو کام پانچ منٹ میں ہو سکتا ہے وہ شائد میں ایک گھنٹے میں کرتا ہوں، خصوصاً اگر وہ کام کمپیوٹر پر ہو اور انٹرنیٹ بھی مہیا ہو۔ اپنے سارے امتحانی پرچے میں آخری دن جمع کراتا ہوں، اس سے پہلے دل ہی نہیں چاہتا کام کرنے کو۔

3۔ رات کو دیر سے سونے کی عادت: کبھی کبھی تو سورج طلوع ہونے کے بعد سوتا ہوں۔ کوشش کر رہا ہوں کہ یہ عادت بھی چھوٹ جائے، فی الحال تو مشکل ہی نظر آ رہا ہے۔

4۔اپنی جلدبازی کی عادت: کئی مرتبہ نقصان بھی اٹھایا مگر ہنوز یہ عادت بھی قائم ہے۔

5۔ دوسروں کے متعلق جلدی اور اکثر غلط رائے قائم کرنے کی عادت: اب زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ بہتری آ رہی ہے۔

6۔ اپنی فضول خرچی کی عادت: اس بارے میں تو آپ بیگم سے ہی پوچھیں۔

7۔ دماغ کی جگہ دل سے سوچنے کی عادت: نتیجہ ہوتا ہے غلط فیصلے لیکن اللہ کے کرم سے آج تک کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔

8۔ غصہ کی عادت: جینیاتی ہے، لیکن جاننے والے بتائیں گے کہ اسپر کچھ کچھ قابو پا لیا ہے۔

9۔ بےسوچے سمجھے بولنے کی عادت: دراصل میں باتونی بھی ہوں اور پھر نتیجتاً کچھ اُلٹا سیدھا بھی بک دیا کرتا ہوں۔ کچھ اندازہ تو آپکو میرے بلاگ پڑھ کر بھی ہو گیا ہو گا۔

10۔ کام چوری کی عادت: جب تک انتہائی مجبوری نہ ہو، کوئی کام نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ پینے کا پانی بھی بیگم کو کہہ کر منگواتا ہوں، وہ آس پاس نہ ہوں تو پیاس بھی برداشت کر لیتا ہوں، خصوصاً اگر کمپیوٹر سامنے دھرا ہو۔

ویسے تو اور بھی بہت بُری بُری باتیں ہیں مجھ میں لیکن چونکہ صرف دس عدد لکھنے کی فرمائش تھی اسلئے یہ سلسلہ منقطع کرتا ہوں۔ ہاں آپ شائد وہ باتیں بھی پوچھنا چاہیں جو مجھے اوروں میں بُری لگتی ہیں۔ اب کیا صاحب اپنے اندر ہی اتنی برائیاں جمع ہیں کہ اوروں کے متعلق کچھ کہنا زیبا نہیں دیتا۔ ہاں چند باتیں مختصراً کہے دیتا ہوں:

1۔ اپنی صفائی پیش کرنا خصوصاً اگر میرا قصور نہ ہو۔

2۔ انسانوں کی یہ فطرت کہ وہ اپنی زندگی اوروں کی دیکھا دیکھی گزارتے ہیں، بعض اوقات یہ رویہ بھیڑ چال بھی کہلاتا ہے۔

3۔ صرف اپنے آپ کو صحیح اور بہترین سمجھنا۔ یہ بات ہماری قوم میں خصوصاً بہت زیادہ ہے۔ اسپر میں نے ایک بلاگ بھی لکھا تھا۔

4۔ ہر بات کا الزام اپنے حکمرانوں کو دینا اور یوں کر کہ اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو جانا۔ اسپر بھی انشااللہ کبھی تفصیلاً لکھونگا۔

اور بھی کچھ باتیں ہیں لیکن فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ امید ہے بدتمیز صاحب خوش ہو گئے ہونگے۔ یار ایسی مشکل مشکل باتیں نہ کروایا کرو، ساڈی وی کوئی عزت ہے، میرا مطلب ہے۔۔۔تھی!!!