دنیا داری
ابے کیا باؤلا ہوا ہے یا تیری عقل گھاس چر گئی ہے؟ کیسی باتیں کر رہا ہے، ارے نامعقول انسان اپنے ایمان کی تجدید کرا۔۔۔ کچھ ایسا ہی مجھے سننے کو ملے گا اگر میں یہ کہنا شروع کر دوں کہ لوگو، اپنی آخرت کو نہیں، حال کو سنوارو، اُس دنیا کی نہیں اِس دنیا کی فکر کرو، کل کو چھوڑو، آج میں جیو۔۔۔۔ صاحبو میں باعمل مسلمان نہیں۔ جی ہاں باعمل سے مراد وہی جو ہم سب لیتے ہیں یعنی عبادات کے معاملے میں میں یونہی سا ہوں۔ البتہ کوشش کر کے نمازِ جمعہ باجماعت پڑھ لیتا ہوں۔ ہفتے کی اس واحد باجماعت نماز نے مجھے بہت سی مسجدیں دکھائی ہیں، بہت سے امام صاحبان کو سننے کا موقع دیا ہے لیکن میری حسرت حسرت ہی رہی۔ میری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی کہ مجھے کسی امام، کسی واعظ، کسی مولوی صاحب سے یہ سننے کو ملے کہ لوگو! آخرت کو چھوڑو، اپنی دنیا کو سنوارو۔۔۔
ذرا رکیے، اس سے پہلے کہ آپ غصے میں آ جائیں، سانس چڑھ جائے اور چہرہ سرخ ہو جائے، میری بات سن لیجیے۔ ایک لمحے کو غور کیجیے اور میری بات کا جواب دیجیے۔ کیا اس دنیا کو دارالامتحان نہیں کہا گیا؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم یہاں جو بوئیں گے، وہاں وہی کاٹیں گے؟ امکان غالب ہے کہ آپکا جواب ہاں میں ہو گا۔ پھر تو یقیناً ہمیں اِس دنیا کی نہیں، اُس دنیا کی فکر کرنا چاہیے۔ میں کہتا ہوں کہ حضور یہ بات غلط ہے۔ نہیں نہیں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ عالَم پائیدار ہے، اس بات کو تو میں تہہِ دل سے مانتا ہوں کہ یاں کچھ زیادہ دیر نہیں رُکنا ہم نے۔ میری کیا مجال، اس بات کو تو لامذہب سائنسدان بھی مانتے ہیں کہ یہ عالم فانی ہے۔ البتہ اس سچ کی دریافت کے بعد انکے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ اور رہے بھی کیسے؟ سائنس بذاتِ خود علم تو ہے نہیں،صرف ایک طریقے کا نام ہے، بلکہ یوں سمجھ لیں کہ ایک رویے کا نام ہے۔ وہ رویہ ہے میں نہ مانوں کا۔ یعنی اگر کوئی چیز تجربے کی کسوٹی پر پورا اترتی ہے تو مان لو ورنہ رد کر دو۔ اب تجربہ ناپا جاتا ہے حواسِ خمسہ سے۔ یعنی دیکھ کر مان لو، سن کر مان لو، چکھ کر مان لو، سونگھ کر مال لو یا چھو کر مان لو۔ اب صاحب یہ حواس حضرتِ انسان کے ممد تو ہیں لیکن نہایت محدود صلاحیت لیے ہوئے۔ دور کیوں جائیے، انسان بیچارہ تو کتے جیسی قوتِ شامہ بھی نہیں رکھتا، وہ ان چیزوں کو جانے تو کیسے جو ان پانچ حسوں یا انسان کے ایجاد کردہ ان تمام آلات جو ان حسیات کے معاون ہیں، کے دائرہ ء کار سے باہر ہیں؟ ارے۔۔۔ بات کہاں کی کہاں نکل گئی، میں تو اس بات پر کڑھ رہا تھا کہ دنیا کو دارالامتحان مان لینے کے بعد بھی اسےabandon کر دینے کی منطق چہ معنی۔
چلیے ایک مثال لیتے ہیں۔ آپ کسی دنیاوی امتحان میں بیٹھتے ہیں۔ اس سے پہلے آپ خوب تیاری کرتے ہیں، مناسب علم حاصل کرتے ہیں اور پھر کمرہء امتحان میں پرچہ حل کرتے ہیں۔ اس پرچے کی بنیاد پر ہی آپکے علم کی جانچ ہوتی ہے اور آپکی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ آپ نے خوب محنت کی، دن رات ایک کر دیے اور اپنے مضمون میں مہارت حاصل کر لی۔ لیکن عین کمرہء امتحان میں آپکو نیند آ گئی۔ نتیجہ کیا نکلے گا، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ میرے عزیز، کیا آپکو ایسا نہیں لگتا کہ ہمیں عین کمرہء امتحان میں سلا دیا گیا ہے؟ ہم من الحیثلقوم اس دنیا سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ہماری نفسیات میں اس دنیا کی بے ثباتی کو اس شدت سے گھونپ دیا گیا ہے کہ اب ہم misfit ہو گئے ہیں۔ ہم اپنے دائیں بائیں دنیا کو دیکھتے ہیں اور آنکھیں موند لیتے ہیں اس امید پر کہ یہ دنیا ہماری نہیں، ہماری دنیا تو آگے آئے گی، ہمارا دور تو آنے والا ہے۔۔۔ اس واحد رویے نے، اس واحد غلط فہمی نے ہمیں جتنا نقصان پہنچایا ہے، ہم اسکا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔
ارے میرے بھائی یہ کیسی منطق ہے کہ اس non-performance میں ہماری نجات پوشیدہ ہے؟ اس دنیا کو آدھا پونا تج دینا آخرت کی کامیابی کیسے ہو گیا؟ آدھا پونا اسلئے کہ مولوی صاحب جس مائیک میں تقریر کر رہے ہیں، وہ کافروں کا بنایا ہوا۔ جو بجلی کا قمقمہ ان کے رخِ پرنور کو منور کیے ہوئے، وہ کافروں کی ایجاد۔ بادِ سموم کے مزے دیتا پنکھا کافروں کی ایجاد۔ دبیز قالین کہ جس پر دوزانو نمازی ہمہ تن گوش، وہ کافروں کی ایجاد کردہ vacuum cleaner سے صاف کیا گیا ہے۔ صاحبو یہ سب کیا ہے؟ ہم سب کون ہیں؟
افسوس صد افسوس، میں نے بہت سے وعظ سنے۔ یقین کیجیے کسی ایک امام، کسی ایک واعظ، کسی ایک مولوی صاحب سے نہیں سنا کہ بھائیو، گھر کا گند گلی میں مت پھینکو، صاحبو اپنہ چندہ اپنے شہر کے اسپتالوں، سکولوں، پانی کے نلوں یا گلی کے مہتروں کو دو۔ گلی میں مت تھوکو اور سرِ راہ رفعِ حاجت کیلئے مت بیٹھو۔ سڑک پر موجود دوسری گاڑیوں کو بھی راستہ دو اور ہارن سے راہگییروں کے کام مت پھاڑو۔ اپنی شادیوں میں پڑوسیوں کی تکلیف مت بھولو جب تم سرِ راہ شامیانے لگا کر ولیمے کھلاتے ہو اور گئی شب تک محفلِ موسیقی برپا کر کے اپنا شملہ اونچا کرتے ہو۔
حضور، میری آپ سے عاجزانہ، بہت ہی عاجزانہ گزارش ہے کہ ایک لمحے کو جنت، دوزخ کو بھول جائیے۔ اپنی زندگی کے کچھ اصول، جی ہاں بہت ہی دنیاوی اصول، مقرر کیجیے۔اس دنیا کو اپنے اور اللہ کی ہر مخلوق کے رہنے کے قابل بنائیے۔ لوگوں کی عزت کیجئے اسلیئے نہیں کہ وہ آپ سے زیادہ امیر ہیں، آپ سے زیادہ طاقتور ہیں بلکہ اسلیئے کہ وہ انسان ہیں۔ زندگی کی قدر کیجئے اور ہر اس چیز، اس بات کی قدر کیجئے جس نے اس دنیا پر زندگی کو ممکن بنایا ہے۔ یہ آسان نہیں۔ یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ اس میں انسان تو کجا جانور بھی شامل ہیں۔ اس میں ہوا اور پانی بھی شامل ہیں اور آگ اور مٹی بھی۔ہوا کو آلودہ مت کیجئے اور پانی کو ضائع مت کیجئے۔ اللہ کی ساری زمین ہمارا گھر ہے۔ اپنے گھر کو صاف رکھتے ہیں تو گلی کو بھی ایسا ہی رکھیے۔ محلے کی مسجد مل جل کر بنائی اور چلائی جا سکتی ہے تو سکول، ڈسپنسری اور پانی کی لائن کیوں نہیں؟ مسجد کو چندہ دیجئے، ضرور دیجیئے، عیدالضحیٰ پر قربانی (جو ہمارے ہاں جانور کاٹنے کو دوسرا نام ہے) بھی ضرور کیجئے اور حج، عمرہ بھی۔ لیکن میرے بھائی، اتنے ہی پیسے اِس دنیا پر بھی لگائیے، جس میں آپ گرچہ کچھ ہی مدت گزارنے آئے ہیں لیکن کمرہء امتحان تو بہرحال یہی ہے۔ دین میں محنت کیجئے لیکن دنیا کو مت بھولیے، اسکو وقت اور توجہ دیجئے اور بقول ایک انگریزی محاورے کی، کمرے کی گندگی کو قالین کے نیچے چھپانے کی بجائے، باہر پھینکیے اور کمرہ صاف کیجئے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا یہ اس دنیا کے ساتھ "مٹی پاؤ” والا رویہ اختیار مت کیجئے۔ یقین کیجئے یہ سب سامنے آئے گا، اس سے بہرحال مفر نہیں۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں خود اپنے حال پر رحم فرمانے کی بھی توفیق دے۔ آمین!
میری آخری تحریر کی وجہ یہی تھی جو آپ نے بیان فرمائی ہے ۔ ان مولوی حضرات نے اسلام کا اپنا ورژن نکال رکھا ہے جس میں صرف ان کے فائدے کی باتیں ہیں۔
میاں ورژن کی کی کوئی بات نہیں۔ اصل میں ہمیں بات آدھی بتائی جاتی ہے، یہ سوچ کر کہ اس پر عمل کر لیںتو بڑی بات ہے۔
Hello ,
I hope you are fine and carrying on the great work you have been doing for the Pakistani side of Internet. I am Ghazala Khan from The Pakistani Spectator (TPS), We at TPS throw a candid look on everything happening in and for Pakistan. We are trying to contribute our humble share in the blogistan.
We at TPS are carrying out a new series of interviews with the notable Pakistani bloggers and web masters. In that regard, we would like to interview you, if you dont mind. Please send me your approval for your interview, so that I could send you the questions. We would be extremely grateful. We have done many interviews with many bloggers from Pakistan like Dr. Awab, Kashif Aziz, Fahd Mirza, Unaiza Nasim, Omer Alvi and host of others.
regards.
Ghazala Khan
The Pakistani Spectator
http://www.pakspectator.com