Faisaliat- فیصلیات

کیمیائے سعادت

Posted in Life, urdu by Shah Faisal on اکتوبر 6, 2007

صاحبو سب سے پہلے تو اس طویل غیر حاضری کیلئے معذرت قبول کیجیئے۔ نہیں ایسا نہیں کہ میں آ پکو بھول گیا تھا۔ دراصل امتحانات، کچھ مٹرگشت یورپ کی اور پھر پیارے پاکستان کوواپسی تک کے سب مراحل طے ہوئے تو کچھ فراغت ہوئی ہے۔ اور پھر یہ زندگی بھی تو بہت تیزرفتار ہے۔ آپ ساتھ ساتھ نہ دوڑیں تو یہ آپ کو کچل کرآگے بڑھ جاتی ہے۔ خیر اس پر پھر کبھی بات ہو گی، آج تو جو کہنا چاہتا ہوں وہ بات کئی ماہ سے دل میں تھی، بس موقعہ ہی نہیں ملا۔

آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ صاحبو میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو بھی کبھی یوں لگا ہو، لیکن مجھے تو کچھ عرصہ سے اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا ہے۔ مسئلہ کچھ یوں ہے کہ مجھے خوش رہنے کیلئے کئی لیکن اداس ہونے کیلئے صرف ایک ہی وجہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یا یوں کہیے کہ خوشی کے لئے میری شرائط خاصی سخت ہیں، گر یہ چیز مل جائے، معاملہ کچھ یوں ہو جائے، یہ سنگِ میل طے ہو اور ویسا نہ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ کئی مطلوبہ شرائط پوری ہو کر ہی میں خوش ہو پاتا ہوں، یوں کہیے خوشی نہ ہوئی عالمی بنک کا قرضہ ہو گیا! اسکے برعکس اداس ہونے کو صرف چھوٹی سی وجہ ہی کافی ہوتی ہے، کوئی خبر، تصویر، گیلا تولیہ یا ٹھنڈی چائے۔ ایسا کیوں ہے؟ شائد بلکہ یقیناً میں قنوطی ہوں۔ لیکن اگر میں قنوطی ہوں تو سچ سچ بتائیے کیا آپ بھی قنوطی نہیں؟ کیا آپ ایک مکمل دنیا کے متلاشی ہیں؟ ایک ایسی دنیا جو آپکی مرضی کی ہے، جسکا محور آپ ہیں، جو آپ کے گرد گھومتی ہے اور جسکا مقصد آپکی خوشی ہے؟ نہیں نہیں یوں نہیں ذرا سوچ کر، ٹھنڈے دل سے سچ سچ بتایئے۔

اگر ایسا ہے تو پھر مسئلہ سنگین ہے۔ کسی سائنسدان نے (شائد کوئی ماہرِ ریاضیات تھا) یہ ثابت کیا کہ ایک ہی وقت میں دو انتہائیں نہیں ہو سکتیں، زبانِ فرنگ میں اس تھیورم کا نام مجھے نہیں آتا، اگر آپکو معلوم ہے تو بتا دیجیے۔ یعنی ایک ہی وقت میں سخت سردی اور سخت گرمی ممکن نہیں ہو سکتی، ایک ہی چیز بیک وقت بالکل سیاہ ہو کر بالکل سفید نہیں ہو سکتی وغیرہ وغیرہ۔ غالباً اسی لیے یہ سائنسدان لوگ خاصے قناعت پسند ہوتے ہیں۔مثلاً اگر ایک گاڑی ایسی بناتے ہیں جو سڑک پر بہت تیز دوڑ سکے تو دوسری گاڑی ایسی ہوتی ہے جو پہاڑوں پر چڑھ سکے۔ بہرحال اگر یہ بات مان لی جائے کہ بیک وقت دو انتہاوں کا حصول ناممکنات میں سے ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی دنیا کہ جس میں آپ، میں اور چھ ارب سے بالا انسان رہتے ہیں، کا محور ہم سب ہوں؟ یعنی ایک ہی وقت میں اس دنیا کا مقصد ہم سب کی خوشی ہو؟ یقیناً ایسا تو ممکن ہے ہی نہیں۔ تو کیا پھر خوشی بھی ممکن نہیں؟ پھر وہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں؟ میرے ارد گرد پھیلے ان گنت چہروں پھر پھیلی مسکراہٹوں کی کیا حقیقت ہے؟ پارک میں کھیلتے بچوں کے کھلکھلاتے قہقہے چہ معنی؟

