Faisaliat- فیصلیات

آئی ایم ناٹ شیور۔۔۔

Posted in Life, urdu by Shah Faisal on مارچ 28, 2009

صاحبو آج ایک تحریر پڑھی تو ایک پرانی بات یاد آ گئی۔ اپنے جرمنی کے ایک سالہ قیام کے دوران جو چند اساتذہ بلکہ جو چند جرمن مجھے پسند آئے ان میں ایک پروفیسر وولفگینگ بوکلمین بھی تھے۔ دھیما مزاج، شرمیلی مسکراہٹ، لمبا قد اور سب سے بڑھ کر انکساری۔ ہم سب شاگردوں سے ایسے بات کرتے جیسے وہ شاگرد ہوں اور ہم استاد۔ ہمارے ہاں تو کالج یا جامعہ کے ہر استاد کو پروفیسر کہہ دیا جاتا ہے بلکہ نجومی یا ہومیو ڈاکٹر بھی اپنے نام کے ساتھ پروفیسر لکھ لیتے ہیں لیکن مغرب میں ایسا نہیں ہوتا۔ بندہ کافی سینئر ہو کر اور کئی پاپڑ بیل کر پروفیسر بنتا ہے۔ پروفیسر بوکلمین کا کچھ کام آپ گوگل سکالر میں انکے نام کیساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ ان جیسے سینئر پروفیسر کی جو بات مجھے پہلے کچھ دن عجیب لگی بلکہ کوفت کا باعث بنی، وہ انکا تکیہ کلام تھا اور اس تکیہ کلام کے پیچھے یقیناً انکا لاشعور یا نفسیاتی حالت تھی جو شائد عادت میں ڈھل گئی تھی۔ قصہ کچھ یوں کہ ہم طلبا کے ہر سوال کے جواب کا آغاز وہ "آئی ایم ناٹ شیور بٹ آئی تھنک۔۔۔” سے کرتے تھے، یعنی مجھے مکمل علم تو نہیں لیکن میرا خیال کچھ یوں ہے۔ جواب دینے کے بعد یا اس سے پہلے وہ کلاس کے باقی طلبا سے بھی انکی رائے طلب کرتے تھے اور ہم اپنی کم علمی کے باوجود پھول پھول کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ بہرحال پہلے پہل تو مجھے بڑا عجیب لگا کہ عجیب استاد ہے، کسی بات کا مکمل علم ہی نہیں رکھتا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرا، مجھے اس بات کی گہرائی کا احساس ہوا۔ اوروں کا تو نہیں پتہ، اپنی بات کرتا ہوں۔ یقین کیجئے مجھے تو یہ کہنا کہ مجھے کسی بات کا علم نہیں یا مکمل علم نہیں، بہت ہی مشکل ہے۔ انا آڑے آ جاتی ہے، اندر کھڑے بت لرزنے لگتے ہیں، پسینہ آ جاتا ہے، سانس چڑھ جاتی ہے اور پھر میں بڑی ڈھٹائی سے دعویٰ کر دیتا ہوں کہ نو، آئی ایم شیور، مجھے یقین ہے کہ میرا علم کامل ہے، درست ہے۔۔۔ سچ پوچھیں تو شائد یہی وجہ ہے کہ میرا علم بھی نہایت محدود ہے۔ ویسے بھی اگر بندہ یہ سمجھ لے کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے تو کھڑکی ہی بند ہو جاتی ہے۔ شائد یہی میرا المیہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر بندہ یہ سمجھنے لگ جائے کہ وہ سب جانتا ہے یا عقل کُل ہے تو یا تو وہ بندہ نہیں، خدا ہے اور یا پھر وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ خدائی کا دعویٰ تو میں ہرگز نہیں کرتا لیکن دوسری صورت ہضمنے کیلئے بہت بڑا جگر چاہیئے جو فی الحال میرے پاس نہیں۔

صاحبو آپ نے یقیناً سنا ہو گا کہ نماز یا دعا میں رقت طاری ہو جائے تو یہ گھڑی شرفِ قبولیت کی ہوتی ہے۔ کیا آپ نے اس پر غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ فدوی کے اندازے کے مطابق تو اس لئے کہ جب بندہ اللہ میاں کے حضور بے اختیار رو پڑتا ہے تو گویا اپنی اوقات میں آ جاتا ہے، اسکی ساری اکڑفوں نکل جاتی ہے اور اسکو اپنی بیچارگی کے کامل احساس کی بدولت رونا آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کا یہ احساس پسند آتا ہے کہ غرور، تفاخر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو زیب دیتا ہے۔ جاننے اور نہ جاننے کے درمیان ایک طویل بلکہ شائد لا متناعی فاصلہ ہے۔ مکمل علم تو اللہ کی ذات کو ہے، وہ اس میں سے جتنا چاہتا ہے، اپنے بندے کو دیتا ہے۔ اور جسکو دیتا ہے، وہ بندہ اس علم کے بوجھ تلے دب کر کہتا ہے "آئی ایم ناٹ شیور”۔

فیصلعین- میرا تصویری بلاگ

Posted in Life, Photos by Shah Faisal on مارچ 21, 2009

صاحبو آخر کار ناچیز سے رہا نہیں گیا اور ایک تصویری بلاگ بنام فیصلعین ترتیب دے ہی ڈالا۔ بیگم کو یقین ہے کہ ایسا کرنے کی بنیادی وجہ شہرت کی ہوس ہے لیکن میرا ایسا چنداں خیال نہیں۔ فوٹوگرافی کرنے کا میرا  مقصد صرف اتنا ہے کہ اس دنیا کو نت نئے زاویوں سے خود بھی دیکھوں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی دکھاؤں۔

میں شائد ان لالچی لوگوں میں سے ہوں جو منزل پر تو پہنچنا چاہتے ہیں لیکن راستے کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہتے۔ بہت سے لوگ منزل کی دوڑ میں راستے کو مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں اور جب منزل پر پہنچتے ہیں تو ایک نئی منزل انکی منتظر ہوتی ہے۔ میرا فوٹوگرافی کرنا اس نہ ختم ہونے والے چکر سے بغاوت ہی سمجھ لیجئے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ زمین بہت خوبصورت ہے لیکن ہم اسے محسوس کیے بغیر ہی جی جاتے ہیں، مر جاتے ہیں۔ شائد ان تصویروں سے چند لمحے اس دنیا کو اسی دنیا میں جینے کے مل جائیں۔

ایک ثانوی مقصد اپنے احساسات کا اظہار تصویروں میں کرنا بھی ہے گرچہ اسکے لئے کافی مشق چاہیے جو مجھ جیسے نیم حکیم کے بس کی بات نہیں۔

آپکی آراء کا انتظار رہیگا۔ میری دائمی سستی کے طفیل گرچہ کم کم ہی پوسٹ دیکھنے کو ملیں گی جسکے لئے پیشگی معذرت قبول کیجئے۔

ارے ہاں، یہ تصاویر آپ فلکر پر یہاں دیکھ سکیں گے۔