اللہ میاں کا ورکنگ سٹائل
گئے دنوں کی بات ہے، ایک مذہبی کتاب میں پڑھا تھا کہ ہر خیر اور شر کو پیدا کرنے والی ذات اللہ میاں کی ہے۔ اسوقت تو چونکہ مولوی صاحب کے مولا بخش کا خوف سوچنے سمجھنے کی خواہش پر حاوی تھا، اسلئے میں نے بھی رَٹ کر سنا دیا۔ پھر برسوں بیت گئے، مجھے وہ رٹا بھی بھول گیا اور اسکا ترجمہ بھی۔ اب چند دن پہلے یہ بات پھر کہیں نظر سے گزری تو گویا دماغ میں کُھب سی گئی۔
اس بات کو تو چلو مان لیا کہ ہر خیر کا پیدا کرنے والا اللہ میاں ہی ہے، شر کو اسکی تخلیق کیسے مانیں؟ کیا دنیا کی ہر برائی اللہ میاں کی پیدا کردہ ہے؟ کیا یہ ساری قتل و غارت، بیحیائی، چوری، ظلم، نا انصافی اللہ میاں نے پیدا کی؟ ایک لحاظ سے دیکھیں تو ہاں، کیونکہ چونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے تو اچھی یا بری، ہر چیز اسی کی تخلیق ہے۔ بات سادہ سی ہے لیکن اتنی بھی نہیں۔ اللہ تعالٰی اپنی مخلوق سے محبت کرتے ہیں، ٹھیک؟ صاف بات ہے، کیا آپ اپنی کسی تخلیق سے محبت نہیں کرتے؟ ایک شاعر اپنی شاعری سے، ایک مصنف اپنی تصنیف سے، ایک سائنسدان اپنی ایجاد یا دریافت سے، ایک مصور اپنی تصویر سے، ایک ماں اپنے بچے سے، ایک استاد اپنے ہونہار شاگرد سے محبت نہیں کرتا؟ اگر یہ سب اپنی تخلیقات سے، اپنی ان تخلیقات سے کہ جنکا وجود مستعار لی ہوئی صلاحیتوں سے وجود میں آتا ہے، محبت کرتے ہیں تو اللہ میاں اپنی مخلوق سے محبت کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا کہا؟ مستعار لی ہوئی؟ ہاں یقیناً مستعار لی ہوئی ہی تو ہیں۔ ایک مصور کی جن انگلیوں نے وہ شاہکار تصویر بنائی، کیا وہ انگلیاں اس نے خود بنائی تھیں؟ کیا ماں نے بچہ جننے کی صلاحیت خود ہی پیدا کی تھی؟ کیا سائنسدان کا دماغ اسکی اپنی ایجاد ہے؟ نہیں، بلکہ یہ سب تو قدرت کا عطیہ ہیں اور ہمیں مستعار دی گئی ہیں اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے کہ خود جسکی وجہ سے ہم ہیں، ہماری reason to exist ہے۔ ورنہ ہمارا وجود چہ معنی؟ کائنات کی دوسری مخلوق کم تھی کیا؟ اس پوری دنیا میں جتنے انسان بستے ہیں، اتنی تعداد کے برابر حشرات الارض تو صرف ایک کلومیٹر (یا شائد ایک مِیل) میں ہی موجود ہیں۔ پھر باقی جانور، پیڑ، پودے، جِن، فرشتے، ان سب کا تو شمار ہی نہیں۔
خیر بات یہ نہیں ہو رہی کہ حضرتِ انسان کیوں تخلیق ہوا۔ اس موضوع پر سینکڑوں عالم فاضل لوگوں نے ہزاروں صفحات سیاہ کیے ہیں، آپ وہ پڑھ لیں یا پھر انتظار کریں اس دن کا کہ میں بھی ایک ایسا مضمون لکھوں۔ یہاں تو بات یہ ہو رہی ہے کہ خیر کیساتھ شر بھی اللہ میاں کی تخلیق ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کیوں ہے۔ چلیں یہ بات بھی مان لی کہ شر بھی اللہ میاں نے ہی پیدا کیا۔ اب اگر یہی حقیقت ہے تو اس شر کے امین کیوں برے ہوئے؟ مطلب یہ کہ برے لوگ کیوں برے ہوئے؟ وہ تو سیدھے سبھاؤ اس چیز کے حامل یا carrier ہیں کہ جو اللہ میاں کی تخلیق تھی اور جسے آخر کہیں تو رکھا جانا تھا، سو وہ برے لوگوں میں رکھ دی گئی۔۔۔۔لو جی، ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اگر برے لوگ صرف اپنی ڈیوٹی نبھا رہے ہیں، اپنی وجہ ء تخلیق سے وفا کر رہے ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر جنت، دوزخ چہ معنی؟ سیدھی سی بات ہے، اللہ میاں نے مجھے پیدا کیا، شر کو پیدا کیا، مجھے اس شر کا گھر بنایا اور بس۔۔۔ پھر میرے لیے دوزخ کیوں؟ یہ کیسا انصاف ہے؟ نہ نہ۔۔۔۔ رُکیے، ٹھہریے، کیا آپ پریشان ہو رہے ہیں؟ چلو اچھی بات ہے، کیونکہ مجھے اس بات پر پریشانی ہوتی اگر آپ پریشان نہ ہوتے۔ کیونکہ یہ سب سوچ کر ہی تو میں بھی پریشان تھا، کافی پریشان کہ آجکل ہمارے اردگرد ہونے والے واقعات پے در پے شر ہیں، خیر کم کم ہی نظر آتی ہے۔ کیا وجہ ہے، یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اگر یہ سب اسکی طرف سے ہے تو کیوں ہے کہ وہ تو اپنی مخلوق سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ وہ اس شر کو ختم کیوں نہیں کر دیتا اور دوزخ کو نابود کیوں نہیں کر دیتا کہ پھر شر کی عدم موجودگی میں دوزخ کا وجود بھی لا یعنی ہے اور پھرجیسے کہانیوں میں ہوتا ہے کہ they all lived happily ever after۔۔۔ خیر پھر اللہ میاں نے مہربانی کی، رستہ دکھایا۔ اور اب میں دردِ زہ میں مبتلا ہو کر یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔۔۔۔
صاحبو یہ حقیقت ہے، اللہ میاں کا بھی ایک ورکنگ سٹائل ہے، جیسے آپکا، میرا، ہم سب کا ہوتا ہے۔ غصہ نہ ہوں، جذباتی نہ ہوں، پہلے میری بات سن لیں، پھر جو جی میں آئے کہہ لیجیے گا۔ ہاں تو بات ہے کام کرنے کے انداز کی۔ میرا انداز بڑا عجیب ہے، مجھ سے صبح نہیں اٹھا جاتا، ایسا کوئی بھی کام جسمیں علی الصبح اٹھنا شامل ہو، مجھ سے شائد کبھی نہ ہو گا۔ بالعموم کام پر آنے والا آخری آدمی میں ہی ہوتا ہوں۔ خیر بات میری نہیں اللہ میاں کی ہو رہی تھی، سو بندہ یہ کہہ یہ رہا تھا کہ ہماری طرح اللہ میاں کا بھی کام کرنے کا اپنا انداز ہے، سٹائل ہے۔ لیکن ایک بڑا بنیادی فرق ہے ہمارے اور اللہ میاں کے ورکنگ سٹائل میں۔ فرق یہ ہے کہ ہم انسانوں کے کام کرنے کے انداز ہماری عادات پر منحصر ہوتے ہیں، جبکہ اللہ میاں کا کام کرنے کا انداز بھی ہم انسانوں ہی کی عادات اور صلاحیتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ آپ شائد کہیں کہ یہ کیا بات ہوئی، اللہ میاں تو بے نیاز ہے، اسے ہماری عادتوں کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی کیا ضرورت، جو کرنا ہے سیدھے سیدھے کر دیں، اتنا لحاظ کیا کرنا، اتنے پاپڑ کیا بیلنا؟
