Faisaliat- فیصلیات

ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن

Posted in urdu by Shah Faisal on جون 14, 2012

صاحبو مجھے نہیں معلوم کہ ملک ریاض اچھا شخص ہے یا بُرا، مجھے بہرحال پسند ہے۔ بادی النظری میں تو اس کا کرپٹ نہ ہونا محال لگتا ہے کہ پاکستان میں چھوٹا سا کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا، یہ تو چند برسوں میں ارب یا شاید کھرب پتی بن گیا۔ وہ بھی کسی ہائی ٹیک، سلیکون ویلی قسم کے کاروبار میں نہیں بلکہ پراپرٹی کے بزنس میں جو پاکستان کے شاید غیر شفاف ترین (غلیظ ترین کہنا شاید کسی کے ساتھ ناانصافی ہو) کاموں میں سے ایک ہے۔ لیکن پھر بھی اسکی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ آج بھی اپنے ماضی کا ذکر فخر سے کرتا ہے۔ زیادہ سخت الفاظ میں کہوں تو اس نے اپنا باپ نہیں بدلا۔ کسی بادشاہ کی کہانی پڑھی تھی کہ ایک صندوق میں اپنی غربت کے دور کا لباس رکھ چھوڑا تھا جسے روز نکال کر دیکھتا تھا۔ پاکستان کے طاقتور ترین طبقات میں سے دو یعنی فوج اور بیوروکریسی میں اکثریت مڈل کلاس کی ہے، لیکن افسوس کہ اس بادشاہ کے برعکس، یہ سب اپنا اصل لباس اتار کر جلا دیتے ہیں، کچھ کاکول یا لاہور جا کر، کچھ کسی اونچے خاندان میں شادی کے بعد، کچھ سیکرٹری بن کر، کچھ بریگیڈئر یا جنرل کا ستارہ لگا کر۔ غرض یہ کہ کچھ جلد، کچھ دیر سے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک ریاض ان لوگوں کی قیمت لگا لیتا ہے، خرید لیتا ہے، جیب میں رکھتا ہے۔ اپنی اصل کو یاد رکھنے والے کو، اپنے پرانے کپڑوں کو سنبھال کر رکھنے والے کو، اپنے باپ کو نہ بدلنے والے کو خریدنا آسان نہیں ہو گا۔

میں نے بحریہ ٹاؤن کا نام پہلی مرتبہ غالبا 2004 میں ایک ساتھی سے سنا جس کے ساتھ میں بنک الفلاح میں ملازمت کرتا تھا۔ وہ بڑی خوشی سے مجھے بتایا کرتا کہ اسکا بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ ہے۔ میں چونکہ اس قسم کے معاملات یعنی زمین، جائداد وغیرہ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا تھا اسلئے زیادہ جاننے کی کوشش نہ کرتا۔ پھر ایک دوست نے بتایا کہ اسکے دفتر کے ایک ساتھی کو، جسکی تعلیم غالبا٘ ٹاؤن پلاننگ میں تھی، ملک ریاض نے ملازمت دی ہے۔ یوں ملک ریاض کا نام سننا شروع ہوا اور یہ بات اچھی لگی کہ کوئی پراپرٹی ڈویلپر ایسا بھی ہے جو ٹاؤن پلاننگ کر کے "کالونیاں” بناتا ہے۔ یہ کالونی کی اصطلاح کم از کم میرے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں بہت عام تھی (شاید اب بھی ہو) جہاں عموما٘ شہر کی آبادی بڑھنے پر شہر کے آس پاس کی زمین کو رہائشی علاقے میں تبدیل کر لیا جاتا۔ یہ کام عموما٘ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ (یا پاکستانی لحاظ سے زیادہ موزوں اصطلاح "پراپرٹی ڈیلر”) کرتے تھے۔ یہ زرعی زمین عام طور پر سستے داموں لی جاتی، زیادہ سے زیادہ ڈویلپمنٹ یہ کی جاتی کہ چونے کی لکیروں سے پلاٹوں کی حد بندی کر لی جاتی، ایک آدھ پختہ سڑک بنا لی جاتی یا چند ایک بجلی کے کھمبے لگا لئے جاتے۔

