Faisaliat- فیصلیات

رین لینڈر- ایک اچھا ڈیسکٹاپ کیلنڈر

Posted in Computing, urdu by Shah Faisal on فروری 26, 2008

صاحبو ہماری خوش قسمتی (یا المیہ) یہ ہے کہ ہم اطلاعات کے دور یا بہ زبانِ فرنگ، انفارمیشن ایج میں رہتے ہیں۔ ایسے میں کہ جب آپ پر ہر طرف سے انفارمیشن برس رہی ہو ، آخر کوئی انسان کتنی معلومات جھیل پاتا ہے؟ بیشمار ٹی وی چینلز، اخبارات، انٹرنیٹ، موبائل فون اور ایس ایم ایس، دوست، احباب اور رشتہ دار، بر لب سڑک اشتہارات، یہ سب وہ ذرائع ہیں جو ہماری معلومات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ میں کافی عرصے سے اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہوں کہ ان تمام معلومات کو کسی ایک جگہ اکھٹا کرنے کا کوئی سہل، سبک رفتار اور قابلِ اعتبار طریقہ یا ذریعہ کیا ہو سکتا ہے؟ خیر اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ آج کا سوال تو یہ ہے کہ ان تمام معلومات نے جب ہماری زندگی کو انتہائی تیز رفتار بنا دیا ہے، آپ اپنی زندگی کو ترتیب دینے کیلئے کونسا طریقہ استعمال کرتے ہیں؟ یقیناً یہ زندگی تیز رفتار ہے، کافی تیزرفتار۔ اتنی کہ بسا اوقات اس سبک رفتاری کی وجہ سے زماں و مکاں سے ناتہ جوڑے رکھنا ہی حضرتِ انسان کیلئے مشکل ہو جاتا ہے۔ کیا آپ جدید ٹیکنالوجی کی مدد لیتے ہیں یا دیوار پر لٹکتا کیلنڈر، جیبی ڈائری اور کلائی پر بندھی گھڑی ہی آپکے کیلئے کافی ہے؟
آج ٹیکنالوجی یقیناً اس قابل ہو چکی ہے کہ آپکی تیزرفتار زندگی کو ترتیب دینے میں آپکی مدد کر سکے، گرچہ یہ ٹیکنالوجی سستی ہرگز نہیں۔ اگر آپ ایک اچھا پی ڈی اے موبائل فون یا سمارٹ فون لیتے ہیں تو اسکی قیمت شائد تیس ہزار سے لیکر اسی ہزار روپے یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسے کسی فون سے جو آپکی جیب میں باآسانی سما سکتا ہے، آپ کافی مدد لے سکتے ہیں۔ وائس کال، ویڈیو کال، انٹرنیٹ کال، ایس ایم ایس، ایم ایم ایس، انٹرنیٹ براؤزنگ، ای میل وغیرہ جہاں آپکو دنیا سے رابطے میں رکھتے ہیں، وہیں آپ برقی دستاویزات یا الیکٹرانک ڈاکومنٹس پڑھنے یا لکھنے، برقی کتب یا اخبارات پڑھنے یا اپنی پسندیدہ فیڈز پڑھنے کا کام بھی اسی فون کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ آپ ساکت یا متحرک تصاویر بنا اور محفوظ کر سکتے ہیں اور اپنا پسندیدہ موسیقی سن اور محفوظ کر سکتے ہیں۔ اس کےعلاوہ یہ فون آپکا کیلنڈر، گھڑی اور یاد دہندہ بھی ہے۔ آپ اس پر چھوٹے چھوٹے نوٹس لکھ یا بول کر محفوظ کر سکتے ہیں اور بیشمار دوسرے بھی کام کر سکتے ہیں جو بصورتِ دیگر سرانجام دینے کیلئے شائد آپ کو دفتر یا گھر جانا پڑے۔ بہرحال یہ نسخہ کافی مہنگا ہے اور ان لوگوں کیلئے ہے جنکا زیادہ وقت کاروباری سلسلے میں گھر یا دفتر سے باہر گزرتا ہے۔ اسکے برعکس اگر آپکے کام کی نوعیت ایسی نہیں اور آپکو دن کے بیشتر حصے میں گھر یا دفتر کے کمپیوٹر تک رسائی میسر ہے تو میرے پاس آپکی زندگی کو ترتیب دینے کا ایک حل موجود ہے اور وہ بھی بالکل مفت۔
