Faisaliat- فیصلیات

دہشت کے سیب

Posted in Life, Politics, urdu by Shah Faisal on دسمبر 21, 2007

عجیب بے تُکا سا عنوان ہے! اسکا بھلا کیا مطلب ہوا؟ دہشت گردی ہوتا، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہوتا یا زیادہ سے زیادہ دہشت کا پھل ہوتا۔۔۔۔ خیر آگے چلتے ہیں۔

صاحبو علمِ معاشیات یا اکنامکس سے میرا پہلا واسطہ اسوقت پڑا جب میں یونیوورسٹی میں زراعت پڑھ رہا تھا۔ اسوقت مجھے یہ سائنس ایک آنکھ نہیں بھائی تھی اور میں یہ بھی سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر اسکا زراعت جیسے مضمون کیساتھ کیا تعلق ہے۔ اس ضمن میں ایک سچا لطیفہ بھی یاد آ گیا سو گوش گزار کیے دیتا ہوں۔ اسی معاشیات کا امتحان تھا، ہم سب سر جھکائے Demand اور Supply کے معمے حل کر رہے تھے کہ مجھے اپنے پیچھے بیٹھے دوست کی سرگوشی سنائی دی "اوئے سنو، یہ فلاں نمبر سوال وہی سیب والا ہے نا؟” چند لمحے تو مجھے سجھنے میں لگے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے، لیکن جب سجھ آئی تو جی چاہا کہ زور زور سے قہقہے لگاؤں۔ وہ تو خیریت رہی کہ اپنی اس خواہش پر میں نے فوراً قابو پا لیا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ ہم نے معاشیات کا ایک قانون پڑھا تھاDiminishing Marginal Utility کے نام سے۔۔ لبِ لباب اسکا کچھ یوں ہے کہ جب آپ کوئی کام اپنی کسی خواہش کو پورا کرنے کیلئے کرتے ہیں تو اس کام میں آپکی خواہش کو پورا کرنے کی صلاحیت کو utility یا افادیت کہا جاتا ہے۔ کسی بھی کام یا چیز میں یہ صلاحیت محدود ہوتی ہے اور اس کام کوبار بار کرنے سے بتدریج اسکی افادیت کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ قانون سمجھاتے وقت استاد حضور نے ایک سیب کی مثال دی تھی کہ ایک محدود وقت میں کھانے پر پہلا سیب آپکو خاصا لذیذ لگے گا، بہ زبانِ معاشیات اسکی افادیت بہ درجہ اتم ہو گی۔ اسی وقت دوسرا سیب کھائیے تو وہ پہلے سے شائد کچھ کم لذیذ لگے اور تیسرا اس سے بھی کم۔ ایک موقع پر سیب کے نام سے ہی آپ کو قے ہونے لگے گی گویا اس عمل کی افادیت منفی ہو چکی ہو گی۔ یہی سیب تھا جسکی بابت میرا دوست استفسار کر رہا تھا۔

دوستو، اس وقت بیوقوفانہ حد تک سادہ نظر آنے والے اس معاشیاتی قانون سے زندگی میں بار بار واسطہ پڑیگا، اسکا اندازہ مجھے ہرگز نہیں تھا۔ اسی قانون کو سامنے رکھ کر مجھے دینِ اسلام کی یہ بات سمجھ آئی کہ کیوں اسلام میں مقدار کی نہیں معیار کی اہمیت ہے اور کیسے ایک شاہ کے صدقہ کیے ہزاروں اونٹوں سے ایک فقیر کا صدقہ کیا گیا دودھ کا آدھا پیالہ افضل ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی اس قانون کی ہماری آج کی زندگی میں اہمیت کی۔ حضور آپ خود سیانے ہیں، باقی چیزوں کا حساب آپ خود لگا لیں کہ اس قانون کا اطلاق کہاں کہاں ہوتا ہے، مثلاً ایک شخص کی پاس پہلے ایک گاڑی ہے تو وہ اس کیلئے کتنی مفید اور نتیجتاً اسے کتنی عزیز ہو گی، جب دو ہوں تو افادیت کتنی ہو گی اور دونوں کتنی عزیز ہوں گی اور اگر بہت سی ہوں تو کیا صورتحال ہو گی۔ عقلمند خواتین غالباً اسی قانون کو مدِ نظر رکھ کر شوہروں کو دوسری شادی نہیں کرنے دیتیں۔قصہ مختصر ذرا سوچیے تو وہ کونسا ایسا شعبہ ہائے زندگی ہے کہ جہاں یہ اصول کارفرما نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ علمِ معاشیات ہمارے رویوں کا کتنا وسیع طور پر احاطہ کرتا ہے۔ ہاں البتہ میرے نزدیک ایک عمل ایسا ہے کہ جہاں یہ اصول پوری طرح ناکام ہو جاتا ہے اور جہاں ہماری عام زندگی میں حد درجہ کار آمد علمِ معاشیات بھی بے بس نظر آتا ہے۔

ابھی علمِ معاشیات کے جس قانون کا میں نے آپ سے ذکر کیا ہے، یہ عام طور پر نو کلاسیکی اکنامکس کے زمرے میں آتا ہے کہ جس کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کا بیشتر حصہ استوار ہوا اور دنیا کی بہت سی معیشتوں نے اس نظام کو اپنایا، مثلاً سارا شمالی امریکہ، مغربی یورپ، جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ۔ اسکے بر عکس دنیا کا کچھ حصہ اس نظام کو نہیں مانتا جسے عرفِ عام میں سوشلسٹ ممالک کہا جاتا ہے۔ ان میں (سابقہ) سویت یونین اور دیگر مشرقی یورپی ممالک، چین، شمالی کوریا اور کچھ لاطینی امریکی ممالک مثلاً کیوبا وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ سوشلزم کا نظام اپنے اندر خاصی کشش رکھتا تھا اس لیے سرمایہ دار ممالک کہ جنکا سرغنہ امریکا تھا، کی پوری کوشش تھی کہ اس نظام کو پھیلنے سے روکا جائے اور یوں دنیا بھر کی دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ممکن ہو سکے، کہ جسکی سوشلزم میں کوئی صورت نہیں تھی۔ اس کشمکش کو سرد جنگ کا نام دیا گیا۔

سویت یونین کی افغانستان پر چڑھائی گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے کے مترادف تھی، امریکا نے افغانوں کی حریت اور پاکستانی عسکری دماغوں کی ذہانت کا پورا فائدہ اٹھایا اور نتیجتاً سویت روس کا شیرازہ بکھر گیا۔سرد جنگ تمام ہوئی، آہنی پردے کے ورے موجود بیشمار مشرقی یورپی ممالک مثلاً مشرقی جرمنی، پولینڈ، یوگوسلاویہ، چیکوسلوواکیہ، اور خود روس نے سرمایہ دارانہ نظام اپنانے کا اعلان کیا اور یوں امریکی اور اسکے ہمنوا ممالک کے تاجروں کیلئے نئی منڈیاں کھل گئیں۔جہاں اس سارے معرکے سے بیشمار تجارتی فوائد حاصل ہوئے، وہیں ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اب جبکہ کوئی دشمن ہی نہیں رہا تھا تو وہ اسلحہ ساز فیکٹریاں کہاں جائیں جو اربوں ڈالر مالیت کی تھیں، وہ ہزاروں کارکن کیا کریں جنکا واحد ہنر اسلحہ بنانا تھااور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی عوام کہ جن کے پیسوں سے یہ سب ہو رہا تھا، سے کس منہ سے ٹیکس وصول کیے جائیں؟
ویسے تو جنگیں ہمیشہ سے ہی کم وقت میں زیادہ منافع کمانے کا ایک ذریعہ رہی ہیں لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ میں اسلحہ سازی ایک بہت منافع بخش اور بہت بڑی صنعت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام جہاں آزاد منڈیوں کی بات کرتا ہے وہیں ان منڈیوں میں ریاستی عمل دخل کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ جہاں دولت کا لامحدود ارتکاز ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے وہیں نو کلاسیکی معاشیات اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ معیشت کا بہترین نظم صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہر انسان اپنی فطری خواہش یعنی افادیت کے بہ درجہ اتم حصول کی کوشش کریگا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ ایک آزاد (یعنی ریاستی عمل دخل سے پاک) منڈی میں تاجر اور خریدار آپس میں اپنی اپنی عقل و فہم اور معلومات کے مطابق سودا کرتے ہیں اور دونوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں اس سودے سے اپنی خواہش (یعنی منافع یا بچت) کو ممکنہ حد تک پورا کرنے کا موقع ملے۔

اسی منطق کیوجہ سے اسلحہ سازی سمیت دیگر تمام منافع بخش صنعتیں مثلاً ادویہ سازی، معدنیات، رسل و رسائل اور توانائی وغیرہ حکومتوں کی گرفت سے نکل کر پرائیویٹ ہاتھوں میں جا پہنچیں اورتاوقت تاجر بتدریج ہر صنعت مثلاً تحقیق، تعلیم، صحت، پینے کا پانی وغیرہ بھی اپنا رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں عالمی بنک، آئی ایم ایف اور اسی قبیل کے دیگر اداروں نے تیسری دنیا میں بھی زبردستی کئی شعبوں کو سرکاری تحویل سے نکال کر تاجروں کے حوالہ کر دیا تھا۔ یقیناً آپ نے پرائویٹائزیشن، ڈاؤن سائزنگ اور اسی طرح کے کئی الفاظ اُس دور میں سنے ہوں گے اور یہ سلسہ اب بھی جاری ہے۔

صاحبو آپ کسی دوست کے گھر میں پانی مفت پینا پسند کرینگے، لاہور کے ریلوے سٹیشن پر شائد دس روپے کی پانی کی بوتل خرید لیں لیکن اگر آپ چولستان کے صحرا میں ہیں اور کئی دن کے پیاسے تو شائد پانی کے چند گھونٹوں کے بدلے آپ اپنی ساری دولت لُٹا دیں۔ یہ وہ وقت ہے جہاں علمِ معاشیات ہماری مدد کرتا ہے۔ چیز وہی ہے یعنی پانی لیکن مختلف مواقع پر اسکی افادیت مختلف ہے۔ کچھ ایسا ہی امریکی اور یورپی عوام کے ساتھ ہوا۔ یہ اقوام affluent nations کہلاتی ہیں۔ یہاں خوراک اور زندگی کی دیگر بنیادی اشیاء نسبتاً سستے داموں ملتی ہیں۔ ان چیزوں پر ایک عام امریکی یا یورپی کی رقم کا بہت کم حصہ خرچ ہوتا ہے۔ پھر بات آتی ہے عیاشی کی۔ شباب تو تقریباً مفت ہے، البتہ شراب پر کافی پیسہ لگ جاتا ہے۔ رہی بات گاڑی، گھر، الیکٹرانکس کی اشیا وغیرہ کی تو ہر شخص کبھی کبھار ہی خریدتا ہے، روز روز نہیں۔ ایسے میں تاجر کمائے تو کیسے؟
انسان جبلی طور پر تو حیوان ہی ہے اور دو بنیادی جذبے ہر انسان میں ہوتے ہیں۔ یہ ہیں خوف اور لالچ۔ اگر ایسا نہیں تو ذرا سوچیے کہ اللہ میاں نے جنت اور دوزخ دونوں کیوں بنائے؟ ایک طرف pull factor کام کرتا ہے تو دوسری طرف push factor یعنی اگر کسی کیلئے جنت کے لالچ تو کسی کیلئے دوزخ کا خوف مقدم ہے۔ ذرا واپس چل کر شروع میں بیان کردہ سیب کی مثال لیتے ہیں۔ آپ پہلا، دوسرا اور شائد تیسرا سیب خرید کر کھا لیں لیکن چوتھا اگر کوئی مفت بھی دے تو آپ نہ لیں۔ لیکن ایک لمحے کلئے غور کیجیئے کہ اگر سیبوں سے آپ کا پیٹ اور دل دونوں بھرے ہوں اور ایسے میں کوئی آپکو زبردستی سیب کھلانا شروع کر دے اور ایسا نہ کرنے کے پیسے مانگے تو آپ کیا کرینگے؟ یقیناً جان بچانے کیلئے آپ اسے پیسے دیں گے۔ بس یہی بات اہم ہے، یہیں پر اوپر بیان کردہ قانون فیل ہو جاتا ہے۔ گاڑیوں، گھروں، شراب، شباب سے پیٹ بھر جانے کے بعد لالچ تو رہا نہیں، سو خوف کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب دہشت کے مارےامریکی عوام جان بچانے کیلئے دھڑا دھڑ ٹیکس دے رہے ہیں، اپنی شخصی آزادی کہ جس کیلئے امریکہ ضرب المثل تھا، کی قربانی دے رہے ہیں اور دیگر بہت سے ایسے کام کر رہے ہیں یا قبول کر رہے ہیں جو وہ بصورتِ دیگر ہرگز ہرگز نہ کرتے۔اب ان کے دیے گئے ٹیکسوں پر جنگیں پنپ رہی ہیں اور اسلحہ ساز کارخانے دن دگنا رات چگنا منافع کما رہے ہیں۔ہماری بدقسمتی کہ دشمن چننے کی قرعہ اندازی میں مسلمان قوم کا نام نکل آیا اور ہم تقریباً گھر بیٹھے بیٹھے بن گئے زیرو سے ہیرو۔۔۔ نہیں، ولن!

لینکس کے متوالوں کےلئے ایک اچھی (یا شائد بری) خبر

Posted in Computing, urdu by Shah Faisal on دسمبر 6, 2007

نہیں رُکیے صاحب، آپ غلط سمجھے۔ یہ خبر صرف لینکسیوں (یعنی وہ لوگ جو لینکس استعمال کرتے ہیں) کیلئے نہیں ہے۔ یہ خبر ہر اس شخص کیلئے ہے جو اپنی آزادی سے محبت کرتا ہے، جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے یا شائد وہ بھی جو اس قطار کی دوسری انتہا پر کھڑا ہے، میری مراد اس شخص سے ہے جو ان اعلی و ارفع وجوہات کی بجائے صرف اس سادہ سی حقیقت کو مدِنظر رکھ کر لینکس استعمال کرتا ہے کہ یہ کمپیوٹر چلانے والا عمدہ نظام بالکل مفت ہے اور ہمیشہ مفت رہیگا۔ یہ کیا گھمن گھیری ہے کہ رنگ رنگ کے لوگ لینکس استعمال کرتے ہیں اور سب کی ایسا کرنے کی اپنی اپنی وجہ ہے؟ خیر اس پر تو انشاہ اللہ پھر کبھی بات ہو گی، آج تو ایک اہم خبر لے کر حاضر ہوا ہوں۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ لینکس کے کئی ذائقے ہیں۔ ارے یہ کیا؟ ذرا پھر سے کہیے۔ کیا میں نے ٹھیک سے سنا؟ چلیں کوئی بات نہیں دیر آئد درست آئد۔ آخر آپ نے پوچھا تو سہی کہ یہ لینکس کس چڑیا کا نام ہے، یہی بڑی بات ہے۔ اچھا یہ بتائیں آپ نے ونڈوز کا نام سنا ہے؟ جی جی وہی ونڈوز جو غالباً آپ کے کمپیوٹر میں موجود نظام ہے اور جسکو آپ نے ایک اچھی خاصی رقم صرف کر کے حاصل کیا ہے۔ ویسے یہاں میں یہ فرض کر رہا ہوں کہ آپ ایک اصول پسند انسان ہیں اور چوری چکاری سے دور رہتے ہیں ورنہ ہمارے یاں تو ونڈوز کی سی ڈی آپ کو کسی ریڑھی والے سے بھی، سستے داموں مل جائے گی۔ خیر وہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ بس یہ جان لیجیے کہ کمپیوٹر نظاموں میں ونڈوز کے علاوہ ایپل کمپنی کا میک (Mac) بھی ایک مقبول نظام ہے گرچہ پاکستان میں اس کے شیدائی کم کم ہی ہیں۔ ہاں یہ وہی ایپل ہے جسکے دوسرے مقبول پراڈکٹس میں مشہورِ زمانہ آئی پاڈ (Ipod) اور حال ہی میں شروع ہوا آئی فون (Iphone) ہے۔ خیر ان دو کمپیوٹر نظاموں کے علاوہ بھی دنیا ہے اور وہ دنیا ہے لینکس۔ یہ آزاد مصدر یعنی اوپن سورس ہے یعنی اسکا کوڈ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اگر آپ کرنا چاہیں تو یہ کوڈ اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں۔ دوسری طرف اگر یہی کام آپ ونڈوز کے ساتھ کریں تو پھر شائد عدالت کا سامنا تیار کرنے کو تیار رہیں کہ مائکروسوفٹ یعنی ونڈوز نظام کی مالک کمپنی اپنے استعمال کنندگان کے ساتھ ایسا سلوک کرنے میں خاصی بدنام ہے۔ اسکے برعکس لینکس نظام کے موجد (اللہ اسکو دینِ اسلام کی طرف راغب کرے اور ایسی نیکیوں کی توفیق اسکے بعد بھی برقرار رکھے، آمین) نے اسکا کوڈ کُھلا اسی شرط پر رکھا تھا کہ آپ اسکو استعمال کریں، بہتر بنائیں لیکن اپنی تبدیلیوں کو آپ بھی نہیں چھپا سکتے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی شخص درخت لگائے لیکن اسکا پھل اس شرط پر سب میں بانٹ دے کہ کھانے والا نہ صرف یہ کہ درخت کو بہتر سے بہتر بنائے گا بلکہ اوروں کو بھی پھل کھانے سے نہیں روکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی ایجاد کے بعد لینکس خوب پھلی پھولی اور اب بھی پھل پھول رہی ہے۔ لیکن ٹھہریے، لینکس صرف ایک بنیاد ہے جس پر کمپیوٹر کے دوسرے اطلاقیے (Applications) کھڑے ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ انٹرنیٹ کی سیر چاہتے ہیں، برقی خط یعنی ای میل بھیجنا چاہتے ہیں، کوئی تصویر اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں، موسیقی سننا یا کوئی فلم دیکھنا چاہتے ہیں تو ایسا صرف لینکس یا ونڈوز کے استعمال سے ممکن نہیں۔ یہ دونوں یا ایسے کچھ اور نظام صرف بنیاد فراہم کرتے ہیں، اپنے کمپیوٹر سے ایسا کوئی بھی کام لینے کیلئے آپکو اطلاقیوں یا اپلیکیشنز کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ انٹرنیٹ کی سیر چاہتے ہیں تو اسکے لیے آپکو ایک عدد انٹرنیٹ براؤزر (Internet Browser) کی ضرورت پڑے گی مثلا مائکروسوفٹ ونڈوز میں موجود انٹرنیٹ ایکسپلورر، موزیلا کارپوریشن کا فائر فاکس یا پھر سفاری، اوپیرا، ایپیفینی وغیرہ ایسے اطلاقیے ہیں جن کی مدد سے آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ ویسے موٹے موٹے کام کرنے کے لیے ونڈوز یا میک والے اپنے نظاموں کے ساتھ کچھ ایسے اطلاقیے مفت فراہم کر دیتے ہیں، باقی چیزوں کے آپکو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ مثلاً انٹرنیٹ ایکسپلورر تو آپکو مفت مل جائے گا لیکن مائکروسوفٹ آفس (Microsoft Office) آپکو مہنگے داموں خریدنا پڑے گا۔ اس صورتحال کو کچھ ایسا ہی لیجئے جیسے کوئی گاڑی تو قدرے سستے داموں آپکو مل جائے لیکن اسکو چلانے والا پٹرول آپکو انتہائی مہنگے داموں خریدنا پڑے۔ اب یہ کہنے کی ضرورت تو ہے نہیں کہ بنا پٹرول گاڑی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