ارے۔۔۔ مجھے ایک کہانی یاد آ گئی جو مکمل تو یاد نہیں سو کچھ خلاصہ ہی بیان کر دیتا ہوں۔ بات تو اللہ میاں اور ہم انسانوں کی ہو رہی ہے لیکن کہانی ہے ایک خاص قسم کے جِن کی، جی آپ درست سمجھے، کہانی ہے ہمارے آس پاس، دائیں بائیں کثرت سے موجود جنابِ شیطان کی۔ کہتے ہیں کہ ایک بزرگ سرِ بازار شیطان سے ملے تو گلہ کیا کہ وہ ہر وقت زمین میں فساد پھیلاتا ہے۔ شیطان نے کہا سَر جی میرا تو کوئی قصور نہیں ہوتا، واقعات خود ہی ایسا رُخ اختیار کر جاتے ہیں۔ اپنی بات کے عملی ثبوت کے طور پر شیطان نے پاس پڑی پرات میں انگلی ڈبوئی اور دیوار پر مل دی۔ اس پرات میں دراصل چینی کا شیرہ تھا جو دکان پر بیٹھا حلوائی جلیبیاں تلنے میں استعمال کر رہا تھا۔ جہاں شیطان نے شیرے سے لتھڑی انگلی ملی تھی وہاں ایک مکھی آ کر بیٹھ گئی جسے کھانے کو ایک چھپکلی لپکی۔ چھپکلی کو دیکھ کر حلوائی کی بلی بھاگی آئی لیکن پیر پھسلا تو حلوائی کی گرم گرم تیل سے بھری کڑاہی میں جا گری۔ حلوائی نے جلدی میں کڑاہی اُلٹی توسارا تیل پاس بیٹھے کتے پر گر گیا، کتا تو موقع پر فرائی ہو گیا لیکن اسکے مالک نے غصے میں آ کر حلوائی کو قتل کر دیا۔ دوسرے دکاندار موقع پر اکھٹے ہو گئے اور کتے کے مالک کو بھی مار ڈالا۔ شومئی قسمت کہ مرنے والا ایک سپاہی تھا جسکی فوج شہر سے باہر عارضی پڑاؤ ڈالے ہوئی تھی ۔ لشکر کو اطلاع پہنچی تو فوج نے شہر پر ہلہ بول دیا اور انتقاماً پورے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ شیطان کی اس حرکت کوآجکل غالباً سٹراٹیجک پلاننگ کہیں گے۔۔۔ قرآن مجید کی ایک آیت کے مطابق ہم سب سٹراٹیجک پلان بناتے ہیں لیکن سب سے بہتر planner یا منصوبہ ساز خود اللہ میاں کی ذات ہے!
خیر بات یہ ہو رہی تھی کہ اللہ میاں اپنا ورکنگ سٹائل ہمیں دیکھ کر ہی اختیار کرتے ہیں۔ یعنی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ہم لوگوں میں کسی بھی بات یا phenomenon کو سمجھنے، سیکھنے یا برداشت کرنے کی صلاحیت کتنی ہے۔ آسان سی مثال موت کی ہے۔ ہم سب نے مرنا ہے، اس دنیا کا مختصر قیام ختم ہونا ہے اور اُس دنیا میں قدم رکھنا ہے جو دائمی ہے۔ اب یہاں سے وہاں کا یہ ایک قدم موت کے پُل پر چل کر ہی ممکن ہوتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ آخر موت کی کیا ضرورت تھی، جس شخص کا قیام ختم ہو جاتا، اللہ میاں سیدھے سبھاؤ اس کو اُٹھا لیتے، ہر سہانی صبح ہمیں اطلاع ملتی کہ فلاں فلاں شخص غائب ہے یا ایسا ہی کچھ۔۔۔ لیکن کیا یہ کچھ عجیب نہ ہوتا؟ کیا ہمارے پانچ حواس یا senses کہ جنکی صلاحیت انتہائی محددو ہے اور جنکا کام ہمیں اس عارضی دنیا میں survive کرنے کیلئے محدود معاؤنت فراہم کرنا ہے، ایسے واقعات کو قبول بلکہ ہضم کر پاتے؟ کیا کہا؟ ہمارے حواس بہترین ہیں؟ ارے بھائی اگر سورج میرے انگوٹھے کے ناخن کے پیچھے چھپ جاتا ہے تو کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ میرے ناخن کی پور سورج سے بڑی ہے؟ کیا میں حرارت کو دیکھ کر محسوس کر سکتا ہوں یا تار میں دوڑنے والے کرنٹ کو سن، دیکھ یا چکھ سکتا ہوں؟ مثالیں تو ہزاروں ہیں لیکن غیر ضروری سو اصل بات کی طرف آتے ہیں۔
جب ہمارے پانچ حواس یا senses اس دنیا میں ہونے والی بہت سی باتوں کی نہیں سجھ سکتے تو اللہ میاں یقیناً یہ چاہتے ہیں کہ اس دنیا کو یوں چلائیں جو کم از کم کسی حد تک تو ہماری محددو سمجھ میں آئے، ہمارے دائیں بائیں وقوع پذیر عوامل کسی نہ کسی حد تک تو ہمارے حواس کی jurisdiction کے اندر ہوں۔ بس یہی ہے وہ بات کہ جسکی وجہ سے اللہ میاں ایسا ورکنگ سٹائل اپناتے ہیں جو ہم سب absorb کر سکیں۔ کوئی مرتا ہے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ صاحب اِس دنیا سے اُس دنیا کو سدھار گئے ہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ دل نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، گردے کمزور تھے یا سر پر چوٹ لگی تھی، غرض کوئی بھی ایسی وجہ کہ جو ہم انسانوں کی سمجھ میں آسکے۔
اب مجھے یہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ ہر خیر اور ہر شر کا پیدا کرنے والا اللہ میاں ہے اور اس بات کا مطلب بھی کہ ہم لوگ اپنا مکر یا پلاننگ کرتے ہیں اور اللہ میاں اپنی پلاننگ کرتے ہیں اور یقیناً اللہ میاں کی پلاننگ بہتر ہوتی ہے۔وہ کیسے؟ سیدھی سی بات ہے، پراجیکٹ منیجمنٹ یا پلاننگ ایک مضمون کے طور اکثر سوشل سائنسز میں پڑھایا جاتا ہے اور عملی زندگی میں ہم سب کا واسطہ اس سے کسی نہ کسی طور پڑتا ہے، اس میں منیجر اپنی محدود معلومات کی بنا پر فیصلے کرتا ہے، وہ calculated risks لیتا ہے یعنی بالکل ہی تُکے نہیں مارتا۔ اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ کسی بھی کمپنی میں اعلٰی عہدوں پر مامور عملے کو کہ جنھیں اکثر ایگزیکٹیوز (executives) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، باقیوں کی نسبت کئی گنا زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے، یہ پیسہ اس بات کیلئے نہیں ہوتا کہ وہ دن میں کتنا کام کرتے ہیں بلکہ اس بات کیلئے ہوتا ہے کہ وہ فیصلوں کی گھڑی میں اپنی محدود معلومات یا limited information کے باوجود کیسے اور کتنے اچھے فیصلے لیتے ہیں۔ اب اگر ہم سب کو مکمل معلومات یا perfect information ہو تو پھر تو ہم سبھی اچھے فیصلے لے سکتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب انسان اپنی محدودو صلاحیتوں اور محدود معلومات کے باوجود اچھے فیصلے لے سکتا ہے تو اللہ میاں کیوں نہیں کہ جنکی معلومات بھی مکمل ہیں اور صلاحیتیں بھی حواسِ خمسہ کی محتاج نہیں۔
اب یہ بات تو صاف ہو گئی ہے کہ شر کا وجود اس دنیا کے چلانے کو ضروری ہے۔ ہمارا ہر ہر عمل کہیں نہ کہیں ردعمل پیدا کرتا ہے اور یوں گلشن کا کاروبار چلتا ہے۔ اسی لیے تو ہمارے پیارے نبیۖ نے کہا کہ بُرے کو برا مت کہو، برائی کو برا کہو۔ یہی بات تو امام غزالی کی لامحدود رجائیت پسندی یا optimism کی وجہ ہے۔ ہر "ہونے” کی۔۔۔ چاہے وہ واقعہ ہو یا انسان، جانور ہو یا شیطان۔۔۔ وجوہات یا valid reasons ہوتی ہیں اور اسکا کردار ہوتا ہے۔ یوں ہی جیسے کبھی گاڑی کا بونٹ اٹھا کر دیکھیے تو آپکو بیشمار پرزے نظر آئیں گے۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا کام ہے اور اسکے بغیر گاڑی کے چلنے میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ پٹرول جلتا ہے، سپارک پلگ اسے جلاتے ہیں اور پلگ کا یہ شعلہ بیٹری سے آنے والے کرنٹ کا محتاج ہے۔ سلنڈر اپنے پیٹ میں ہونے والے اس دھماکے کو پسٹن کو منتقل کرتا ہے جو کرینک شافٹ کے ذریعے پہیوں کو گھماتا ہے۔ جب ایک چھوٹی سی گاڑی کے چھوٹے سے انجن میں موجود ہزاروں چھوٹے چھوٹے پرزے کسی وجہ سے وہاں موجود ہیں تو ہم اور ہمارے ارد گرد کی ساری کائنات، ساری مخلوق اور سارے واقعات بے وجہ کیسے ہو گئے؟ یوں سمجھیے کہ اللہ میاں تو بس چابی گھما کر انجن سٹارٹ کرتے ہیں، پھر اسکی ساری مخلوق اپنے اپنے کام میں لگ جاتی ہے۔
ایک سوال تو تشنہ رہ گیا۔ اگر بہ قولِ اقبال ؎ ” نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں، کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں” تو پھر دوزخ کیوں ہے؟ جب میں وہی کر رہا ہوں کہ جسکے لئے میں پیدا کیا گیا ہوں تو اس بات میں میرا کیا قصور، میرے لیے سزا کیوں؟ صاحبو سچی بات بتاؤں تو مجھے نہیں پتہ۔۔۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ چونکہ اللہ میاں کی صلاحیتیں ہم انسانوں کے بر عکس لامحدود ہیں، اسے کسی بھی چیز بشمول برائی یا شر کے، "ہونے” یا exist کرنے کی محتاجی نہیں۔ ہمیں اسنے ہر منیجر کی طرح محدود صلاحیتیں دی ہیں، اور فیصلے کا اختیار بھی دیا ہے۔ ایسا فرشتوں یا جانوروں کے کیس میں نہیں۔ انکے برعکس انسان intelligent being ہے۔ مزے کی بات تو یہ کہ کوشش کر کے یہ صلاحیتیں بھی بڑھائی جا سکتی ہیں، اتنی زیادہ کہ پھر انسان اناالحق کا نعرہ لگاتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے جزا بھی ہے اور سزا بھی۔۔۔ آپکا کیا خیال ہے؟
دنیا داری
ابے کیا باؤلا ہوا ہے یا تیری عقل گھاس چر گئی ہے؟ کیسی باتیں کر رہا ہے، ارے نامعقول انسان اپنے ایمان کی تجدید کرا۔۔۔ کچھ ایسا ہی مجھے سننے کو ملے گا اگر میں یہ کہنا شروع کر دوں کہ لوگو، اپنی آخرت کو نہیں، حال کو سنوارو، اُس دنیا کی نہیں اِس دنیا کی فکر کرو، کل کو چھوڑو، آج میں جیو۔۔۔۔ صاحبو میں باعمل مسلمان نہیں۔ جی ہاں باعمل سے مراد وہی جو ہم سب لیتے ہیں یعنی عبادات کے معاملے میں میں یونہی سا ہوں۔ البتہ کوشش کر کے نمازِ جمعہ باجماعت پڑھ لیتا ہوں۔ ہفتے کی اس واحد باجماعت نماز نے مجھے بہت سی مسجدیں دکھائی ہیں، بہت سے امام صاحبان کو سننے کا موقع دیا ہے لیکن میری حسرت حسرت ہی رہی۔ میری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی کہ مجھے کسی امام، کسی واعظ، کسی مولوی صاحب سے یہ سننے کو ملے کہ لوگو! آخرت کو چھوڑو، اپنی دنیا کو سنوارو۔۔۔