نہیں نہیں ایسا نہیں کہ صرف یہی ایک حل ہے اپنے وقت کو گرفت میں رکھنے کا۔ کوئی بھی اچھا پرسنل انفارمیشن منیجر ایسا کرنے کا اہل ہوتا ہے۔ مثلاً مائکروسوفٹ کا ایم ایس آؤٹ لُک، آئی بی ایم کا لوٹس نوٹس یا لینکس استعمال کنندگان کیلئے نوویل کا ایوولوشن یا کے۔آرگنائزر وغیرہ سب اس قابل ہیں (ایک نیم مکمل فہرست آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں)۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ توپ سے مکھی مارنے کی کوشش کر رہے ہوں یعنی یہ سب پروگرام یا اطلاقیے آپکی ضروریات سے کہیں زیادہ ہوں۔ قباحت یہ ہے کہ ایسے کسی بھی پروگرام کو ہر وقت چلائے رکھنے سے آپکا کمپیوٹر خاصا سُست رفتار ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہ ان میں سے بیشتر پروگرام مفت نہیں خصوصاً اگر آپ ونڈوز نظام استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت ہے کسی ایسے اطلاقیے کی جو صرف ایک اچھا کیلنڈر ہو، باآسانی نصب ہو سکتا ہو، استعمال میں بھی آسان ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مفت ہو۔ اگر ایسا ہے تو رین لینڈر بیشک ان سب شرائط پر پورا اترتا ہے۔
رین لینڈر کا نام دراصل کمو رینی پکولا (اس اطلاقیےکا مصنف یا موجد) کے نام کے ایک حصے یعنی "رین” اور لفظ "کیلنڈر ” کو ملا کر دیا گیا ہے۔یہ انٹرنیٹ سے مفت حاصل کیا جا سکتا ہے اور ونڈوز اور لینکس خدمتگار نظاموں (آپریٹنگ سسٹمز) کیلئے دستیاب ہے۔ یہ آپکے ڈیسکٹاپ پر موجود رہتا ہے اور یوں گاہے گاہے آپکی نظر اس پر پڑتی رہتی ہے۔ آپ اسکو کسی اہم دن مثلاً کوئی سالگرہ، میٹنگ، وغیرہ کی یاد دہانی کیلئے استعمال کر سکتے ہیں اور یہ مقررہ وقت پر آپکو الارم کے ذریعے خبردار بھی کر سکتا ہے۔ اسی طرح کسی ضروری کام کرنے کی یاد دہانی کیلئے بھی آپ اسکو استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسے تمام کاموں کی فہرست یہ آپکی مرضی کے مطابق ترتیب دے کر دکھا سکتا ہے۔ مثلاً یہ کام کی اہمیت، شروع یا ختم ہونے کی تاریخ، موجودہ حالت یعنی مکمل یا دورانِ تکمیل، حروفِ تہجی کی ترتیب، وغیرہ کی حالت کے مطابق اس فہرست کو دکھا سکتا ہے۔
یہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ کیلنڈر دکھا سکتا ہے (مثلاً دفتر، گھر، سالگرہ، وغیرہ وغیرہ کےلئے بنائے گئے آپکے علیحدہ علیحدہ کیلنڈر) اور آپ کچھ پیسے خرچ کر کے اسکو اس قابل بھی بنا سکتے ہیں کہ یہ انٹرنیٹ پر موجود آپکا گوگل کیلنڈر یا کوئی دوسرا کیلنڈر یا کمپیوٹر میں موجود آؤٹ لُک کا کیلنڈر بھی دکھا سکتا ہے۔
آپ اس میں کوئی بھی آئی کیلنڈر (جو آئی سی ایس فارمیٹ یا معیار پر بنایا گیا ہو)، درآمد /امپورٹ کر سکتے ہیں یا اسمیں موجود اپنے کیلنڈر کو کسی دوسرے پروگرام میں استعمال کیلئے برآمد/ ایکسپورٹ بھی کر سکتے ہیں۔ آپ اپنے کیلنڈر پرنٹ بھی کر سکتے ہیں اور انکا بیک اپ بھی لے سکتے ہیں۔ آپ اپنے کیلنڈر کو کھوج بھی سکتے ہیں اور یوں لمحوں میں کسی تاریخ کے اہم واقعات دیکھ سکتے ہیں۔
آپ اسکی شکل تبدیل کر سکتے ہیں اور اسکے لیے مختلف skins مفت حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ان میں بھی اپنی مرضی کی تبدیلیاں بھی کر سکتے ہیں۔