تھوڑا سا غور کیا تو ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا۔ ہم سب ایک ساتھ نہیں الگ الگ دنیاؤں میں رہتے ہیں۔ نہیں نہیں دنیا یہی ہے لیکن ادوار مختلف ہیں۔ اس کوشش میں کہ انتہاوں کا حصول ممکن ہو سکے چاہے بیک وقت نہ سہی، اپنے آپ سے ایک خاموش معاہدے کے تحت میں یہ باور کر لیتا ہوں کہ یہ دور میرا نہیں، میرا دور تو شائد آنے والا ہے جب اس دنیا کا محور میں ہونگا، جب یہ دنیا میری مرضی کی ہو گی، ویسی جیسا کہ میں چاہوں۔ لیکن کیا ایسا کبھی ہو پائے گا؟ کیا یہ مختصر زندگی کہ جس کا بیشتر حصہ میں گزار چکا ہوں، مجھے اتنا وقت دے پائے گی؟ شائد نہیں۔ افسوس صد افسوس کہ میں آنے والے کل میں رہتا ہوں، اور کبھی کبھی تو اس کل میں کہ جو گزر گیا اور اس گزرے کل کے خوشی کے ماخذ مجھ پر اسوقت آشکار ہوئے کہ جب میں انکو ماضی کی دھول میں گم کر چکا تھا۔ بالکل ایسے جیسے میں لطیفہ گو سے پوچھوں کہ بھائی تیرے سنائے ہوئے چٹکلے میں ہنسنا کہاں تھا؟ یا کچھ ایسی کیفیت جو ہم سب پر اپنی پرانی تصاویر دیکھتے ہوئے طاری ہوتی ہے۔ زندگی کے وہ بہت سے اجزا ان پرانی تصاویر میں دکھائی دیتے ہیں کہ جن میں سے ہرجزو اپنے اندر ایک وجہ خوشی کی تھامے ہوئے تھا، اور ایسا ہر جزو کم از کم ایک لمحہ مسرت کا مستحق تھا۔ کیا یہ میری اپنے آپ سے ناانصافی بلکہ بیوقوفی نہیں کہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اداس لیکن بڑی بڑی باتوں پر بھی خوش نہیں ہوتا۔ خوشی کی تلاش مجھے آنے والے کل میں لے جاتی ہے جو مجھ سے میرا آج بھی چھین لیتا ہے۔ ایک مکمل دنیا کی تلاش مجھ میری اس نامکمل دنیا کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی چھین لیتی ہے۔

پر صاحبو میرے ساتھ ہمدردی مت کرو، مجھے ترحم بھری نظروں سے مت دیکھو کہ میں اکیلا نہیں۔ اپنی اردگرد اور ہو سکے تو اندر جھانک کر دیکھو۔ تم کہاں رہتے ہو؟ اس کل میں جو گزر گیا یا اس کل میں جو شائد کبھی آئے ہی نہ؟

ارے حضور یہ دنیا، ہاں ہاں یہی دنیا کہ جسمیں دغا ہے، فریب ہے، جھوٹ ہے، دھوکہ ہے، ملاوٹ ہے اور نہ جانے کیا کیا برائی ہے، یہی دنیا بہترین دنیا ہے۔ ارے اس کی سوچو بھائی جو اس نظام کو چلا رہا ہے۔ وہ بہترین منتظم ہے۔ اس نے یہ اعتدال رکھا ہے، نہ تو محور نہ میں محور، پھر بھی یہ دنیا تیری بھی میری بھی۔ وہ وہ کر رہا ہے جو شائد انسانی عقل سے ماورا ہے۔ تو میرے بھائی یہی دنیا بہترین دنیا ہے اور یہی وقت بہترین وقت ہے۔ اگر اس سے بہتر انتظام ہو سکتا تو وہ ضرور کرتا، وہ جو بہترین منتظم ہے! بھائیو میں تو کوشش کر کے آج میں رہنا سیکھ رہا ہوں، جو گزر گیا اور جو آئے گا، اس سے زیادہ اہم وہ آج ہے جس میں میں رہتا ہوں، یہ دنیا بھلے ادھوری ہو، میری اپنی ہے۔ یہ آج میرے ہاتھ میں ہے اور یہ خوشیاں میری گرفت میں ہیں، میری ذات میں پنہاں۔ ان کی تلاش باہر کی دنیا میں عبث ہے۔ آیئے اور اپنی زندگی کو تھام لیجیے، یہی خوشی کا نسخہ ہے، یہی کیمیائے سعادت ہے!

4 Responses

Subscribe to comments with RSS.

  1. Raza Rumi said, on اکتوبر 7, 2007 at 5:23 شام

    Huzoor
    Aap bohat acha likhtay hain..
    Adaab Arz hai..

  2. Shah Faisal said, on اکتوبر 7, 2007 at 7:11 شام

    شکریہ صاحب،
    ذرہ نوازی ہے ورنہ بندہ کس لائق ہے؟

  3. بدتمیز said, on اکتوبر 16, 2007 at 4:23 صبح

    سلام
    واقعی بہت عرصہ غائب رہے۔ چلیں دیر آید درست آید۔
    ٹھنڈی چائے یا گیلے تولئے سے اداس تو نہیں چراغ پا ضرور ہو جاتا ہوں :p
    لیکن ہم جیسوں کے گھر والے بھی ذرا گھاس نہیں ڈالتے پس ثابت ہوا گھر والوں پر فلسفے کا اثر نہیں ہوتا۔
    یہ مرض سبھی کو لاحق ہوتا ہے کسی کو کم تو کسی کو زیادہ۔
    اگر آپ اسی رفتار سے اپنے امراض کی شناخت میں مبتلا رہے تو بیگم چھوڑے نہ چھوڑے دنیا ضرور چھوڑ دے گی۔

  4. Shah Faisal said, on اکتوبر 16, 2007 at 11:16 صبح

    مشورے کا شکریہ بدتمیز، لیکن میرے خیال میں اپنی خامیاں ڈھونڈتے رہنا اچھی بات ہے، اگر مقصد اصلاح ہو۔
    ملاقات رہے گی انشااللہ۔


جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: