Faisaliat- فیصلیات

رُودادِ فیس بُک

Posted in urdu by Shah Faisal on فروری 17, 2011

صاحبو پرانی بات ہے مجھے ایک ڈائری بنانے کا شوق چڑھا جس میں دوستوں کی تفصیلات مثلاً نام، پتہ، نمبر وغیرہ تو درج ہوتے ہی تھے لیکن ایک انٹرویو کی شکل میں لی گئی دیگر معلومات مثلاً پسندیدہ کھانے، فلم، کتابیں، شہر، وغیرہ وغیرہ کا مختصر احوال بھی درج ہوتا تھا۔ یہ غالباً نوے کی دہائی کے آغاز کی بات ہے جب ابھی انٹر نیٹ شروع ہی ہوا تھا۔ انٹر نیٹ کی معلومات تو بس اتنی ہی تھیں جتنی ایک دوست نے امریکہ سے واپسی پر دی تھیں جس کو میری محدود عقل نے ریڈیو یا ٹی وی چینلز کے برابر سمجھا جہاں ٹی وی یا ریڈیو کی بجائے کمپیوٹر استعمال ہوتا تھا (اگرچہ میرے خیال میں یہ تقابل کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا)۔ کمپیوٹر پر البتہ 85ء کے لگ بھگ سے طبع آزمائی کر رکھا تھی، جب یہ امریکنوں کی مہربانی سے والد صاحب کے دفتر کی زینت بنا تھا۔

خیر بات دوسری جانب نکل گئی کہ ذکر تو فیس بُک کا مطلوب تھا۔ جب اس بارے میں سنا تو مجھے اپنی وہ بھولی بسری ڈائری یاد آ گئی اور دوستوں سے رابطے کے شوق میں فیس بُک کھاتہ بھی بنا ڈالا۔فیس بک کے جوہر کھلے تو احساس ہوا کہ ان سب برسوں میں ٹیکنالوجی بہت بدل گئی ہے اور فیس بُک کے استعمال تو بےشمار ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ گرچہ زیادہ استعمال ان کا نہیں کیا کہ دوست احباب جن مقاصد کے لیے اسے استعمال کر رہے تھے وہ نہایت عمومی قسم کے تھے۔ مثلاً تصاویر شیئر کرنے کیلیے جسکے لیے میں پہلے ہی یاہو کی سروس فِلکر اور گوگل کا پکاسا ویب البم استعمال کر رہا تھا۔ یہ بھی کہ اپنے بعض دوستوں کی طرح مجھے بھی انٹرنیٹ پر اپنے وجود کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے (یعنی شہرت کا لالچ یا حرص تو ہے)۔ اب اس مقصد کیلئے (گرچہ صرف اسی وجہ سے نہیں) میرا بلاگ پہلے ہی انٹر نیٹ پر موجود تھا۔ ہر عام انسان کی طرح خود کو گوگل کر کے دیکھا تو بعض دوسری ویبسائٹس مثلاً گزشتہ یا حالیہ تعلیمی اداروں کی سائٹس وغیرہ پر بھی خود کو موجود پایا۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے برعکس کہ جو ایسے مشاغل نہیں رکھتے، فیس بُک کی دو منٹ میں (اور بس دو ہی منٹ کیلئے) شہرت فراہم کرنے کی خاصیت نے بھی کچھ زیادہ مشغول نہیں کیا (اسی بارے ایک سیانے کی پیش گوئی یہاں دیکھئے)۔ بلکہ ایک وقت تو یہ آیا کہ روابط کے عمومی سٹیٹس اپڈیٹس کو دیکھ دیکھ کر جی مزید بیزار ہونے لگا۔ وقت کا ضیاع (یا فارسی میں کہوں تو زیاں) الگ سے تھا۔ اجنبیوں کو بطور دوست شامل نہ کرنے کی عادت کا نتیجہ بھی یہ کہ فیس بُک کے روابط بھی روز ملنے والے دوستوں، واقف کاروں، یاگزشتہ ہم جماعتوں وغیرہ پر مشتمل تھے۔

ان باتوں نے تو خیر اتنا ہی اثر کیا کہ فیس بُک کی دیوانگی طاری نہ ہوئی۔ لیکن اس سے زیادہ اہم کچھ اور عوامل تھے۔ ایک یہ کہ بجائے اسکے کہ دوست مل کر اچھا وقت گزاریں، ایک مقابلے، مسابقت کی فضا کا احساس ہونے لگا کہ جہاں آپ دوسروں کی خوشی یا غم بانٹے کی بجائے دوسرے سے برتر نظر آنے یا دوسرے کو حسد میں مبتلا کرنے کی کوشش زیادہ کرتے ہیں (اور اس کوشش میں خود ہی حسد کا شکار ہوتے ہیں)۔

ابھی حال ہی میں ممتاز امریکی جامعہ سٹینفورڈ میں کی گئی ایک تحقیق شائع ہوئی (اصل مقالہ یہاں اور آسان زبان میں یہاں) تو پتہ چلا کہ میں اکیلا ہی اس مرض میں مبتلا نہیں تھا بلکہ شاید فیس بک کے بہت سے استعمال کنندہ اس یاس میں مبتلا ہیں کہ دوسرے انکی نسبت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ گویا ایک rat race ہے جہاں آپ اور آپکے دوست ایک دوسرے سے زیادہ خوش نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی کوشش میں بجائے خوش ہونے مجموعی طور پر سبھی حسرت، یاس، افسردگی، حسد، وغیرہ جیسے منفی احساسات کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک دوسری تحقیق کہتی ہے کہ جتنے زیادہ دوست، اتنی زیادہ ٹینشن۔ یعنی آپ اپنا پبلک امیج بنانے کے چکر میں خود کو غیر ضروری دباؤ کا شکار کر لیتے ہیں۔ باقی قباحتیں مثلاً ڈیٹا چوری ہونا، ذاتی زندگی کا منظر عام پر آنا اور طلاق ہونے میں فیس بُک کا بڑھتا ہوا کردار (گرچہ بقول غیر مصدقہ اور غیر سائنسی ذرائع)، وغیرہ اپنی جگہ پر ہیں، گرچہ مجھے ان سے بوجوہ کچھ زیادہ خوف محسوس نہیں ہوا۔

ان حالات میں جب فیس بُک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈرائنگز والا معاملہ چلا تو میں بھی بہت سے دوستوں کی طرح تذبذب کا شکار تھا کہ چلا جاؤں یا نظر انداز کر دوں۔ پھر کسی کا لکھا یہ پڑھا کہ ایک جگہ اگر آپکو یا آپکے والدین کو گالی دی جا رہی ہو تو کیا آپ جانا پسند کرینگے؟ بات دل کو لگی اور فیس بُک کا کھاتہ بند کر دیا۔ وجہ میں لکھ دیا کہ جب آپ مسلمانوں کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنے لگیں گے، میں بھی واپس آ جاؤنگا۔

میں مذہبی آدمی نہیں ہوں۔ اسلام کے بنیادی رُکن مثلاً نماز، روزہ، وغیرہ میں بھی بہت کوتاہی ہو جاتی ہے۔ نہ ہی میرے جانے سے فیس بُک بند ہو گئی یا اسے کوئی فرق پڑا ہے۔ ہاں البتہ مجھے ضرور فرق پڑا ہے۔ وہی وقت اب شاید، شاید کسی بہتر کام پر خرچ ہو جائے۔ نہ بھی ہو تو اس مسابقت کے احساس سے تو جان چھوٹ ہی گئی ہے کسی حد تک۔ اسی لیے تو آج تک ٹویٹر کا اکاؤنٹ نہیں بنایا۔ میرا کوئی کاروبار وغیرہ بھی نہیں کہ فیس بُک سے کوئی مالی فائدہ حاصل ہو رہا ہو۔ بات رہی سستی شہرت کے لالچ کی تو وہ بلاگ، فلکر، گوگل پر بھنبنانا، وغیرہ سے پورا ہو ہی جاتا ہے۔

آپ سے دعا کی البتہ ضرور درخواست کرتا ہوں کہ شہرت کے کسی معمولی سے معمولی حرص سے بھی جان چھوٹ جائے اور دوسرے کی پلیٹ میں دیکھنے کی عادت یا جبلت بھی مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ آمین ثم آمین۔

11 Responses

Subscribe to comments with RSS.

  1. جعفر said, on فروری 17, 2011 at 2:17 صبح

    چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔۔
    اور جہاں تک آپ کی دعا کی درخواست کا تعلق ہے تو جناب، اس چیز کا احساس ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اس میں مبتلا نہیں، اسی لیے یہ دعا آپ کو باقی سب کے لیے کرنی چاہیے۔

  2. Yasir Imran said, on فروری 17, 2011 at 2:53 صبح

    فیس بک رابطے کے لیے بہترین ہے، تاہم آخری نقاط واقعی اہم ہیں، بعض لوگ اپنی شہرت سے دبائو میں آ جاتے ہیں، اور بعض اونچی ہوائوں میں آڑنے لگتے ہیں۔ اگر تو انسان اپنی فیملی کے ساتھ ہو تو اسے وقت گزارنے کے لیے انہیں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اور اگر فیملی ساتھ نہیں تو کچھ بھی کرتا پھرے