جہاں تک بات ہے فدوی کی تو حضور میں تو اسے مختلف طریقوں سے استعمال کرتا ہوں۔ چونکہ میں اپنے کمپیوٹر پر مائکروسوفٹ ونڈوز اور ابنٹو لینکس دونوں استعمال کرتا ہوں اسلئے میں نے رین لینڈر دونوں نظاموں میں نصب کر رکھا ہے لیکن مزے کی بات یہ کہ کیلنڈر فائل یعنی وہ ڈیٹا فائل جس میں ساری معلومات ہوتی ہیں، ایک ہی ہے۔ اسطرح اس بات سے قطع نظر کہ میں کونسا نظام استعمال کر رہا ہوں، میرا کیلنڈر دونوں جگہ یکساں ہے اور ایک وقت میں کی گئی تبدیلیاں دونوں نظاموں میں موجود رین لینڈر کیلنڈر میں دکھائی دیتی ہیں۔اسکے علاوہ آزمائشی طور پر میں نے اسکو لینکس میں موجود ایوولوشن کا کیلنڈر استعمال کرنے کا کہا تو اس نے وہ بھی دکھا دیا، گرچہ میں اس میں رین لینڈر کے ذریعے تبدیلیاں نہیں کر سکتا یعنی یہ صرف read only ہی ہے۔ لیکن یہ بھی غنیمت ہے کیونکہ ونڈوز میں موجود آؤٹ لُک کا کیلنڈر دیکھنے کیلئے آپکو پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ کہیے کیسی رہی؟
یہ کہنا تو شائد غیر ضروری ہی ہو کہ اس کے استعمال یا تنصیب میں درپیش کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے آپ انٹرنیٹ پر موجود مددگار فورم استعمال کر سکتے ہیں جسمیں بسا اوقات خود اس پروگرام کا مصنف آپکو سوالات کے جوابات دیتا ہے۔ اور ہاں، شائد چھوٹے موٹے مسائل تو میں بھی حل کرہی لوں، آزمائش (میری نہیں، اس پروگرام کی)، شرط ہے!!!

کوسووا مبارک

Posted in Politics, urdu by Shah Faisal on فروری 17, 2008

آپ سب کو ایک نیا اسلامی یورپی ملک مبارک ہو۔ آپ سب کو کوسووا کی آزادی مبارک ہو۔۔۔۔

میرا انٹرویو

Posted in urdu by Shah Faisal on فروری 4, 2008

صاحبو پاکستانی سپیکٹیٹر نامی بلاگ نے ایک اچھا سلسلہ بلاگر حضرات اور دوسرے لکھاریوں سے انٹرویولینے کا، شروع کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں ناچیز کا انٹرویو بھی حال ہی میں شائع ہوا ہے جسے آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ اسکا اُردو ترجمہ اپنے اردو پڑھنے والے قارئین کیلئے مندرجہ ذیل ہے:
ایک مختصر تعارف:
میری بنیادی تعلیم کا زیادہ حصہ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک عیسائی مشنری سکول اور پھر کیڈٹ کالج کوہاٹ میں مکمل ہوا۔2001 میں زرعی یونیورسٹی پشاور سے دیہی ترقی میں ماسٹرز کیا اور پھر اگلے پانچ برس بالترتیب خوشحالی بنک، بنک الفلاح اور آئی یو سی این میں ملازمت کرتے گزرے۔ 2005 میں یورپ کیلئے رختِ سفر باندھا جہاں گینٹ یونیورسٹی، بلجئیم، ہمبولٹ یونیورسٹی برلن، جرمنی اور نِترا یونیورسٹی سلوواکیہ سے دیہی ترقی میں بین الاقوامی ماسٹرز کیا۔ستمبر 2007 میں وطن واپسی ہوئی اور اب پی ایچ ڈی کی تعلیم کیلئے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی، کینبرا، آسٹریلیا کا ارادہ ہے۔ شادی شدہ ہوں اور بچے نہیں ہیں۔
آپکی وجہ ء بلاگنگ؟
بلاگنگ کی دنیا سے میرا تعارف اردو پوائنٹ کی ویبسائٹ پر ہوا۔ انہوں نے میرا تعارفی بلاگ چھاپا جسکے بعد مزید لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ کچھ عرصے بعد میں نے اردو بلاگر قدیر احمد رانا کی مدد سے ورڈ پریس پر اپنا اردو بلاگ شروع کیا جس پر آپ اسوقت یہ تحریر پڑھ رہے ہیں۔
