Faisaliat- فیصلیات

اردو بلاگ انگریزی بلاگ

Posted in Life, urdu by Shah Faisal on جنوری 30, 2009

صاحبو یہ تو گویا یوں ہی ہوا کہ سیبوں کا تقابل کر لیا جائے  نارنگیوں سے۔ گھبرائیے نہیں اگر آپکو اس مثال کی سمجھ نہیں  آئی  تو اسمیں قصور آپکا نہیں کہ جب ایک زبان  کے قالب پر دوسری زبان کا جسم  منڈھ دیا  جائے تو بس اتنا ہی حسن باقی بچتا ہے۔

خیر  بات ہو رہی ہے اردو بہ مقابلہ انگریزی بلاگز کی۔ چچ چچ حضور کوئی مقابلے کی چیز ہو تو مقابلہ کیجئے، کہاں اردو کہاں انگریزی۔ نہیں ایسا نہیں کہ ایک اعلیٰ و ارفع ہے تو دوسری کم ظرف۔ میرے نزدیک تو ایک زبان ایک طرزِ معاشرت کا نام ہے ایک رویئے ایک سوچ کا نام ہے نہ کہ الفاظ کے ایک مجموعے کا۔ اب  آپ خود ہی بتائیے کہ آج تک کسی انگریزی شاعر کو پان کھا کر کسی مشاعرے  میں داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کرتے دیکھا ہے؟ یقیناً نہیں کہ ایسا کچھ رواج کسی بھی انگریز بلکہ پورے مغربی معاشرے میں موجود ہی نہیں۔  اب یہی غلطی تو ہمارے ہاں لوگ کرتے ہیں کہ انگریزی اخبارات کا مقابلہ اردو اخبارات سے کرتے ہیں، انگریزی کالم نگاروں کے وزن پر اردو کالم نگاروں کو تولتے ہیں اور انگریزی بلاگز کی کسوٹی پر اردو بلاگز کو جانچتے ہیں۔ نہیں صاحب یہ ممکن ہی نہیں۔  یہ دو مختلف قبائل دو مختلف طبقے دو مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ اب آپکو بُرا لگے تو معذرت پر میرے نزدیک تو یہی حقیقت ہے۔

دراصل صاحب نو آبادیاتی نظام نے ہمارے جسموں کو نہیں ہماری روحوں کو غلام بنایا ہے، ہماری سوچ کو بیڑیاں پہنائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلامیہ کالج کی جگہ ایچی سن کالج راج کرتا ہے، قومی کی جگہ دفتری زبان مستند ہے اور شلوار کرتے کی جگہ کوٹ پتلون ہے۔اس پر طرہ یہ کہ جب سوچتے ہم اردو اور بولتے انگریزی ہیں تو گویا کوا چلا ہنس کی چال۔ یقین نہ آئے تو کبھی آزما کر دیکھ لیجئے۔ میں تو کم از کم اردو سوچ کے ساتھ انگریزی بول یا لکھ نہیں سکتا، آپ البتہ مجھ سے زیادہ ذہین ہیں سو شائد یہ مسئلہ آپکو درپیش نہ ہو۔ ایسے میں انگریزی کا فقدان صرف ایک زبان سے لاعلمی نہیں رہتا بلکہ بڑھ کر آپکی ایسی خامی بن جاتا ہے جسکے بعد آپ معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہتے۔ نہ اچھی ملازمت ملتی ہے نہ اچھا رشتہ۔ اور تو چھوڑئیے مقامی آفیسر کلب کہ جسکی بدمزہ چائے اور نم دار بسکٹ سے کسی کالج کے گیٹ تلے بنے کھوکے کی چائے بھی بہتر ہوتی ہے، کے دروازے بھی آپکے لئے بند ہو جاتے ہیں۔ گویا زبان نہ ہوئی ایک ہتھیار ہو گیا جسکے ذریعے گورا صاحب اب اپنے بھورے بابو کے ذریعے آپکو دائمی غلامی کا تحفہ دے گیا۔

صاحب ہم شرمندہ قوم ہیں۔ ہم اپنی زبان، اپنی سوچ، اپنے طرز معاشرت، اپنے مذہب، اپنے وجود ہر شرمندہ ہیں۔ مجھے اپنی ڈاڑھی پر شرم آتی ہے تو میری بیوی کو اپنے حجاب پر۔ مجھے اپنے باپ پر شرم آتی ہے تو میری اولاد کو مجھ پر۔ ہم  بیحد شرمندہ قوم ہیں صاحب۔

ایک طعنہ اور سنیے۔ ہم  جاہل و گنوار تو ہیں ہی، کنویں کے مینڈک بھی ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے بس ہم فقط اپنے حصار میں قید ہیں۔ ہاں حضور درست ارشاد فرمایا۔ ہم اس قید سے نکلیں بھی تو کیسے کہ ہمارے لئے مقدم اپنی نسل کو بچانا ہے بجائے کسی چوپائے، پرندے یا کیڑے کی نسل کو۔ ہم اس قید سے نکلیں بھی تو کیسے کہ ہمارے لیے مقدم اپنے آس پاس کا ماحول، اپنی زندگی اور اپنے وطن کے مسائل  ہیں نہ کہ امریکی، کسی یورپی قوم  یا کسی ایسی قوم کے مسائل کےجسکو شائد یہ بھی نہیں پتہ کہ پاکستان نام کا ملک افریقہ میں ہے یا ایشیا میں۔ ہمارے لیے لائقِ توجہ ٹھہری زرداری اور نواز شریف  کی سیاست  بجائے اوبامہ یا گورڈن براؤن کے بیانات کے۔ ہمارے لئے اہم مسئلہ  اس زمین پر پانی، بجلی، گیس کا ہے بجائے مریخ یا چاند پر پانی یا ہوا کے۔ بس حضور بس۔ ہم اسی دنیا میں ٹھیک ہیں۔ یہی دنیا جو کمپیوٹر کی پندرہ انچی سکرین سے باہر کی دنیا ہے۔  یہ دنیا جو سی این این یا بی بی سی کے تبصروں سے باہر کی کٹتے سروں، بہتے لہو اور جلتے گھروں کی دنیا ہے۔ ہم تو اسی دنیا کے باسی ہیں اور اسی دنیا پر ہی لکھ سکتے ہیں۔

ایک قصہ اور بھی۔ کہتے ہیں کہ دنیا کو بلاگستانِ اردو کا علم ہیں نہیں، یہاں تک کہ وطنِ عزیز کے لوگ بھی نہیں جانتے۔ وجہ شائد گوگل میں اردو نتائج کی کمی بتاتے ہیں۔دیکھو صاحبو پیاسا کنویں کے پاس آتا ہے کنواں پیاسے کے پاس نہیں۔ جن لوگوں کو اردو کی چاہ ہے وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر آپ تک پہنچ ہی جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اردو ویب سائٹس پر زیادہ آمد بیرونِ ملک رہائش پذیر ہموطنوں کی ہوتی ہے۔ اب جو صاحب دن میں چند لمحے کمپیوٹر کی سکرین کے آگے بیٹھیں اور اس مختصر وقت میں بجلی جانے کا بھی ڈر ہو اور دیگر کئی اہم کام بھی سر انجام دینا ہوں تو وہ آپکا بلاگ کیوں پڑھیں کہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں تک رسائی زیادہ آسان ہے۔ ہاں اگر آپ اچھے معیار کی کوئی متعلقہ بات لکھیں گے تو لوگ ضرور پڑھیں گے بلکہ اوروں کو بھی پڑھائیں گے۔ رہی بات گوگل کی تو یہاں مقدار کی بات آتی ہے، ذرا اردو میں کوئی چیز کھوجئے، آپکو بے تحاشہ صفحات فارسی کے ملیں گے کہ وہ لوگ اپنی زبان استعمال کرتے ہیں۔ شائد وجہ یہ ہے کہ ایران آج تک کسی ملک کی نوآبادیاتی کالونی نہیں رہا اور آج بھی اپنے طرزِ معاشرت و حکومت کو لیے، مغرب کے سامنے سینہ سَپر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انکے ہاں سے آنے والے پوسٹ ڈاکٹوریٹ حضرات بھی انگریزی سے بس کام ہی چلاتے ہیں  کہ وہاں کی جامعات میں اعلٰی تعلیم بھی فارسی ہی میں دی جاتی ہے۔ تو بھیا آپ بھی اردو لکھیں اور لکھائیں، گوگل خود بخود اردو نتائج دینا شروع کر دیگا۔

صاحب دنیا بھلے ایک عالمگیر گاؤں یا گلوبل ویلج بن گئی ہو، لوگ گلوبل نہیں ہوئے۔ یہ بات ضرور ہے کہ سرمایادارانہ نظام نے دنیا کے ہر حصے میں میک برگر یا کے ایف سی  کا مرغِ مسلّم تو پہنچا دیا ہے لیکن اب بھی لوگ بندو کے کباب، پھجے کے پائے یا کراچی بریانی کھانا تو نہیں بھولے نا؟  پھر یہ اردو انگریزی کی  بحث کو ہم تو نہیں سمجھے۔ صاحب یہ دنیا اور، وہ دنیا اور۔ یہ عوام کا چلن وہ خواص کا شیوہ، یہ گلی کوچے اور تھڑے کی دنیا وہ ڈرائنگ روم کی یخ بستہ فضا، یہ پرولتاریوں کی زبان وہ اشرافیہ کا شغل۔ نہ صاحب نہ ہم لنڈورے ہی بھلے۔ جن صاحب کو اپنی انگریزی کی مشق کا زیادہ شوق ہو وہ کسی پاکستانی یا ہندوستانی ٹی وی چینل پر ملازمت کر لیں کہ وہاں ایسے مواقع بسیار ملیں گے۔” یُو نو یہ آپکے کیرئیر کیلئے بھی بہت پروڈکٹیو ہو گا ۔۔۔” یہ اور بات کہ شائد آپ career کے ہجے carrier کر کے اپنی انگریزی دانی پر خوش ہو جاتے ہوں!!!