آئی ایم ناٹ شیور۔۔۔
صاحبو آج ایک تحریر پڑھی تو ایک پرانی بات یاد آ گئی۔ اپنے جرمنی کے ایک سالہ قیام کے دوران جو چند اساتذہ بلکہ جو چند جرمن مجھے پسند آئے ان میں ایک پروفیسر وولفگینگ بوکلمین بھی تھے۔ دھیما مزاج، شرمیلی مسکراہٹ، لمبا قد اور سب سے بڑھ کر انکساری۔ ہم سب شاگردوں سے ایسے بات کرتے جیسے وہ شاگرد ہوں اور ہم استاد۔ ہمارے ہاں تو کالج یا جامعہ کے ہر استاد کو پروفیسر کہہ دیا جاتا ہے بلکہ نجومی یا ہومیو ڈاکٹر بھی اپنے نام کے ساتھ پروفیسر لکھ لیتے ہیں لیکن مغرب میں ایسا نہیں ہوتا۔ بندہ کافی سینئر ہو کر اور کئی پاپڑ بیل کر پروفیسر بنتا ہے۔ پروفیسر بوکلمین کا کچھ کام آپ گوگل سکالر میں انکے نام کیساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ ان جیسے سینئر پروفیسر کی جو بات مجھے پہلے کچھ دن عجیب لگی بلکہ کوفت کا باعث بنی، وہ انکا تکیہ کلام تھا اور اس تکیہ کلام کے پیچھے یقیناً انکا لاشعور یا نفسیاتی حالت تھی جو شائد عادت میں ڈھل گئی تھی۔ قصہ کچھ یوں کہ ہم طلبا کے ہر سوال کے جواب کا آغاز وہ "آئی ایم ناٹ شیور بٹ آئی تھنک۔۔۔” سے کرتے تھے، یعنی مجھے مکمل علم تو نہیں لیکن میرا خیال کچھ یوں ہے۔ جواب دینے کے بعد یا اس سے پہلے وہ کلاس کے باقی طلبا سے بھی انکی رائے طلب کرتے تھے اور ہم اپنی کم علمی کے باوجود پھول پھول کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ بہرحال پہلے پہل تو مجھے بڑا عجیب لگا کہ عجیب استاد ہے، کسی بات کا مکمل علم ہی نہیں رکھتا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرا، مجھے اس بات کی گہرائی کا احساس ہوا۔ اوروں کا تو نہیں پتہ، اپنی بات کرتا ہوں۔ یقین کیجئے مجھے تو یہ کہنا کہ مجھے کسی بات کا علم نہیں یا مکمل علم نہیں، بہت ہی مشکل ہے۔ انا آڑے آ جاتی ہے، اندر کھڑے بت لرزنے لگتے ہیں، پسینہ آ جاتا ہے، سانس چڑھ جاتی ہے اور پھر میں بڑی ڈھٹائی سے دعویٰ کر دیتا ہوں کہ نو، آئی ایم شیور، مجھے یقین ہے کہ میرا علم کامل ہے، درست ہے۔۔۔ سچ پوچھیں تو شائد یہی وجہ ہے کہ میرا علم بھی نہایت محدود ہے۔ ویسے بھی اگر بندہ یہ سمجھ لے کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے تو کھڑکی ہی بند ہو جاتی ہے۔ شائد یہی میرا المیہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر بندہ یہ سمجھنے لگ جائے کہ وہ سب جانتا ہے یا عقل کُل ہے تو یا تو وہ بندہ نہیں، خدا ہے اور یا پھر وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ خدائی کا دعویٰ تو میں ہرگز نہیں کرتا لیکن دوسری صورت ہضمنے کیلئے بہت بڑا جگر چاہیئے جو فی الحال میرے پاس نہیں۔
صاحبو آپ نے یقیناً سنا ہو گا کہ نماز یا دعا میں رقت طاری ہو جائے تو یہ گھڑی شرفِ قبولیت کی ہوتی ہے۔ کیا آپ نے اس پر غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ فدوی کے اندازے کے مطابق تو اس لئے کہ جب بندہ اللہ میاں کے حضور بے اختیار رو پڑتا ہے تو گویا اپنی اوقات میں آ جاتا ہے، اسکی ساری اکڑفوں نکل جاتی ہے اور اسکو اپنی بیچارگی کے کامل احساس کی بدولت رونا آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کا یہ احساس پسند آتا ہے کہ غرور، تفاخر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو زیب دیتا ہے۔ جاننے اور نہ جاننے کے درمیان ایک طویل بلکہ شائد لا متناعی فاصلہ ہے۔ مکمل علم تو اللہ کی ذات کو ہے، وہ اس میں سے جتنا چاہتا ہے، اپنے بندے کو دیتا ہے۔ اور جسکو دیتا ہے، وہ بندہ اس علم کے بوجھ تلے دب کر کہتا ہے "آئی ایم ناٹ شیور”۔
بزرگ فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں کہ جو درخت جتنا پھل دار ہوگا اسکی ٹہنیاں اتنی ہی جھکی ہونگی۔ اور سقراط کا قصہ تو سب کے علم میں ہے کہ وہ اپنے وقت کے ‘طرم خانوں’ سے کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ میں نہیں جانتا لیکن افسوس کہ تم نہیں جانتے۔
بہت اچھی تھریر ہے فیصل صاحب، لاجواب۔
آپ کی بات دل کو لگی ہے۔ ہماری اکثریت جب بحث مباحثوں میں الجھتی ہے تو ہر کوئی خود کو تیس مار خاں سمجھتا ہے اور دوسرے کی بات سننا تک گوارا نہیں کرتا۔
ایک دفعہ مسجد میں ایک بزرگ کو غلط وضو کرتے امام مسجد نے ٹوکا تو اس نے بڑی سی گالی دے کہا چل تیرے جیسے بہت سمجھا چکے ہیں۔ امام بولا چاچا اسی لیے تو سنورا ہوا ہے۔
اگر میں غلط نہیںتو شاید اشفاق صاحب نے کہا تھا کہ اہل علم بھی صوفی ہوتے ہیں، اور یہ تسلیم کرنا کہ مجھے علم نہیں، اس کے لئے صوفی کا ظرف چاہئے۔
دل کو چھوتی ہوئی تحریر ہے۔ مبارکباد قبول کیجئے۔۔
جی تو فیصل بھائی، کمال کر دیا آپ نے، یہ تو حقیقت ہے کہ یہ جو عقل کل ہونے کا جو خناس ہے یہ ڈبو دیتا ہے آدمی کو۔
کچھ عرصہ پہلے تک مجھے بھی جیسا آپ نے کہا کہ،
"یقین کیجئے مجھے تو یہ کہنا کہ مجھے کسی بات کا علم نہیں یا مکمل علم نہیں، بہت ہی مشکل ہے۔ انا آڑے آ جاتی ہے، اندر کھڑے بت لرزنے لگتے ہیں، پسینہ آ جاتا ہے، سانس چڑھ جاتی ہے اور پھر میں بڑی ڈھٹائی سے دعویٰ کر دیتا ہوں کہ نو، آئی ایم شیور، مجھے یقین ہے کہ میرا علم کامل ہے، درست ہے۔۔۔”۔
ایسی ہی حالت تھی، اب کچھ افاقہ ہو گیا ہے، دو ایک تجربات سے :)۔
کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ہم پاکستانی قوم کا مسئلہ یہی ہے، جس کی وجہ سے نئی راہیں نہیں کھل رہی، ہر جگہ پر آپ غور کریں تو صبح سے شام تک یہ بحث ہوتی رہے گی، کہ کون کتنا پانی میں ہے اور میں سب سے قابل کیسے ہوں۔
میرے بڑے بھائی، بڑی دلچسپ بات کہا کرتے ہیں کہ،
"Most of us are not professionals, but pretending to be professionals”
میرے دل کی بات کہہ دی آپ نے، خدا خوش رکھے!!!۔
فیصل صاحب تحریر کے لیے تو اتنا کہوں گا کہ ایک بہت بڑا آئینہ آپ نے چوک پر لٹکا دیا ہے جس سے نظریں چرا کر گزرنا پڑرہا ہے۔
ہضمنے کے لیے بڑا جگر ۔۔۔ کیا فقرہ ایجاد کیا ہے۔۔ دل خوش ہوگیا۔۔
لا جواب
محترم فیصل صاحب!
واقعی!، علم انسان کو آگہی کی وجہ سے خود اعتمادی کی توانائی بخشتا ہے، اور توانا آدمی کا مزاج عمعمی طور پہ دھیما ہوتا ہے۔
[…] اپنی ایک تحریر “آئی ایم ناٹ شیور” کے آغاز میں اپنے ایک پروفیسر کے بارے میں بتا رہے ہیں […]
Education teach a person everything, from how to be confident about yourself, how to spend a life with super decency !
good article
[…] اپنی ایک تحریر “آئی ایم ناٹ شیور” کے آغاز میں اپنے ایک پروفیسر کے بارے میں بتا رہے ہیں […]