آپکے بلاگ کی کوئی خاص بات جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہو؟
میرا خیال ہے کہ اس سوال کا جواب تو قارئین ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ میرے بلاگ میں کچھ بھی ایسا ہے لیکن ایک خصوصیت، جو یقیناً کئی دوسرے بلاگز میں بھی ہے، یہ ہے کہ میں بہت محدود موضوعات پر لکھتا ہوں۔
اگر آپ سے آپکی کامیابی کی کوئی ایک وجہ پوچھی جائے تو وہ کیا ہو گی؟
یہ سوال غیر متعلقہ ہے کیونکہ میں ابھی کامیاب ہوا ہی نہیں۔ ویسے میرا نہیں خیال کہ صرف ایک خصوصیت، خواہ کوئی بھی ہو، انسان کو کامیابی دلا سکتی ہے۔ اپنے مقصد پر کامل ایمان، سخت محنت، توجہ، اولوالعزمی وغیرہ ان بہت سے عوامل میں سے چند ایک ہیں، جو کامیابی کیلئے ضروری ہیں۔
آپکی زندگی کا خوشگوار اور سوگوار ترین لمحہ؟
آہ، سچ پوچھیں تو مجھے نہیں معلوم۔ نہیں ایسا نہیں کہ ایسے لمحات میری زندگی میں آئے نہیں لیکن ایسی یادوں کی گٹھڑی اٹھائے پھرنے کی نسبت میں آگے بڑھ جانے پر یقین رکھتا ہوں۔ ویسے یہ بھی تو دیکھیں کہ ماضی کا ہر اداس لمحہ مستقبل میں ایک خوشی لاتا ہے،کیونکہ وہ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ دیکھا؟ بات اتنی سادہ نہیں، سو رہنے دیں۔
اردوبلاگز میں بہت طاقت ہے۔ آپکے خیال میں یہ پاکستانی انٹرنیٹ دنیا پر کب چھائیں گے؟
وقت لگے گا، اچھا خاصا وقت۔ جب ہم اردو بلاگ کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم کچھ حدود متعین کر رہے ہوتے ہیں، مثلاً کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک رسائی، اردو کمپیوٹنگ کی سمجھ بوجھ اور اردو بلاگ لکھنے کا پکا عزم وغیرہ۔ ان سب کے علاوہ ضرورت بہت سے قارئین کی جو اردو بلاگز پڑھنا اور ان پر اپنا ردِعمل ظاہر کرنے پر تیار ہوں۔ چنانچہ اردو بلاگنگ کا مستقبل مشروط ہے اور ظاہر ہے کہ ان عوامل کے پورا ہونے میں کافی وقت لگے گا۔
اگر آپکو دنیا دیکھنے کا موقع ملے تو آپکی پہلی تین ترجیحات کیا ہونگی؟
مغربی یورپ کا بیشتر حصہ میں دیکھ چکا ہوں اور آسٹریلیا بھی انشاہ اللہ جلد ہی دیکھ لونگا۔ باقی دنیا میں مجھے وسطی ایشیائی ریاستیں دیکھنے کا شوق ہے۔ اسکے علاوہ یہ بھی جی چاہتا ہے کہ بلوچستان کی بذریعہ سڑک تسخیر کا جو سلسلہ 2005 میں منقطع ہو گیا تھا، اسے پھر سے شروع کروں۔ لاطینی امریکی ممالک بھی جانا چاہونگا، جہاں میرے بہت سے دوست ہیں۔ مختصراً، مجھے سڑک یا ریل کے ذریعے ویرانے اور دیہی علاقے گھومنے کا شوق ہے۔
آپکی پسندیدہ کتاب کونسی اور کیوں ہے؟
اگر آپ میرے پسندیدہ مصنف کا پوچھتے تو جواب یقیناً آسان ہوتا۔ میں انگریزی ادب نہیں پڑھتا چنانچہ میری ساری پسندیدہ کتب اور مصنف اردو کے ہیں۔ ممتاز مفتی اور شفیق الرحمان پسندیدہ مصنف ہیں۔ اگر آپ اب بھی کسی کتاب کا نام جاننا چاہتے ہیں تو وہ شائد ممتاز مفتی کی “تلاش” ہے۔
آپ (پہلی ملاقات میں) کسی شخص میں کونسی بات مطالعہ کرتے ہیں؟
سچ بتاؤں تو کچھ بھی نہیں۔ ہاں اگر ضرورت پڑ جائے تو آنکھوں کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
کیا آپکے خیال میں پاکستانی سیاستدان معاشرتی نیٹ ورکس (social networks) یا ٹُوِٹر (twitter) جیسی چیزوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
کیا آپکی مراد انٹرنیٹ پر موجود معاشرتی نیٹ ورکنگ ویبسائٹس سے ہے؟ میرا نہیں خیال کہ پاکستانی سیاستدان ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے نیٹ ورکس کی عوامی پہنچ بہت محدود ہے اور اسی لیے عوامی رائے پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت بھی۔ میرے خیال میں فی الحال یہ پاکستانی عوام تک اپنی بات پہنچانے کا بہت اچھا ذریعہ ثابت نہیں ہو سکتے۔ ہاں، اگر لوگوں کی پہنچ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر تک ہوتی تو بات مختلف ہوتی۔
پاکستان میں کن بلاگز کا مستقبل زیادہ تابناک ہے، اردو یا انگریزی؟
یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ مستقبل کی تعریف کیسے کرتے ہیں۔ اگر آپ لگ بھگ اگلی دہائی کی بات کر رہے ہیں تو انگریزی بلاگز اردو کی نسبت زیادہ مقبول ہوں گے۔ ایسا ہونے کی وجوہات میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں۔ اگرچہ میں خود ایک اردو بلاگر ہوں لیکن میرے خیال میں اردو بلاگز کے مقبولِ عام ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ بلکہ دوسرے جدید سائنسی (ہائی ٹیک) میدانوں میں خود اردو کے مقبول ہونے میں بھی ابھی وقت ہے۔ کسی بھی زبان کی ترقی اسکے بولنے والی قوم کی ترقی سے مشروط ہوتی ہے اور جب تک اردو ہماری جامعات، کالجوں، دفاتر اور کاروبار میں عام نہ ہو جائے، اردو بلاگنگ بھی بہت زیادہ کامیاب نہیں ہو گی۔
پاکستانی بلاگرز اپنے بلاگز سے معاشی فوائد کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
میرے خیال میں یہ خیال بُرا، انتہائی بُرا ہے۔ میرے نزدیک بلاگنگ ایک معاشرتی ذمہ داری ہے نہ کہ آمدن کا ایک ذریعہ۔ اگر کوئی بھی چند آسان روپے کمانے کے چکر میں ہے تو اسے بلاگنگ سے دور ہی رہنا چاہیے۔ میں نے بلاگرز کو اپنے بلاگز پر گوگل کے اشتہارات دیتے اور پھر معیار پر توجہ کرنے کی بجائے فضولیات لکھتے دیکھا ہے اور وہ بھی بہت زیادہ اور بڑی باقاعدگی سے۔ انکی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ انکی ویبسائٹ پر آئیں اور یوں وہ ہر ماہ چند ڈالر کما لیں۔ جہاں ایک فضول بات لکھنے میں چند لمحے لگتے ہیں، وہاں قاری کو یہ سب پڑھنے میں یقیناً کچھ منٹ تو لگتے ہی ہیں۔ کُل ملا کر لوگوں کے ہزاروں لاکھوں منٹ ایسی بکواس کو پڑھنے میں ضائع ہو جاتے ہیں۔ آخرکار لوگ کام کی بات پڑھنا بھی چھوڑ دیتے ہیں اور یوں سنجیدہ بلاگرز بھی لوگوں کی توجہ نہ پا کر لکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
کیا آپکے خیال میں پاکستانی بلاگرز کچھ خودنمائی یا خودپسندی کا شکار ہیں اور اپنی ذات کے خول سے باہر ہی نہیں نکلتے؟ کیا یہ بلاگنگ کا مشرقی طور ہے یا خود انھیں بھی نہیں پتہ کہ یہ کیا ہے؟