  3. راشد کامران said, on فروری 17, 2011 at 4:07 صبح

    فیصل بھائی ہر چیز کے نامناسب استعمال کی طرح فیس بک کا بھی نامناسب اور غیر ضروری استعمال لامحالہ مسائل میں مبتلا کرے گا۔۔۔ فیس بک سے پہلے بھی رابطوں کے دوسرے ذرائع ان تمام ذہنی و روحانی بیماریوں کا سبب بنتے رہے ہیں اور رشک و حسد ایک ایسا انسانی جذبہ ہے جس کو شاید ختم کرنا ممکن نہیں۔۔ اب جبکہ ہمارا خاندان تین بر اعظموں اور کئی ملکوں میں پھیلا ہوا ہے "فیس بک” آف لائن رابطے کا ایک بہت اہم ذریعہ بن گیا ہے۔۔ میرا نہیں خیال کے سوشل نیٹ ورکنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے سے ہم اپنے آپ کو کوئ فائدہ پہنچا سکیں گے۔۔ ہاں تربیت تو کئی چیزوں میں ضروری ہے۔۔ محقیقن اگر اپنی تحقیق کا دائرہ محض نقصانات پر مرکوز کرنے کے بجائے اگر تقابلی جائزہ پیش کریں تو بات یکطرفہ نا ہو۔۔

    مذہبی جذبات کے حوالے سے کیا گیا آپ کا فیصلہ بہرحال قابل قدر ہے لیکن فوائد و نقصانات کا فیصلہ فرد کے رجحانات پر منحصر ہے۔

  4. یاسر خوامخواہ جاپانی said, on فروری 17, 2011 at 7:35 صبح

    ابھی تک فیس بک کے فوائد تو میرے سمانے نہیں آئے۔
    دوسرا کام کرنے کے ساتھ ساتھ عموماً فیس بکیاں کرتا ہوں (بکیاں کی ب کو زبر سے پڑھا جائے۔)
    ہم خیا ل ساتھیوں سے ہلکی پھلکی گپ شپ لگانے کیلئے تو ٹھیک ہے اس زیادہ گھسنا نقصان دہ ہی لگتا ہے۔

  5. عمران اقبال said, on فروری 17, 2011 at 7:38 صبح

    ٹیکنالوجی کے سفر کی تمہید اچھی باندھی آپ نے۔۔۔

    ہر کام کو اس کی پریارٹی کے مطابق کیا جائے تو عمل کی افادیت نکھر آتی ہے۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام، اسلامی تعلیمات اور اعمال ہی اس لسٹ میں سے زیادہ اہم ہیں۔۔۔ اور ان میں کوتاہی ناقابل تلافی نقصان ہیں۔۔۔

    باقی رہی بات فیس بک کی آفادیت کی۔۔۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ نوے فیصد لوگ، فیس بک کو صرف سٹیٹس اپڈیٹ اور تصاویر اور ویڈیو شیرنگ کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں۔۔۔ انہیں نا تو ایڈورٹائزنگ کا کوئی شوق ہے اور نا ہی ضرورت۔۔۔ اب اگر یہ مصروفیت زندگی سے نکل جائے تو زندگی کی افادیت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔

  6. ابوشامل said, on فروری 18, 2011 at 4:25 شام

    بہت اچھا لکھا فیصل بھائی۔ کوئی تو ہے جو میری طرح سوچتا ہے 🙂

  7. daaljan said, on فروری 27, 2011 at 1:39 شام

    salam o alaykom
    http://daaljan.wordpress.com/

  8. […] رُودادِ فیس بُک […]

  9. Darvesh Khurasani said, on جون 21, 2011 at 2:04 صبح

    ابھی آپ کے بلاگ کی سیر کر رہا تھا کہ ایک جگہ فیس بک کے بارے میں دیکھا تو دل نے چاہا کہ دیکھو کیا لکھا ہے۔ ماشاءاللہ اچھا لکھا ہے۔ فیس بک کی سازش ایسی پھیلائی جارہی ہے کہ پشاور کے مشہور اخبار روزنامہ مشرق اور آج اپنے فرنٹ اور بیک پیج پر باقاعدہ ایک اشتھار دیتے تھے جس میں انکے فیس بک کا پتہ ہوتا تھا۔
    میں نے خود بھی فیس بک کے بارے میں ایک دو مضامین لکھے تھے،جسکو کافی لوگوں نے پسند کیا اور کافی لوگ اس کے چھوڑنے پر تیار ہوگئے ۔ الحمدللہ
    فیس بک کے بارے میں میرے لکھے گئے کالم کا پتہ درج ذیل ہے۔
    http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=10482

    • Shah Faisal said, on جون 21, 2011 at 8:18 شام

      شکریہ جناب، تشریف آوری کیلئے۔
      آپکا مضمون دیکھا ہے، اچھا لکھا ہے۔

  10. Abu Umer said, on نومبر 23, 2011 at 4:43 شام

    Nice to read the comments of commenters. These things belong to one’s heart, his liking with Allah and Muhammad saw.
    May Allah bless us the right path and love of Hazrat Muhammad s.a.w.


جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: