باتیں کچھ اُردو کی۔۔۔
صاحبو بلاگستان میں بات چلی ہے اردو کی ترقی کی ۔ میری اس تحریر کی وجہ بھی ابو شامل صاحب ہی ہیں (یعنی دعاؤں یا بددعاؤں کا رخ ادھر ہی رکھیے) ۔ نہیں ایسا نہیں کہ یہ پہلی مرتبہ ہے اور نہ ہی آخری مرتبہ ہو گی انشااللہ۔ اب بڑھاپے کا ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جذبہ مر جاتا ہے، یا کم از کم دھیما ضرور پڑ جاتا ہے۔ میں نے کچھ لوگوں کو اس بارے خاصا پر جوش دیکھا تو اپنے بڑھاپے کا احساس ہونے لگا۔ ایک فائدہ البتہ یہ کہ توانائیوں کی جگہ تجربہ لے لیتا ہے۔ بجائے طاقت صرف کرنے کے آپ اپنی ترجیحات کو ذہن میں رکھتے ہیں، مطلوبہ نتائج کو تولتے ہیں اور ممکنہ لائحہ عمل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ سب ایک ترتیب سے نہیں ایک دائرے میں ہوتا ہے اور بسا اوقات ترجیحات ممکنات کے تابع ہوتی ہیں اور مطلوبہ نتائج کی بجائے متوقع نتائج کی بنا پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جوانی میں ایسا نہیں ہوتا۔ یا یوں کہہ لیجیے بڑی حد تک نہیں ہوتا۔
دوستوں نے ایک بات کی کمپیوٹر پر اردو کو لکھنے، پڑھنے، دیکھنے کے مسائل کی۔ یہ بات بھی طے پائی کہ ان سب مراحل کو آسان بنایا جائے تا کہ نوواردوں کو ان مسائل سے پریشانی نہ ہو اور وہ گھبرا کر پلٹ نہ جائیں۔ جب فدوی نے بلاگنگ شروع کی تھی تو چند دوستوں نے جن میں قدیر، نعمان، مکی وغیرہ ( اور یقیناً اور دوست بھی کہ جنکے نام میں بھول رہا ہوں اور جن سے معافی کا خواستگار ہوں) قابل ذکر ہیں، تکنیکی مدد دی تھی۔ بعد کے عرصے میں بلال کا کام ہمیشہ بہت مددگار ثابت ہوا۔ میری طرح ٹیکنالوجی سے نابلد دوسرے حضرات کی مدد کرنے یقیناً لوگ سامنے آئے ہونگے لیکن یہ انفرادی حیثیت میں ہی ہوتا رہا۔ اس ضمن میں، میں لیکن بہرحال چند گزارشات گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جو یقیناً پہلے بھی کئی مرتبہ کئی دوست کہہ چکے ہیں لیکن یہاں دہرانے میں میں مضائقہ نہیں، کم از کم میری دانست میں نہیں۔
پہلے تو ایک مختصر سا reality check۔ گرچہ تلخ ہی سہی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اردو کا انگریزی سے مقابلہ کوئی نہیں ہے۔ بیرون ملک چھوڑیں خود پاکستان میں بھی یہ صرف رابطے کی زبان (اور کم ہی لوگوں کی مادری زبان) ہے۔ گرچہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے کہ مثلاً والدین کے ساتھ سرائیکی بولنے کے باوجود میں اور میرے بہن بھائی اپنے بچوں سے اردو ہی میں بات کرتے ہیں۔ میرے صاحبزادے تو کچھ درمیان کی چیز ہی سیکھ رہے تھے کہ اردو انگریزی دونوں کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ خیر اب منے میاں پاکستان میں ہیں اور امید ہے کہ بہت جلد اپنی "اصل” پر آ جائیں گے، یعنی اردو، سرائیکی اور شاید کچھ پشتو کی بھی، سُدھ بدھ ہو جائیگی۔
سو جناب اردو کا مقدمہ صرف انٹرنیٹ پر غیر موجودگی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی ایک اقلیتی زبان کے طور پر ہے۔ دفتری زبان انگریزی ہی ہے اور اگلے کئی برس صورتحال تبدیل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی کہ پاکستان کے معاشرے میں انگریزی ایک زبان نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی، ایک طبقہ اور اس طبقے کا ایک ہتھیار ہے۔ دل کے کچھ پھپھولے یہاں پھوڑے تھے، یہ بھی دیکھ لیں۔ اس سے عام عوام کو بےخبر اور اختیار سے دور رکھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ سو مسئلہ تکنیکی نہیں سیاسی اور سماجی ہے۔ بہرحال بات نکلے گی تو بڑی دور تلک جائے گی۔ فی الوقت میں آپکے منہ کا مزہ خراب نہیں کرنا چاہتا۔ کچھ نہ کچھ مقابلہ تو کیا ہی جا سکتا ہے اور اسی سلسلے میں چند پریشان خیالات کو یہاں اکھٹا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
1. مواد کی تیاری:
ہم مانیں یا نہیں لیکن بہت سے لوگ اپنے کمپیوٹروں پر اردو لکھنے سے پہلے اردو پڑھنا چاہیں گے۔ لکھنے کا مسئلہ اکثر کچھ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، خصوصا اسوقت جب بہت سے لوگوں مثلاً بلال اور اداروں مثلاً کرلپ نے اسکے بہت آسان حل نکال چھوڑے ہیں۔ پڑھنے کا معاملہ میرے نزدیک زیادہ سنجیدہ ہے اور لوگوں کو اردو پڑھنے پر راغب کرنے کیلئے content یا مواد (یعنی اچھے معیار، مقدار اور ہمہ گیر/ موضوعاتی مواد کا ہونا) بہت ضروری ہے۔ یہ مواد وکیپیڈیا کے خزانے کا اردو ترجمہ کر کے تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ یہ مواد انفرادی یا اجتماعی بلاگ لکھ کر بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ یہ کام اردو یا دیگر زبان کی کتابوں کو مروجہ اصولوں کے مطابق ڈیجیٹل حالت (یعنی یونی کوڈ) میں لانے کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام حکومت اور غیر حکومتی اداروں کو اس بات پر راضی یا مجبور کر کے بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ویب سائٹس کا بیشتر یا کم از کم کچھ حصہ اردو میں رکھیں۔ یہ مواد یوٹیوب پر اردو زبان میں روزمرہ ٹیکنالوجی مثلاً کمپیوٹر، موبائل فون، بینکنگ وغیرہ سے متعلق اسباق یا ٹیوٹوریلز بنا کر بھی تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ یہ اردو سے متعلق مختلف حکومتی اداروں کو اپنے دائرے میں لانے اور انھیں زیادہ پیداواری، زیادہ ذمہ دار اور زیادہ جوابدہ بنا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ ویب ٹو مثلاً یو ٹیوب، فلکر، فیس بُک، ٹویٹر وغیرہ کا بہتر استعمال بہت ضروری اور فائدہ مند ہے۔ میں آنلائن سوشل نیٹورکنگ کا بہت زیادہ دلدادہ نہیں لیکن بہرحال لنکڈ اِن، فلکر، گوگل بز، یوٹیوب وغیرہ استعمال کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ لوگوں تک یہ بات پہنچ سکے کہ کمپیوٹر پر اردو لکھنا پڑھنا کوئی انہونی بات نہیں۔ آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں اور جو کر رہے ہیں اسے زیادہ بہتر بنا سکتے ہیں۔ میرے ناقص خیال میں ان سب باتوں میں سے ہر ایک پر کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے اور صرف اس میں منظم طریقے سے بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
2. منصوبہ سازی:
پلاننگ کا کردار نہایت اہم ہے۔ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اردو کی ترویج۔ لیکن یہ دو دنوں میں ہونے والا کام تو ہے نہیں، شائد چند نسلیں لگیں اس کام میں۔ تو اس مقصد کو مقصدِ اعلیٰ بناتے ہوئے چھوٹے چھوٹے سنگ میل ترتیب دیں اور ان تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ ہر منصوبے یا پراجیکٹ کی ایک شروعات ہوتی ہے، ایک یا چند گنے چنے مقاصد، ان کو پورا کرنے کے لیے ذرائع، اور خاتمے کا ایک وقت۔ میں پراجیکٹ مینجمنٹ پڑھ بلکہ تھوڑا بہت پڑھا بھی چکا ہوں اور لاگ فریم سے بھی واقفیت ہے۔ چند ایک پراجیکٹس ، دفتری بھی اور ذاتی/ رضاکارانہ بھی، بنانے اور چلانے میں شامل بھی رہا ہوں اسلیے اس کی اہمیت سے واقف ہوں۔ اس ضمن میں "ک” کو ذہن میں رکھیں: یعنی:
الف) کون۔۔۔
ب) کس وقت۔۔۔
ج) کس جگہ۔۔۔۔
د) کس طریقے سے۔۔۔۔
ہ) کیا۔۔۔۔۔
کرے گا؟
یہ سوال یا مجموعہ سوالات آپکو خود بخود مجبو ر کر دیتا ہے کہ آپ منصوبہ سازی کریں۔ یعنی اس بات کا فیصلہ کریں کہ کس مقصد کے حصول کیلئے کیا کرنا ہے اور اسکو کرنے کیلئے ذمہ داروں کا تعین کریں۔ انکو وقت اور دیگر ذرائع مہیا کریں اور جوابدہی کا ایک نظام بنائیں۔
3. پیسہ، پیسہ، پیسہ
جی ہاں خود بھی پیسہ کمائیں اور اپنے منصوبے کیلئے بھی پیسے کا بندوبست کریں۔ ہمارے محلے کی چار صف کی چھوٹی سی مسجد سے لے کر بین الاقوامی ادارے، یہاں تک کہ سرکارے ادارے بھی، کسی نہ کسی سطح پر فنڈ ریزنگ کرتے یا چندہ مانگتے ہیں۔ میں چندے کے خلاف نہیں لیکن میری ناقص رائے میں، کام ہی ایسا کرنا چاہیئے جس کی طلب ہو۔ پیسہ خود بخود جھولی میں آ گرتا ہے۔ مثلاً لوگ فلسفے پڑھنے سے زیادہ ایک موبائل فون کا ریویو پڑھنا چاہیں گے۔ اردو کی ترویج کیلئے بھی ایسا ہی بندوبست ہونا چاہیئے۔ ویبسائٹس پر اشتہارات، سرکاری، نیم سرکاری، اداروں یا نجی کاروباروں کےلئے اردو ویبسائیٹس بنانے کا کام، پبلشرز کے لئے یونی کوڈ میں مواد کی منتقلی، کچھ ذرائع ہو سکتے ہیں۔ کچھ پیسہ محدود پیمانے پر آئی ٹی سے متعلق ٹریننگ وغیرہ دے کر بھی کمایا جا سکتا ہے تو (بہت ہی چھوٹے پیمانے کے) اداروں کی کمپیوٹرائزیشن بھی شاید ایک سلسلہ بن سکے۔
ہر معاشر ے کی طرح پاکستان میں بھی تقریباً ہر کام کرنے کے لئے رضاکار مل جاتے ہیں۔ لیکن ایسا سمجھنا کہ رضاکارانہ کام کروانے سے پیسے یا وقت کی بچت ہوتی ہے، بہت ہی بڑی غلطی ہے۔ اکنامکس میں ایک پوری سوچ transaction costs کے متعلق موجود ہے۔ شوقین حضرات یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ ان بابا جی بہ نام رونلڈ کوس، کو نوبیل انعام غالباً اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے پر ملا کہ لوگ کب مل کر کام کرتے ہیں (یعنی ایک فرم کی شکل میں) اور کب وہ انفرادی طور پر کام کریں گے۔ جواب یہ تھا کہ جہاں خرچہ کم آئگا یا فائدہ زیادہ ہو گا، وہ راستہ اپنایا جائے گا۔ مثلاً میں پھیری لگا کر سبزی بیچتا ہوں تو گدھا گاڑی اپنی لے لوں یا روزانہ کرائے پر حاصل کروں؟ دفتر کے باہر گارڈ اپنا رکھوں یا کسی کمپنی سے کرائے پر حاصل کروں، وغیرہ۔ بات اتنی سادہ نہیں لیکن کچھ ایسی ہی ہے
بہرحال کہنے کا مقصد یہ تھا کہ رضاکارانہ کام کرانے کے اپنے جھنجھٹ ہوتے ہیں اور بہت ہوتے ہیں اسلیے بسا اوقات پیسے دے کر کام کروانا زیادہ سستا پڑتا ہے۔ اسی طرح کام کرنے والے کو بھی دیکھنا چاہیے کہ مفت کام کرنے کی حد کہاں ختم ہوتی ہے اور اپنی خدمات کا معاوضہ لینے کی کہاں شروع۔
4. عربی کا اونٹ بنیں:
بنے بنائے پلیٹ فارم استعمال کریں۔ وہاں جائیں جہاں لوگ آپکو دیکھ، سن سکیں۔ چاہے یہ کوئی ملاقات ہو، چاہے کوئی بلاگ ایگریگیٹڑ ہو، چاہے بی بی سی اردو یا دوسری مشہور اردو یا انگریزی ویبسائٹ ہو۔ لوگوں کو بتائیں کہ آپ بطور اردو بلاگر اور بطور بلاگستان کے ایک ممبر کے، اپنا وجود رکھتے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے عواب نے مہمان لکھاریوں کو مدعو کیا تھا لیکن میرے اس سوال پر کہ کیا وہ اردو پوسٹ بھی قبول کریگا، خاموش ہو گیا تھا۔ اب اگر وہ آپکو دعوت دے رہا ہے تو وہاں اور دیگر جگہوں پر بطور مہمان لکھاری ضرور لکھیں۔
5. پہیے کو دوبارہ ایجاد کرنے کا فائدہ نہیں:
جو ہو چکا ہے اس کو لے کر آگے بڑھیں۔ اس میں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کسی اور زبان میں تخلیق کی گئی ٹیکنالوجی بلکہ اصطلاحات کو بھی، اردوا رہے ہیں یا جوں کا توں ترجمہ کر رہے ہیں۔ یہ ترقی کی پہلی سیڑھی ہی ہے۔ مروجہ اصولوں کی پاسداری البتہ ضروری ہے۔ مثلاً کسی کے اچھے کام پر اسکا شکریہ ادا کریں اور اسکے کام کو اپنا کام کہہ کر دوسروں سے داد مت سمیٹیں۔
6. مناسب تشہیر:
میرے ایک استاد کے مطابق ایک ہاتھ سے کام کرنا، دوسرے سے ڈھول بجانا چاہیے۔ ابھی چند دن پہلے کراچی میں بلاگر حضرات مل بیٹھے۔ میرے بس میں ہوتا تو بطور ایک اردو بلاگر کے (چاہے جیسا بھی ہوں، آدھا پونا ہی سہی)، ضرور حاضری دیتا۔ میری عاجزانہ گذارش ہے کہ ایسے مواقع کبھی ضائع مت کریں۔ خوب تیار ہو کر جائیں، یعنی بلاگستان کی تازہ ترین صورتحال سے لیس ہو کر، ایک آدھ پریزینٹیشن بنا کر، جائیں۔ اسلام آباد میں بلاگر ملاقات اچھی تجویز ہے، اردو بلاگر تو خاص طور پر ملیں اور اس ضمن میں میٹرو بلاگز کا پلیٹ فارم استعمال کریں۔ مجھے یقین ہے زیادہ لوگ بلاگستان بارے جانیں گے اور آئیں گے۔ تصاویر بنائیں، ویڈیو بنائیں، رپوتاژ لکھیں اور اخبارات کو بھیج دیں۔ کوئی نہ کوئی تو چھاپے گا ہی۔ لیکن یہاں بھی سنجیدہ تیاری کریں مثلاً ملاقات کا ایجنڈا طے کریں۔ صرف گپ شپ ہو تو ایک دو مرتبہ کے بعد لوگ آنا چھوڑ دینگے۔
7. اردو بلاگر حضرات کی تنظیم سازی۔
مشکل کام ہے، بہتر ہے کہ ہوم ورک کر لیں۔ مثلاً آئین کی تیاری، اغراض و مقاصد کا تعین، عہدوں کا تعین اور پھر چناؤ، ملکی قوانین کے مطابق اسکی رجسٹریشن، بنک اکاؤنٹ، فنڈز کے حصول کیلئے فیس اور چندہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ کافی لمبا کام ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ فی الحال میرے پاس تو اگلے سال کے اوائل تک بالکل وقت نہں لیکن اگر اگر کوئی دوست یہ بھاری پتھر اٹھانا چاہیں تو میں بعد میں ساتھ دے سکونگا، انشااللہ۔
میں اس تحریر کی طوالت اور انداز کیلئے معذرت خواہ ہوں۔ چاہتا تھا کہ بیشتر پہلوؤں کا ذکر ہو جائے ۔ اور یقیناً میرا مقصد ڈکٹیشن دینا بھی نہیں، اگر کسی کو کوئی بات بُری لگی ہو تو کہہ دیجیئے۔ میں ذاتی طور پر معافی مانگ لونگا۔ آپکی تجاویز کا انتظار رہیگا۔ اگر آپ اس پوسٹ کو اپنے بلاگ یا دیگر جگہوں پر لگانا چاہیں تو میری جانب سے اجازت ہے، مروجہ رواج کے مطابق۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں ۔
جی وہ۔۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
کوئی نہ باندھے جی، سب کچھ نہ کچھ کر ہی رہے ہیں نا
🙂
آپکے خیالات زبردست ہیں مگر مسئلہ وہی ہے جو یاسر بھائی نے بیان کیا ہے کہ اس کام کا آغاز کہاں سے ہوگا؟
یہ نہائت تھکا دینے والے کام ہیں اور انتہائی صبر آزام بھی۔ مجھے اس بارے کافی تجربہ رہا ہے۔۔ آپکی تجاویز بہت اتریکشن رکھتی ہیں مگر انہیں اپنانا خاصکر پیسے والا چیپٹر بہت مشکل ہے اپنے پیسے کا ہر کوئی اپنی مرضی سے مصرف رکھتا ہے کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ مگر کسی پراجیکٹ کے لئیے فنڈ ریزنگ کرنی پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے ہی متانزعہ ہوجائے گا۔
شکریہ جناب، سب دوست کچھ نہ کچھ کر ہی رہے ہیں۔
فنڈ ریزنگ کےلئے واقعی تیاری کرنا پڑیگی۔ ابھی یہ مرحلہ کافی دور ہے۔
آپکی یہ تحریر خاصی اچھی ہے۔ لیکن ایک بات پوچھوں کہ کسی انگریزی کے بلاگ پہ چاہے وہ دنیا کا مقبول ترین یا ناکام ترین بلاگ ہو۔ تحریر کے آخیر میں یہ لکھا ہوا نہیں ملتا کہ میری کوئ بات کجسی کو بری لگی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔ ایسا تو میں کسی پاکستانی انگریزی بلاگر کے بلاگ پہ بھی نہیں دیکھتی۔ جبکہ اردو بلاگنگ میں تحریر کی خوبی کواس انداز سے خاصہ کم کر لیا جاتا ہے۔ اپنی تحریر کو صرف بلاگستان کے حوالے سے نہ دیکھیں کہ یہاں فلاں شخص کو یہ بات بری نہ لگ جائے۔ بلکہ انٹر نیشنل سطح پہ دیکھینا چاہئیے۔ آپکی تحریر کو دنیا کے کسی بھی حصے میں اردو سے واقفیت رکھنے والا کوئ بھی شخص پڑھ سکتا ہے۔
مختصرا، آپ کو اس تحریر پہ معافی کا خواستگار ہونے کی کوئ ضرورت نہیں۔
دوسرے یہ کہ تہیہ کر لیں کہ آپ کبھی بوڑھے ہونے والے نہیں۔ اس سے جذبے اور توانائیاں ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔ زندگی پہ اختیار نہیں۔ جب ہم مرنا چاہیں تو مر نہیں سکتے، جب جینا چاہیں تو جی نہیں سکتے۔ لیکن اتنا اختیار ہے کہ ہم اسے کیسے گذار سکتے ہیں۔ تو جوان رہ کر گذاریں۔
تیسرا یہ کہ آپکی دو باتیں میں نے اس تحریر سے اخذ کی ہیں۔ ایک ٹیکنیکل ترقی زبان کی حیثیت میں دوسرے لکھنے والے اپنے مواد کو دلچسپ اور معیاری رکھیں۔ اس وقت بلاگستان کی سطح پہ یہ شدید کمی ہے۔ لکھنے والے اپنے موضوعات میں دلچسپی رکھنے کے بجائے اپنے جذبات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہزاروں میل دور ایک اردو پڑھنے والا کب تک اس امر میں دلچ سپی لے کہ اردو بلاگنگ میں عبداللہ نے کتنی ہلچل مچائ ہوئ ہے۔ بیرون ملک اردو میڈیا ، کسی اردو بلاگر کے ملکی حالات یا مختلف معاشرتی حالات پہ اسکے نظریات جاننے میں دلچسپی رکھے گا یا اس میں کہ فلاں بلاگرز عنیقہ سے کتنا خار کھاتے ہیں۔
اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بی۹شتر اردو بلاگرز اپنی انفرادی حیثیت اور شناخت کو نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے آپ سے آگاہ نہیں ہیں اور دوسروں کی دی ہوئ لائن پہ کام کرنا پسند کرتے ہیں۔
تشریف آوری کا شکریہ عنیقہ۔
میں نے معافی اس بات کی نہیں مانگی کہ میں اپنی کہی گئی کسی بات سے شرمندہ ہوں۔ اس تحریر کا انداز کچھ مشورہ خانم سا ہے جسکی وجہ سے ایسا کہا تھا، کیونکہ یہاں لوگ اچھا کام کر رہے ہیں اور میں انکے مقابلے میں بہت کم حصہ ڈال رہا ہوں۔
آپ نے جن لوگوں کی جانب اشارہ کیا ہے، مجھے کچھ کچھ اندازہ ہے لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی متنازعے میں ملوث نہ ہوں۔ بلاگستان بہت چھوٹی سی جگہ ہے اور بے تحاشا موضوع ایسے ہیں جن پر لڑے جھگڑے بغیر کام کیا جا سکتا ہے۔ میں خود بہت پختہ یا یوں کہیے اکھڑ خیالات کا مالک ہوں لیکن کوشش کرتا ہوں کہ ان کو اپنے تک ہی محدود رکھوں، خصوصاً اسوقت جب انکے اظہار سے تخلیق کی جگہ تخریب کا اندیشہ زیادہ ہو۔
جوانی سے متعلق آپکے خیالات اچھے ہیں لیکن شائد پڑھائی انسان کو بوڑھا کر دیتی ہے۔ جوانی مستقبل سے متعلق بے خبر اور اسی لئے بے فکر ہوتی ہے۔
🙂
[…] باتیں کچھ اُردو کی۔۔۔ […]
سبھی کو جان تھی پیاری سبھی تھے لب بستہ
بس اک فراز تھا ظالم سے چپ رہا نا گیا۔
کافی ایمان افروز اور ولولہ انگیز باتیں ہیں۔ امید ہے تحریک پیدا ہوگی۔
چلیں اچھی بات ہے جناب اگر بے ایمانی کے اس دور میں میرے کام سے ایمان تازہ ہوتا ہے
🙂
ابو شامل کی تحریر نے نئی تحریک پیدا کی ہے۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے سب ہی لوگ کسی نہ کسی حد تک اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ ۔۔۔ امید ہے کہ اسلام آباد کی بلاگر ملاقات کسی اچھی جانب قدم بڑھانے میں مددگار ہو گی۔
فیصل بھائی، بہت بہت اہم باتیں کی ہیں آپ نے، میرے خیال میں بھی اب رضاکارانہ طور پر کام کرنے کا وقت گزر چکا ہے اور اب اگر ہم مجموعی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کو سمت دینا ہوگی۔ دل چاہا تو کر لیا والا مرحلہ اب گزر چکا، اب نئی منزلوں پر نظر ہونی چاہیے۔
گو کہ میں کرک نامہ کی ابتداء سے لےکر ان تمام چیزوں پر عمل کر رہا ہوں (دیکھیں بڑے لوگوں کی سوچ کتنی ملتی ہے 🙂 ) لیکن کچھ نئی چیزیں میں نے آپ کی اس تحریر سے سیکھی ہیں، اس پر آپ کا شکریہ۔
میں کوئی حکمت عملی مرتب کر کے جلد آپ کو اور بلاگستان کو آگاہ کرتا ہوں، پھر دیکھیں کیا ہو سکتا ہے۔
ماشاء اللہ آپ نے ایک اچھے سوچ کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی ہے۔ لیکن وہ جاوید گوندل صاحب والی بات کہ یہ کام کافی تھکا د ینے والا اور طویل منصوبہ بندی والا ہے۔
ابو سامل ساحب نے واقعی ایک اچھے کام کی طرف اشارہ کیا جس کا ثمرہ بلال ساحب کی کاوش کی صورت میں نکلا۔
تصحیح : ابو شامل صاحب
جب تک نظام تعلیم میں اردو کو فوقیت حاصل نہ ہو گی تب تک ہم اپنی آنے والی نسل کو اردو گرامر و قواعد سمجھا ہی نہیں سکتے
جو نسل آرہی ہے انہیں اردو سب سے کٹھن مضمون معلوم ہوتا ہے
١۔اسلام آباد تے کراچی وچ اردو یونی ورسٹی ھے پئی۔ہک سرائیکی میڈیم :سرائیکی یونیورسٹی برائے صحت انجینئرنگ تے سائنس آرٹس ٻݨاؤ جیندے کیمپس ہر وݙے شہر وچ ھوون۔.
۔٢.۔ تعلیمی پالسی ڈو ھزار نو دے مطابق علاقائی زباناں لازمی مضمون ھوسن تے ذریعہ تعلیم وی ھوسن۔ سرائیکی بارے عمل کرتے سرائیکی کوں سکولاں کالجاں وچ لازمی کیتا ونڄے تے ذریعہ تعلیم تے ذریعہ امتحان بݨاؤ۔.
٣۔ پاکستان وچ صرف چار زباناں سرائیکی سندھی پشتو تے اردو کوں قومی زبان دا درجہ ڈیوو.۔.
۔٤۔ نادرا سندھی اردو تے انگریزی وچ شناختی کارݙ جاری کریندے۔ سرائیکی وچ وی قومی شناختی کارڈ جاری کرے۔.
۔٥۔ ھر ھر قومی اخبار سرائیکی سندھی تے اردو وچ شائع کیتا ونڄے۔کاغذ تے اشتہارات دا کوٹہ وی برابر ݙتا ونڄے۔.
۔٦۔ پاکستان دے ہر سرکاری تے نجی ٹی وی چینل تے سرائیکی، سندھی، پشتو ، پنجابی،بلوچی تے اردو کوں ہر روز چار چار گھنٹے ݙتے ونڄن۔.
۔٧۔سب نیشنل تے ملٹی نیشنل کمپنیاں سرائیکی زبان کوں تسلیم کرن تے ہر قسم دی تحریر تے تشہیر سرائیکی وچ وی کرن۔.
۔٨۔۔سرائیکی ہر ملک وچ وسدن ایں سانگے سرائیکی ہک انٹر نیشنل زبان اے۔ سکولاں وچ عربی لازمی کائنی ، تاں ول انگریزی تے اردو دے لازمی ھووݨ دا کیا ڄواز اے؟.