ذرا رکیے، اس سے پہلے کہ آپ غصے میں آ جائیں، سانس چڑھ جائے اور چہرہ سرخ ہو جائے، میری بات سن لیجیے۔ ایک لمحے کو غور کیجیے اور میری بات کا جواب دیجیے۔ کیا اس دنیا کو دارالامتحان نہیں کہا گیا؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم یہاں جو بوئیں گے، وہاں وہی کاٹیں گے؟ امکان غالب ہے کہ آپکا جواب ہاں میں ہو گا۔ پھر تو یقیناً ہمیں اِس دنیا کی نہیں، اُس دنیا کی فکر کرنا چاہیے۔ میں کہتا ہوں کہ حضور یہ بات غلط ہے۔ نہیں نہیں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ عالَم پائیدار ہے، اس بات کو تو میں تہہِ دل سے مانتا ہوں کہ یاں کچھ زیادہ دیر نہیں رُکنا ہم نے۔ میری کیا مجال، اس بات کو تو لامذہب سائنسدان بھی مانتے ہیں کہ یہ عالم فانی ہے۔ البتہ اس سچ کی دریافت کے بعد انکے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ اور رہے بھی کیسے؟ سائنس بذاتِ خود علم تو ہے نہیں،صرف ایک طریقے کا نام ہے، بلکہ یوں سمجھ لیں کہ ایک رویے کا نام ہے۔ وہ رویہ ہے میں نہ مانوں کا۔ یعنی اگر کوئی چیز تجربے کی کسوٹی پر پورا اترتی ہے تو مان لو ورنہ رد کر دو۔ اب تجربہ ناپا جاتا ہے حواسِ خمسہ سے۔ یعنی دیکھ کر مان لو، سن کر مان لو، چکھ کر مان لو، سونگھ کر مال لو یا چھو کر مان لو۔ اب صاحب یہ حواس حضرتِ انسان کے ممد تو ہیں لیکن نہایت محدود صلاحیت لیے ہوئے۔ دور کیوں جائیے، انسان بیچارہ تو کتے جیسی قوتِ شامہ بھی نہیں رکھتا، وہ ان چیزوں کو جانے تو کیسے جو ان پانچ حسوں یا انسان کے ایجاد کردہ ان تمام آلات جو ان حسیات کے معاون ہیں، کے دائرہ ء کار سے باہر ہیں؟ ارے۔۔۔ بات کہاں کی کہاں نکل گئی، میں تو اس بات پر کڑھ رہا تھا کہ دنیا کو دارالامتحان مان لینے کے بعد بھی اسےabandon کر دینے کی منطق چہ معنی۔
چلیے ایک مثال لیتے ہیں۔ آپ کسی دنیاوی امتحان میں بیٹھتے ہیں۔ اس سے پہلے آپ خوب تیاری کرتے ہیں، مناسب علم حاصل کرتے ہیں اور پھر کمرہء امتحان میں پرچہ حل کرتے ہیں۔ اس پرچے کی بنیاد پر ہی آپکے علم کی جانچ ہوتی ہے اور آپکی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ آپ نے خوب محنت کی، دن رات ایک کر دیے اور اپنے مضمون میں مہارت حاصل کر لی۔ لیکن عین کمرہء امتحان میں آپکو نیند آ گئی۔ نتیجہ کیا نکلے گا، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ میرے عزیز، کیا آپکو ایسا نہیں لگتا کہ ہمیں عین کمرہء امتحان میں سلا دیا گیا ہے؟ ہم من الحیثلقوم اس دنیا سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ہماری نفسیات میں اس دنیا کی بے ثباتی کو اس شدت سے گھونپ دیا گیا ہے کہ اب ہم misfit ہو گئے ہیں۔ ہم اپنے دائیں بائیں دنیا کو دیکھتے ہیں اور آنکھیں موند لیتے ہیں اس امید پر کہ یہ دنیا ہماری نہیں، ہماری دنیا تو آگے آئے گی، ہمارا دور تو آنے والا ہے۔۔۔ اس واحد رویے نے، اس واحد غلط فہمی نے ہمیں جتنا نقصان پہنچایا ہے، ہم اسکا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔
ارے میرے بھائی یہ کیسی منطق ہے کہ اس non-performance میں ہماری نجات پوشیدہ ہے؟ اس دنیا کو آدھا پونا تج دینا آخرت کی کامیابی کیسے ہو گیا؟ آدھا پونا اسلئے کہ مولوی صاحب جس مائیک میں تقریر کر رہے ہیں، وہ کافروں کا بنایا ہوا۔ جو بجلی کا قمقمہ ان کے رخِ پرنور کو منور کیے ہوئے، وہ کافروں کی ایجاد۔ بادِ سموم کے مزے دیتا پنکھا کافروں کی ایجاد۔ دبیز قالین کہ جس پر دوزانو نمازی ہمہ تن گوش، وہ کافروں کی ایجاد کردہ vacuum cleaner سے صاف کیا گیا ہے۔ صاحبو یہ سب کیا ہے؟ ہم سب کون ہیں؟
افسوس صد افسوس، میں نے بہت سے وعظ سنے۔ یقین کیجیے کسی ایک امام، کسی ایک واعظ، کسی ایک مولوی صاحب سے نہیں سنا کہ بھائیو، گھر کا گند گلی میں مت پھینکو، صاحبو اپنہ چندہ اپنے شہر کے اسپتالوں، سکولوں، پانی کے نلوں یا گلی کے مہتروں کو دو۔ گلی میں مت تھوکو اور سرِ راہ رفعِ حاجت کیلئے مت بیٹھو۔ سڑک پر موجود دوسری گاڑیوں کو بھی راستہ دو اور ہارن سے راہگییروں کے کام مت پھاڑو۔ اپنی شادیوں میں پڑوسیوں کی تکلیف مت بھولو جب تم سرِ راہ شامیانے لگا کر ولیمے کھلاتے ہو اور گئی شب تک محفلِ موسیقی برپا کر کے اپنا شملہ اونچا کرتے ہو۔
حضور، میری آپ سے عاجزانہ، بہت ہی عاجزانہ گزارش ہے کہ ایک لمحے کو جنت، دوزخ کو بھول جائیے۔ اپنی زندگی کے کچھ اصول، جی ہاں بہت ہی دنیاوی اصول، مقرر کیجیے۔اس دنیا کو اپنے اور اللہ کی ہر مخلوق کے رہنے کے قابل بنائیے۔ لوگوں کی عزت کیجئے اسلیئے نہیں کہ وہ آپ سے زیادہ امیر ہیں، آپ سے زیادہ طاقتور ہیں بلکہ اسلیئے کہ وہ انسان ہیں۔ زندگی کی قدر کیجئے اور ہر اس چیز، اس بات کی قدر کیجئے جس نے اس دنیا پر زندگی کو ممکن بنایا ہے۔ یہ آسان نہیں۔ یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ اس میں انسان تو کجا جانور بھی شامل ہیں۔ اس میں ہوا اور پانی بھی شامل ہیں اور آگ اور مٹی بھی۔ہوا کو آلودہ مت کیجئے اور پانی کو ضائع مت کیجئے۔ اللہ کی ساری زمین ہمارا گھر ہے۔ اپنے گھر کو صاف رکھتے ہیں تو گلی کو بھی ایسا ہی رکھیے۔ محلے کی مسجد مل جل کر بنائی اور چلائی جا سکتی ہے تو سکول، ڈسپنسری اور پانی کی لائن کیوں نہیں؟ مسجد کو چندہ دیجئے، ضرور دیجیئے، عیدالضحیٰ پر قربانی (جو ہمارے ہاں جانور کاٹنے کو دوسرا نام ہے) بھی ضرور کیجئے اور حج، عمرہ بھی۔ لیکن میرے بھائی، اتنے ہی پیسے اِس دنیا پر بھی لگائیے، جس میں آپ گرچہ کچھ ہی مدت گزارنے آئے ہیں لیکن کمرہء امتحان تو بہرحال یہی ہے۔ دین میں محنت کیجئے لیکن دنیا کو مت بھولیے، اسکو وقت اور توجہ دیجئے اور بقول ایک انگریزی محاورے کی، کمرے کی گندگی کو قالین کے نیچے چھپانے کی بجائے، باہر پھینکیے اور کمرہ صاف کیجئے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا یہ اس دنیا کے ساتھ "مٹی پاؤ” والا رویہ اختیار مت کیجئے۔ یقین کیجئے یہ سب سامنے آئے گا، اس سے بہرحال مفر نہیں۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں خود اپنے حال پر رحم فرمانے کی بھی توفیق دے۔ آمین!
10 comments