رُودادِ فیس بُک
صاحبو پرانی بات ہے مجھے ایک ڈائری بنانے کا شوق چڑھا جس میں دوستوں کی تفصیلات مثلاً نام، پتہ، نمبر وغیرہ تو درج ہوتے ہی تھے لیکن ایک انٹرویو کی شکل میں لی گئی دیگر معلومات مثلاً پسندیدہ کھانے، فلم، کتابیں، شہر، وغیرہ وغیرہ کا مختصر احوال بھی درج ہوتا تھا۔ یہ غالباً نوے کی دہائی کے آغاز کی بات ہے جب ابھی انٹر نیٹ شروع ہی ہوا تھا۔ انٹر نیٹ کی معلومات تو بس اتنی ہی تھیں جتنی ایک دوست نے امریکہ سے واپسی پر دی تھیں جس کو میری محدود عقل نے ریڈیو یا ٹی وی چینلز کے برابر سمجھا جہاں ٹی وی یا ریڈیو کی بجائے کمپیوٹر استعمال ہوتا تھا (اگرچہ میرے خیال میں یہ تقابل کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا)۔ کمپیوٹر پر البتہ 85ء کے لگ بھگ سے طبع آزمائی کر رکھا تھی، جب یہ امریکنوں کی مہربانی سے والد صاحب کے دفتر کی زینت بنا تھا۔
خیر بات دوسری جانب نکل گئی کہ ذکر تو فیس بُک کا مطلوب تھا۔ جب اس بارے میں سنا تو مجھے اپنی وہ بھولی بسری ڈائری یاد آ گئی اور دوستوں سے رابطے کے شوق میں فیس بُک کھاتہ بھی بنا ڈالا۔فیس بک کے جوہر کھلے تو احساس ہوا کہ ان سب برسوں میں ٹیکنالوجی بہت بدل گئی ہے اور فیس بُک کے استعمال تو بےشمار ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ گرچہ زیادہ استعمال ان کا نہیں کیا کہ دوست احباب جن مقاصد کے لیے اسے استعمال کر رہے تھے وہ نہایت عمومی قسم کے تھے۔ مثلاً تصاویر شیئر کرنے کیلیے جسکے لیے میں پہلے ہی یاہو کی سروس فِلکر اور گوگل کا پکاسا ویب البم استعمال کر رہا تھا۔ یہ بھی کہ اپنے بعض دوستوں کی طرح مجھے بھی انٹرنیٹ پر اپنے وجود کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے (یعنی شہرت کا لالچ یا حرص تو ہے)۔ اب اس مقصد کیلئے (گرچہ صرف اسی وجہ سے نہیں) میرا بلاگ پہلے ہی انٹر نیٹ پر موجود تھا۔ ہر عام انسان کی طرح خود کو گوگل کر کے دیکھا تو بعض دوسری ویبسائٹس مثلاً گزشتہ یا حالیہ تعلیمی اداروں کی سائٹس وغیرہ پر بھی خود کو موجود پایا۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے برعکس کہ جو ایسے مشاغل نہیں رکھتے، فیس بُک کی دو منٹ میں (اور بس دو ہی منٹ کیلئے) شہرت فراہم کرنے کی خاصیت نے بھی کچھ زیادہ مشغول نہیں کیا (اسی بارے ایک سیانے کی پیش گوئی یہاں دیکھئے)۔ بلکہ ایک وقت تو یہ آیا کہ روابط کے عمومی سٹیٹس اپڈیٹس کو دیکھ دیکھ کر جی مزید بیزار ہونے لگا۔ وقت کا ضیاع (یا فارسی میں کہوں تو زیاں) الگ سے تھا۔ اجنبیوں کو بطور دوست شامل نہ کرنے کی عادت کا نتیجہ بھی یہ کہ فیس بُک کے روابط بھی روز ملنے والے دوستوں، واقف کاروں، یاگزشتہ ہم جماعتوں وغیرہ پر مشتمل تھے۔
ان باتوں نے تو خیر اتنا ہی اثر کیا کہ فیس بُک کی دیوانگی طاری نہ ہوئی۔ لیکن اس سے زیادہ اہم کچھ اور عوامل تھے۔ ایک یہ کہ بجائے اسکے کہ دوست مل کر اچھا وقت گزاریں، ایک مقابلے، مسابقت کی فضا کا احساس ہونے لگا کہ جہاں آپ دوسروں کی خوشی یا غم بانٹے کی بجائے دوسرے سے برتر نظر آنے یا دوسرے کو حسد میں مبتلا کرنے کی کوشش زیادہ کرتے ہیں (اور اس کوشش میں خود ہی حسد کا شکار ہوتے ہیں)۔
ابھی حال ہی میں ممتاز امریکی جامعہ سٹینفورڈ میں کی گئی ایک تحقیق شائع ہوئی (اصل مقالہ یہاں اور آسان زبان میں یہاں) تو پتہ چلا کہ میں اکیلا ہی اس مرض میں مبتلا نہیں تھا بلکہ شاید فیس بک کے بہت سے استعمال کنندہ اس یاس میں مبتلا ہیں کہ دوسرے انکی نسبت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ گویا ایک rat race ہے جہاں آپ اور آپکے دوست ایک دوسرے سے زیادہ خوش نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی کوشش میں بجائے خوش ہونے مجموعی طور پر سبھی حسرت، یاس، افسردگی، حسد، وغیرہ جیسے منفی احساسات کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک دوسری تحقیق کہتی ہے کہ جتنے زیادہ دوست، اتنی زیادہ ٹینشن۔ یعنی آپ اپنا پبلک امیج بنانے کے چکر میں خود کو غیر ضروری دباؤ کا شکار کر لیتے ہیں۔ باقی قباحتیں مثلاً ڈیٹا چوری ہونا، ذاتی زندگی کا منظر عام پر آنا اور طلاق ہونے میں فیس بُک کا بڑھتا ہوا کردار (گرچہ بقول غیر مصدقہ اور غیر سائنسی ذرائع)، وغیرہ اپنی جگہ پر ہیں، گرچہ مجھے ان سے بوجوہ کچھ زیادہ خوف محسوس نہیں ہوا۔
ان حالات میں جب فیس بُک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈرائنگز والا معاملہ چلا تو میں بھی بہت سے دوستوں کی طرح تذبذب کا شکار تھا کہ چلا جاؤں یا نظر انداز کر دوں۔ پھر کسی کا لکھا یہ پڑھا کہ ایک جگہ اگر آپکو یا آپکے والدین کو گالی دی جا رہی ہو تو کیا آپ جانا پسند کرینگے؟ بات دل کو لگی اور فیس بُک کا کھاتہ بند کر دیا۔ وجہ میں لکھ دیا کہ جب آپ مسلمانوں کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنے لگیں گے، میں بھی واپس آ جاؤنگا۔
میں مذہبی آدمی نہیں ہوں۔ اسلام کے بنیادی رُکن مثلاً نماز، روزہ، وغیرہ میں بھی بہت کوتاہی ہو جاتی ہے۔ نہ ہی میرے جانے سے فیس بُک بند ہو گئی یا اسے کوئی فرق پڑا ہے۔ ہاں البتہ مجھے ضرور فرق پڑا ہے۔ وہی وقت اب شاید، شاید کسی بہتر کام پر خرچ ہو جائے۔ نہ بھی ہو تو اس مسابقت کے احساس سے تو جان چھوٹ ہی گئی ہے کسی حد تک۔ اسی لیے تو آج تک ٹویٹر کا اکاؤنٹ نہیں بنایا۔ میرا کوئی کاروبار وغیرہ بھی نہیں کہ فیس بُک سے کوئی مالی فائدہ حاصل ہو رہا ہو۔ بات رہی سستی شہرت کے لالچ کی تو وہ بلاگ، فلکر، گوگل پر بھنبنانا، وغیرہ سے پورا ہو ہی جاتا ہے۔
آپ سے دعا کی البتہ ضرور درخواست کرتا ہوں کہ شہرت کے کسی معمولی سے معمولی حرص سے بھی جان چھوٹ جائے اور دوسرے کی پلیٹ میں دیکھنے کی عادت یا جبلت بھی مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ آمین ثم آمین۔
سائیکلون یاسی۔۔۔ دعا کریں
صاحبو آپ نے آسٹریلیا کی ریاست کوئینزلینڈ میں آنے والے حالیہ سیلاب کے بارے میں تو سنا ہو گا جس میں دوسرے شہروں کے علاوہ صدر مقام اور خوبصورت شہر برسبین بھی زیر آب آ گیا تھا۔ یہ ابھی چند دن پرانی بات ہی ہے لیکن آج کی رات کوئینزلینڈ کو ایک اور آزمائش کا سامنا ہے جسکا نام ہے سائکلون یاسی (اس طوفان کے بارے میں تکنیکی معلومات دیکھیے یہاں)۔
یہ سائکلون کچھ ہی وقت میں کینز اور دوسرے ساحلی شہروں سے ٹکرانے والا ہے۔ کیٹگری 5 کا یہ سائکلون امریکا میں آنے والے قطرینا جتنا طاقتور تصور کیا جا رہا ہے اور 1974 میں آنے والے ساکلون ٹریسی سے کہ جس نے ڈارون کو تباہ و برباد کر دیا تھا، زیادہ طاقتور ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ آسٹریلیا میں ایک صدی میں آنے والا طاقتور ترین طوفان ہے۔ ایک سرے سے دوسر سرے تک اسکا سائز 1000 کلومیٹر ہے جبکہ اسکا وسط یا آنکھ 35 کلومیٹر قطر کی ہے۔ 300 سے 450 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کی ہوائیں اپنے راستے میں آنے والی پر چیز کو تہس نہس کر دیں گی۔فوج اور پولیس نے لوگوں کو گھر گھر جا کر اس بارے مطلع کیا ہے اور بہت سے لوگ سکولوں، شاپنگ سینٹرز اور دیگر محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔ دو اقساط میں آنے والے طوفان کی ہر قسط تقریباً دس گھنٹے طویل ہو گی۔ لمحہ بہ لمحہ خبریں یہاں پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
میں اس مقام سے ہزاروں ڈھائی ہزار کلومیٹر دور ہوں لیکن آپ لوگوں سے دعا کی گزارش ہے کہ اللہ تبارک تعالی سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین ثم آمین۔
اپڈیٹ:
تقریباً 24 گھنٹے بعد اور زمین پر 900 کلومیٹر سفر کے بعد یہ طوفان ماؤنٹ عیسیٰ کے علاقے میں دم توڑ رہا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر کینز کے شمال میں دو قصبے ٹلی اور مشن بیچ ہوئے ہیں۔ تقریباً دو لاکھ گھر اسوقت بغیر بجلی کے ہیں۔ کئی علاقوں میں سیلاب آیا ہوا ہے اور ایک تہائی گھر تباہ ہو گئے ہیں۔ بجلی کے کھمبے، گھر، دکانیں، کیلے کے باغات اور گنے کے کھیت سب برباد ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ابھی مزید بارشیں ہونا ہیں اور ان گرمیوں میں شاید کچھ مزید طوفان بھی آئیں۔ کیٹگری 5 کے طوفان مستقبل میں زیادہ آنے کا خدشہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اپنا خراج وصول کر رہی ہے۔ ایک محقق کے مطابق لوگوں کو ساحلی علاقے چھوڑ کر بلند مقامات پر منتقل ہونا پڑیگا اور ہر وہ جگہ جو طوفانوں کے راستے میں آتی ہے، ہمیشہ کیلیے چھوڑنا پڑیگی۔
اس افسوس کن صورتحال کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ فی الحال کہیں سے بھی جانی نقصان یا کسی کے شدید زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ پے در پے طوفانوں نے اس قوم کو جینے کا ڈھنگ سکھایا ہے اور جن علاقوں میں طوفان آیا ہے، وہاں پہلے سے ہی بلڈنگ کوڈز کے مطابق تعمیرات کی جا رہی تھیں جسکی وجہ سے اتنے شدید جھکڑ چلنے کے باوجود بیشتر علاقوں کی بیشتر عمارتیں سلامت رہیں۔ سیاستدان، مقامی انتظامیہ، پولیس، فوج اور رضاکاروں نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ متاثر کن ہے۔ یقیناً بہتر طرز حکمرانی ہی ایسے حادثات سے نمٹنے کی صلاحیت دیتی ہے۔
ان سب دوستوں کا شکریہ جنھوں نے دعائیں کیں اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ایسے حادثات سے نمٹنے کی صلاحیت عطا کرے۔ آمین ثم آمین۔
11 comments