میرے خیال میں اب مناسب وقت ہے کہ آپکو لینکس کے مختلف ذائقوں یعنی ڈسٹریبیوشن جسکو عام طور بھی مختصراً ڈسٹرو (Distro) بھی کہا جاتا ہے، کی بابت بھی بتا دیا جائے اور یہ وضاحت بھی ہو جائے کہ انگریزی زبان کے لفظ Free کا دنیائے لینکس میں کیا مطلب ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ لینکس (یا ونڈوز یا میک وغیرہ وغیرہ) صرف بنیادی نظام ہیں اور یہ نظام بغیر اطلاقیوں کے، ہم جیسے استعمال کنندگان کے کسی کام کے نہیں۔ اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ دنیا بھر میں مختلف تجارتی کمپنیاں (Corporate organizations)، غیر تجارتی ادارے (not-for-profit organizations)، مختلف ہم خیال، ہم ذوق یا ہم شوق لوگوں کے گروپ اور یہاں تک کہ انفرادی طور پر سرگرم اشخاص بھی، لینکس کے بنیادی ڈھانچے پر اپنی مرضی کے اطلاقیے چڑھا کر آپکو استعمال کیلئے پیش کرتے ہیں، یعنی بنیاد وہی لیکن شکل، سہولیات، استعمالات اور مقاصد مختلف۔ لینکس کی انہی اقسام کو ڈسٹروز (یا اردو میں ذائقہ کہہ لیں) کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ بھی خیال رہے کہ Free کا مطلب یہاں مفت نہیں بلکہ آزاد مصدر ہے، گرچہ لینکس کے کچھ بلکہ کافی کچھ ذائقے بالکل مفت بھی دستیاب ہیں۔ جو لوگ لینکس کے ذائقے بیچتے ہیں، بالکل غلط نہیں کرتے۔ آخر بنیادی ڈھانچے میں مناسب تبدیلی، مناسب اطلاقیوں کا چناؤ اور پھر منڈھاؤ، تقسیم کے کسی ذریعہ کا استعمال مثلاً سی ڈی یا ڈی وی ڈی کی تیاری اور پھر اس ذائقے کی تشہیر اور بعد از فروخت سروس وغیرہ وہ سب وجوہات ہیں کہ جنکی وجہ سے کوئی اگر لینکس بیچنا چاہے تو بیچ سکتا ہے۔ اور اس بات کی اجازت لینکس کے موجد نے بھی دے رکھی ہے۔ اب اگر ایسا ہے تو وہ لوگ کون ہیں جو نت نئے ذائقے تیار کرتے ہیں اور پھر استعمال کے لئے مفت پیش کرتے ہیں؟ جیسا کہ پہلے عرض کیا ایسا بہت سے لوگ یا ادارے کرتے ہیں۔ بسااوقت تجارتی ادارے دونوں قسم کی لینکس پیش کرتے ہیں، مثال کے طور پر ریڈہیٹ والے دفتری ماحول کے لیے ریڈ ہیٹ لینکس بیچتے ہیں جبکہ مشہورِ زمانہ لینکس کا ذائقہ فیڈورا مفت فراہم کرتے ہیں، آپ اسکو انٹرنیٹ سے باآسانی لے سکتے ہیں۔ اسی طرح لنسپائر والے اپنی ایک قسم فری سپائر مفت دیتے ہیں، مینڈریوا والوں کا بھی ایک مفت ایڈیشن ہے۔ دوسری طرف کچھ ادارے لینکس ذائقہ تو مفت فراہم کرتے ہیں لیکن اگر آپکو اسکے استعمال میں مدد چاہیے (یعنی بعد از فراہمی کی سروس) تو ایسا کرنے کے وہ پیسے لیتے ہیں، اسکی بہترین مثال ابنٹو لینکس (جو میں اس وقت استعمال کر رہا ہوں) والے کرتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ یا شخص انکی باقاعدہ مدد چاہتا ہے تو وہ ایسا کچھ رقم کی ادائیگی کے بعد کر سکتا ہے گرچہ میرے ذاتی خیال کے مطابق گھریلو استعمال کنندگان میں شائد ہی کوئی ایسا کرتا ہو کیونکہ جب آپ انٹرنیٹ کے ذریعے چند لمحوں میں اپنے سوال کا جواب دنیا بھر میں پھیلے ابنٹو گھرانے کے دوستوں سے حاصل کر سکتے ہیں تو پیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اب آتے ہیں لینکس اطلاقیوں کی جانب کہ جن کے بغیر لینکس تو کیا کوئی بھی کمپیوٹنگ نظام کم از کم مجھ جیسے گھریلو صارف کیلئے بیکار ہے۔ کیا صرف لینکس ہی مفت دستیاب ہے یا ایسے اطلاقیے بھی جو اسکو کارآمد بناتے ہیں، مفت دستیاب ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ لینکس مفت حاصل کرنے کے بعد معلوم ہو کہ اب اطلاقیوں پر خطیر رقم خرچ کر پڑیگی؟ کہیں گنجے کو کنگھی خریدنے کے بعد علم ہو کہ اسکے سر پر تو بال ہی نہیں؟ کہیں کوئی آپکو گاڑی مفت اور پٹرول اپنی مرضی کی قیمت کا بیچ رہا ہو؟ دیکھیں ایسا ممکن تو ہے اور ہم عام زندگی میں ایسی بہت سی مثالیں دیکھتے ہیں۔ مثلاً جرمنی میں او ٹو (o2) والے بیش قیمت موبائل فون تو ایک یورو یعنی تقریاً اسی پچاسی رپوں کا دیتے تھے لیکن کنشکن انہی کا استعمال ہوتا تھا اور وہ آپ کے ساتھ کیے گئے دو سالہ معاہدے میں ساری کسر نکال لیتے تھے۔ خیر یہاں ایسا کچھ نہیں، سو گھبرائیے مت۔ گرچہ ایسے اطلاقیے موجود ہیں جو آپ پیسوں سے خرید سکتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں مفت اطلاقیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جو بھی کام آپ کرنا چاہتے ہیں، اسکے لئے کئی قسم کے اطلاقیے موجود ہیں جنہیں آپ انٹرنیٹ سے مفت حاصل کر سکتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ کہاں مہنگا مائکروسوفٹ آفس اور کہاں اس سے بہتر کام کرنے والا بالکل مفت اوپن آفس (openoffice.org) جو مزے کی بات کہ ونڈوز اور لینکس دونوں کیلئے دستیاب ہے۔ ویسے اگر آپ لینکس کے لئے دستیاب اطلاقیوں کا موازنہ ونڈوز میں چلنے والے اطلاقیوں سے کرنا چاہیں تو یہاں اور یہاں دیکھ لیں، یقیناً صورتحال واضح ہو جائے گی کہ آزادی کسے کہتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ لینکس کیلئے بنائے جانے والے بیشتر اطلاقیے بالکل مفت دستیاب ہیں بلکہ یہ بھی کہ ایک ہی کام کرنے کیلئے آپکو کئی اقسام کے اطلاقیے ملتے ہیں، آپکی مرضی کہ ان میں سے کوئی سا بھی اپنی پسند یا ضرورت کے مطابق استعمال کریں۔
اب یقیناً آپ کے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہو گا کہ اگر اسوقت لینکس کے بلاشبہ ہزاروں ذائقے مفت دستیاب ہیں تو ان میں سے کون سا استعمال کرنا بہتر رہیگا۔ فکر کی کوئی بات نہیں، آپ یہ سوال پوچھنے والے تنہا شخص نہیں، تقریباً ہر شخص جو لینکس کو آزمانا چاہتا ہے، جلد یا بدیر یہی سوال پوچھتا ہے۔ خود میں نے بھی دسیوں ذائقے آزمائے ہیں۔ ویسے آپ اس ویبسائٹ پر ان میں سے چند ایک کا قدرے تقابلی جائزہ دیکھ سکتے ہیں۔ مختلف لوگ مختلف ذائقے پسند کرتے ہیں اور ایسا کرنے کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ مجھے ابنٹو اور ڈیبین اچھے لگتے ہیں (گرچہ انکی بھی مزید اقسام ہیں) لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فیڈورا، اوپن سُوز، سلیک ویر، پی سی لینکس او ایس، گینٹُو، زین واک، پپی وغیرہ بُرے ہیں۔ اگر آپ لینکس استعمال کرتے ہیں تو ضرور بتائیے گا کہ کونسی اور کیوں استعمال کرتے ہیں۔
اے لو، بات کیا تھی اور کہاں سے کہاں نکل گئی۔ خبر تو تھی لینکس والوں کیلئے لیکن سارا وقت ونڈوز والوں کو آزادی کا مطلب سمجھانے میں گزر گیا۔ خیر اب مختصراً بتا دیتا ہوں۔ لینکس کے مختلف ذائقے آپکی ضرورت کے اطلاقیے ہر وقت اپنے گودام جسے ریپازٹری (repository) کہا جاتا ہے، میں رکھتے ہیں اور ان کو انٹرنیٹ سے حاصل کرنے کا کوئی نہ کوئی سہل طریقہ بھی لینکس نظام میں رکھتے ہیں تا کہ بنیادی نظام کی تنصیب کے بعد آپ اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق مختلف النوع اطلاقیے اس نظام پر منڈھ لیں۔ اس اہتمام کو پیکج مینیجمنٹ سسٹم (package management system) کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت لنسپائر والوں نے کی ہے۔ انکا اطلاقیے حاصل کرنے کا طریقہ (جو ظاہر ہے کہ خود بھی بہ ذریعہ ایک اطلاقیہ ہی ہے) سی این آر کہلاتا ہے (جسکی کچھ تفصیل یہاں بھی ہے) جو پہلے صرف لنسپائر لینکس یا اسکی مفت قسم فری سپائر کے استعمال کنندگان کے لئے مخصوص تھا۔ اب انہوں نے حیرت انگیز طور پر اپنا یہ نظام انتہائی دریا دلی سے لینکس کے سب ذائقوں کو مفت دینے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی آپ ایک چھوٹا سا پروگرام اپنے زیرِ استعمال کسی بھی لینکس ذائقے میں نصب کر کے لنسپائر والوں کے گودام میں موجود ہزاروں اطلاقیوں میں سے کوئی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ گرچہ یہ اطلاقیے آپ انٹرنیٹ سے براہِ راست بھی حاصل کر سکتے ہیں لیکن پھر ان اطلاقیوں کی آپ کی زیرِاستعمال لینکس میں تنصیب بعض اوقات ذرا تکنیکی مسئلہ بن جاتی ہے اور اس میں کم از کم میری صلاحیت تو انتہائی محدود ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ لنسپائر دنیائے لینکس میں خاصی متنازعہ رہی ہے اور اسکی تازہ وجہ وہ متنازعہ معاہدے تھے جو اس کمپنی نے مائکروسوفٹ کے ساتھ کیے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایسے معاہدوں کے ذریعے مائکروسوفٹ لینکس پر قبضے کی کوشش بھی کر سکتی ہے اور پھر وہی گنجے کو کنگھی کی فروخت۔۔۔ خیر اب لینکسیوں کو کون سمجھائے کہ بھائی یہاں تو لوگوں نے پانی بھی بوتلوں میں بند کر کے بیچا ہے، تم تو انسانی عقل کی فروخت پر پابندی چاہتے ہو۔ بہرحال یہ فیصلہ تو شائد وقت ہی کریگا کہ لنسپائر والوں کی اپنی ٹیکنالوجی کی مفت فراہمی کی کیا وجہ تھی اور آیا ان کی نیت صاف تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