معاف فرمائیے مگر مجھے نہیں معلوم کہ بلاگنگ کا مشرقی سٹائل کیا ہے۔ ہاں اتنا میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ایسے بلاگرز کو بھی دیکھا ہے جنکے خیال میں ہم انھیں اسلئے پڑھتے ہیں کیونکہ اہم انکی عظمت کے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔ وہ ساری توجہ اپنے اوپر ہی مرکوز رکھتے ہیں اور خوشی خوشی اپنی کہانیوں کے ہیرو بنے رہتے ہیں۔ یقیناً اپنی ذات پر اتنی زیادہ توجہ ٹھیک رویہ نہیں۔ اسکی دوسری انتہا پر وہ لوگ ہیں جنکی توجہ کسی بھی چیز پر نہیں ہوتی اور وہ یوں ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔
کیا یہ سچ ہے کہ کامیاب بلاگرز کے پاس بہت زیادہ فارغ وقت ہوتا ہے؟
اگر آپ لوگوں کے پڑھنے کو کچھ سنجیدہ مواد مہیا کر رہے ہیں تو بلاگنگ کرنے میں وقت تو یقیناً لگتا ہے۔ مثال کے طور پر مجھے ایک بلاگ لکھنے میں اوسطاً پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔ یہ ان بیشمار گھنٹوں کی سوچ کے علاوہ ہے جو روزمرہ کے معمولات کے دوران میرا ذہن سوچتا رہتا ہے۔ اسکے باوجود میں اپنے بلاگ کو ایک کامیاب بلاگ نہیں کہونگا، کیونکہ کامیابی کی معروضی تعریف یہ ہے کہ ایک دن میں کتنے لوگ آپکی سائٹ پر تشریف لاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ شائد ایسے بلاگز جنہیں ہر روز درجنوں لوگ دیکھتے ہوں، شائد آپکا کم وقت لیں گرچہ یوٹیوب ویڈیوز یا فلِکر پر موجود تصاویر کے ربط دینے یا اخبارات میں چھپنے والے مواد کو من و عن چھاپ دینے میں بھی کچھ وقت تو لگتا ہی ہے، خصوصاً اس صورت میں جب آپ ہر روز ہی ایسا کچھ کر رہے ہوں۔
کارپوریٹ یا کاروباری بلاگز کے متعلق آپکا کیا خیال ہے اور ان کے بنیادی فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟
میں پھر یہی کہونگا کہ میرے نزدیک کاروباری بلاگز انتہائی غلط تصور ہے۔ کارباری بلاگز اپنی مصنوعات بیچنے کے ایک طریقے کے علاوہ کچھ نہیں۔ بلاگنگ نام ہے ایک شخص کے اظہارِ رائے کی آزادی کا، جبکہ کاروباری بلاگز میں ایسا کچھ نہیں ہوتا اسلئے کم از کم میرے لیے تو اس تصور کو ہضم کرنا مشکل ہے۔
آپکو یہ بات دکھ دیتی ہے یا آپ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے ایک باوردی جرنیل کو اپنا صدر منتخب کر کے نئی تاریخ رقم کی ہے؟
ہیں۔۔۔۔؟ یہ کیا تھا؟ بہرحال میں حیران ہوں کہ یہ بات سوال بننے کے قابل بھی ہے یا کبھی بھی تھی؟ میں نے اس شخص کو ووٹ نہیں دیا اور میرے خیال میں یہی حال سولہ کروڑ پاکستانیوں کی اکثریت کا ہے۔
کیا آپکے خیال میں بلاگز اور انٹرنیٹ پر موجود دیگر مواد پربڑھتی ہوئی توجہ اس بات کی اہم نشانی ہے کہ انٹرنیٹ۔ یہ معاشرتی انٹرنیٹ، ایک اہم معاشرتی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے؟
انٹرنیٹ یا عالمگیر جال (ورلڈ وائڈ ویب) رسل و رسائل کا ایک اہم ذریعہ ہے اور ایسا کوئی بھی ذریعہ معاشرتی طاقت ہی کہلائے گا۔ آخر سیاسی رہنما ریلیاں کیوں منعقد کرتے ہیں، کاروباری ادارے سالانہ عشائیوں پر اخراجات کیوں کرتے ہیں، دفاعی ادارے بڑے کھانوں کا انتظام کیوں کرتے ہیں اور کسی تعلیمی ادارے کے فارغ التحصیل طلبا یا اولڈ بوائز اپنی سالانہ تقریبات کیوں منعقد کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ؟ یہ سب معاشرتی اثاثے (social capital) کی ترقی اور فروغ کے طریقے ہیں اور بس انہی جیسا ایک طریقہ انٹرنیٹ بھی ہے۔ گرچہ پاکستان میں یہ پڑھی لکھی، مڈل کلاس، شہری آبادی میں حال ہی میں ایک نمایاں طاقت کے طور پر ابھرا ہے لیکن فی الحال اسکی اثر انگیزی خاصی محدود ہے۔ اسکی مقبولیت کے اضافے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔
آپکے خیال میں پاکستانی بلاگنگ دنیا فی الوقت کہاں کھڑی ہے؟
میں پاکستانی بلاگنگ دنیا پر تبصرہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا کیونکہ میں چند ہی پاکستانی بلاگز پڑھتا ہوں۔ لیکن اتنا ضرور کہونگا کہ جدید ٹیکنالوجی تک محدود رسائی کے باوجود پاکستانی بلاگرز نے اچھا خاصا کام کیا ہے۔ البتہ ابھی کافی سنجیدگی سے کام کرنے کی مزید ضرورت ہے۔ میں لینکس آپریٹنگ سسٹم سیکھنے کیلئے اکثر بلاگز سے استفادہ کرتا ہوں لیکن ابھی تک آئی ٹی سے متلعق کوئی اچھا پاکستانی بلاگ میری نظر سے نہیں گزرا۔ ایسا کوئی بلاگ بھی میں نے نہیں دیکھا جو ہماری نوجوان نسل کو اپنا کیریر چننے میں ممد ثابت ہو یا ایسا کوئی بلاگ جو پاکستان کے ممتاز تعلیمی اداروں کے سابقہ طلباء یعنی اولڈ بوائز لکھ رہے ہوں، وغیرہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی بلاگنگ دنیا اپنے آپ کو عمودی اور افقی طور پر بڑھائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے ایسے بلاگز ہوں جو بہت ہی مخصوص موضوعات پر لکھے جا رہے ہوں (افقی گہرائی) اور یہ موضوعات بہت مختلف النوع ہوں (یعنی عمودی پھیلاؤ)۔ پاکستانی بلاگنگ دنیا میں ایک اچھی بات میٹرو یا مخصوص شہری بلاگز کا ہونا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کے چھوٹے شہروں اور قصبات میں چونکہ مقامی میڈیا موجود نہیں یا کمزور ہے، اسلئے ایسے بلاگز مقامی معلومات کی ترسیل میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایسی بلاگز ہر شہر اور قصبے کی سطح پر لکھے جانے چاہئیں تا کہ لوگوں تک اپنے شہر یا قصبے کی خبریں جلد اور مستند ذریعے سے پہنچ سکیں۔ یہ پاکستانی بلاگ قارئین کیلئے بہت بڑی خدمت ہو گی۔
آپ اپنے پسندیدہ پانچ پاکستانی بلاگرز بتانا پسند کریں گے؟
اس بات کا فیصلہ کرنا تو خاصا مشکل ہے لیکن بِنا کسی ترتیب کے اور بشمول بہت سے لوگوں کے کہ جنکا ذکر میں یہاں نہیں کر رہا، مجھے اجمل صاحب، نعمان یعقوب، ابو شامل، دوست، شعیب صفدر، وغیرہ پسند ہیں۔ کبھی کبھار میں Teeth Maestro بھی پڑھ لیتا ہوں۔
کیا کسی پاکستانی بلاگز کی انفرادیت نے آپکو حیران کن حد تک متاثر کیا ہے؟
رضا رومی منفرد ہیں کیونکہ انکی توجہ تصوف پر اور اس سخت دنیا کے نرم گوشوں پر رہتی ہے۔ Teeth Maestro بھی منفرد ہیں کیونکہ حالاتِ حاضرہ کی خبریں مہیا کرنے کے سلسلے میں وہ بارہا اخبارات پر بھی سبقت لے جاتے ہیں۔ اور بھی لوگ ہیں جنکی اپنی اپنی خصوصیات ہیں۔
پاکستان میں بلاگنگ کا مستقبل کیا ہے؟
روشن، لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ میں ہر شخص کو بلاگنگ کرتے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وقتی ابال کے بعد ہم سب مخصوص موضوعات پر لکھتے چند، منجھے ہوئے اور بہت اچھے بلاگز کو دیکھیں گے۔
کیا سیاسی اعتبار سے ہم بلاگنگ کو اظہار کی آزادی کہہ سکتے ہیں؟
بلاگنگ اسکے علاوہ کیا ہے؟ یہ اظہارِ رائے کی آزادی ہی تو ہے۔ یہ سیاسی اعتبار سے نہیں بلکہ انسانیت کے ناتے ہے۔ البتہ اس آزادی کے استعمال میں احتیاط لازم ہے، کہ ہر حق کیساتھ کچھ فرائض بھی جُڑے ہوتے ہیں۔ میری لکھی کوئی تحریر چاہتے نہ چاہتے کسی بھی شخص کو متاثر کر سکتی ہے۔ اسکا مطلب یہ کہ میں کسی شخص، گروپ یا ایک گروہ کو بنا یا بگاڑ سکتا ہوں۔
کیا پاکستانی بلاگنگ دنیا آنے والے الیکشن میں، اگر وہ انجام پاتے ہیں، کوئی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے؟
میرا خیال ہے کہ نہیں۔ پاکستانی بلاگنگ دنیا کی پہنچ بہت محدود ہے اور اسی لیے مستقبل قریب میں معروضی سیاسی سوچ کو متاثر کرنے کی اسکی صلاحیت بھی محدود ہے۔ بلاگز پڑھنے کی نسبت لوگوں کی بہت بڑی تعداد اخبارات بینی کرتی ہے، ٹی وی دیکھتی ہے یا ریڈیو سنتی ہے۔ یہ سب بنیادی شماریات ہے۔
بلاگنگ آپکی ذاتی یا پیشہ ورانہ زندگی پر کس طرح اثرانداز ہوئی ہے؟
جہاں تک میری ذاتی زندگی کا تعلق ہے، بلاگنگ نے میری شخصیت کی بالیدگی میں اچھا خاصا حصہ ڈالا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہوا ہے کہ اپنی اصل زندگی میں میں پہلے کی نسبت زیادہ گوشہ نشیں ہو گیا ہوں۔ مجھے لوگوں سے اصل دنیا کی بجائے انٹرنیٹ پر ملاقات کرنا اچھا لگنے لگا ہے۔ پیشہ ورانہ اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ میں نے کچھ تعلیمی یا تدریسی بلاگ دیکھے ہیں لیکن بطور ایک طالبعلم کے، میں ایسے بلاگز پر سائنسی مجلوں میں چھپنے والے مواد کو زیادہ ترجیح دیتا ہوں۔
مستقبل سے متعلق آپکے کیا منصوبے ہیں؟
کس بابت؟ اگلے تین برس میں میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ بلاگنگ کے محاذ پر میں لکھنا اور پڑھنا جاری رکھونگا انشاہ اللہ، اگر وقت کی قلت مانع نہ ہوئی تو۔
پاکستانی سپیکٹیٹر کے قارئین کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
جی ہاں، ضرور۔ صاحبو، آپ جب بھی بلاگز پڑھیں تو ان پر تبصرہ ضرور کریں۔ اس سے لکھنے والے کو اپنی تحاریر کی اصلاح کا موقع ملتا ہے اور یوں آپ بھی ایک تعمیری عمل کا حصہ بن جاتے ہیں، جو دراصل "کچھ دو اور کچھ لو” کا عمل ہی ہے۔
اسکے علاوہ میں پاکستانی بلاگنگ دنیا کے لکھاریوں کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دوستو، آپ اپنی منزل کا تعین کریں اور اسکے لیے سنگِ میل بھی چن لیں۔ آپکو علم ہونا چاہیے کہ آپ اپنے بلاگز کے ذریعے کیا حاصل کرناچاہتے ہیں اور پھر اس پر اپنی پوری توجہ مرکوز کر دیں۔ اور یقین کریں، آپکے قارئین میں سے بہت ہی کم اس بات میں دلچسپی رکھتے ہونگے کہ آپ بحیثیتِ انسان کتنے عظیم ہیں۔ اپنے موضوعات کو مختصر کریں چاہے آپکا دل اردگرد ہونے والے ہر دلچسپ واقعے پر لکھنے کو چاہ رہا ہو۔ میں اپنی مثال نہیں دینا چاہتا لیکن میں صرف دو موضوعات پر لکھتا ہوں۔ اگر میرے لکھاری میرا بلاگ پڑھتے وقت یہ جانتے ہوں کہ انھیں پڑھنے کو کیا ملے گا تو یہی میری شناخت ہے اور یہی میری کامیابی ہے۔ بلاگنگ مبارک ہو اور اس طویل سفر پر میری نیک خواہشات آپکے ساتھ ہیں۔