پھر یہی زمین کئی گنا قیمت پر بیچ دی جاتی۔ باقی شہری ضروریات (یا سہولیات) یعنی پانی، بجلی، گیس، بجلی، گلیاں، نکاسی آب وغیرہ کی فراہمی کا دار و مدار کالونی کے نئے مکینوں کے زور بازو پر یا سیاسی روابط پر ہوتا۔ مجھے یقین تو نہیں لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ چند ایک شہروں بلکہ علاقوں کو چھوڑ کر سارے پاکستان میں رہائشی سکیموں کا چلن یہی ہو گا، خصوصا٘ وہ جو نجی شعبہ ڈویلپ کرتا ہے۔ اب اس بات میں تو شک نہیں کہ اسلام آباد اور دیگر شہروں کے چند علاقے جہاں رہائشی سہولیات کو کوئی تصور موجود ہے، عام آدمی کی پہنچ سے کتنے باہر ہیں اور ہر شخص فوج میں افسر بھی نہیں کہ دوران ملازمت یا ریٹائرمنٹ کے بعد کسی چھاؤنی یا چھاؤنی نما علاقے (یعنی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹیز وغیرہ) میں رہ سکے۔ ویسے تو ایک مہذب معاشے میں پائی جانے والی دیگر عمومی سہولیات بھی پاکستانی مڈل اور لوئر کلاس کی پہنچ سے باہر ہی ہیں، لیکن اس بحث کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں اور فی الوقت صرف ہاؤسنگ کی بات کرتے ہیں۔

ایسے ماحول میں جب ملک ریاض نے مڈل کلاس کو شہری سہولیات دینی شروع کیں تو یہ بات ہر کسی کے لئے باعث حیرت تھی۔ میں بحریہ ٹاؤن غالبا 2009 میں صرف ایک مرتبہ گیا ہوں جب ایک دوست وہاں پلاٹ لینا چاہ رہا تھا اور دفتری کاروائی وغیرہ کرنا تھی۔ یورپ، شمالی امریکہ، آسٹریلیا میں رہتے ہوئے جن مناظر کے آپ عادی ہو جاتے ہیں یعنی صفائی، روڈ سائنز، پارک، سبزہ، گھروں کے باہر کچرے کے ڈبے، وہ وہاں بھی نظر آئے۔ جو لوگ پاکستان میں رہتے ہیں اور جنکا اسلام آباد کے چنیدہ سیکٹرز یا ملک کے دیگر شہروں میں موجود کینٹونمنٹ یا چھاؤنی کے علاقوں میں جانا کم کم ہی ہوتا ہے، انکے لئے یقینا٘ بحریہ ٹاؤن حیران کن اور متاثر کن ہے۔ یہ غالبا٘ 2004 ہی کا ذکر ہے، اپنی بنک کی ملازمت کے دوران وہ منظر بھی دیکھا کہ پلاٹ لینا تو دور کی بات، ایسی ہی ایک سکیم (غالبا٘ بحریہ یا کوئی ڈی ایچ اے وغیرہ) کے صرف درخواست فارم ہی کی قلت تھی اور لوگ بلیک میں خرید رہے تھے کہ درخواست جمع کرا سکیں۔

ایسا کیوں ہے؟ سچی بات جو بہت تلخ بھی ہے، یہی ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ نہیں ہم سب ایک دوسرے کو انسان بھی سمجھتے ہیں اور شاید کچھ عزت بھی کرتے ہوں۔ لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا۔ جن کے ہمیں انسان سمجھنے سے فرق پڑتا ہے، وہ ایسا نہیں سوچتے، سمجھتے۔ ایسے میں ملک ریاض نے اگر عام آدمی کو انسان سمجھا اور ایک وعدہ پورا کیا تو یہ یقینا٘ قابل تعریف ہے۔ جہاں پورے پیسے دے کر بھی آپکو علاج، تعلیم، خوراک، پانی اور ایسی ہی بہت سی بنیادی سہولیات کے نام پر حکومت اور نجی شعبہ دونوں دھوکہ دیتے ہوں، وہاں ملک ریاض ایک علامت بن گئی ہے۔ مڈل کلاس لوگوں نے اپنی خون پسینے کی کمائی سے اس پر اعتبار کیا ہے۔ اس لحاظ سے وہ ان سیاستدانوں سے ہزار گنا بہتر ہے، جن پر مڈل کلاس اپنے مفت کا ووٹ تک ضائع نہیں کرتی، پیسہ خرچ کرنا تو دور کی بات ہے۔

اس لحاظ سے تو گالی کسی اور کے لئے بنتی ہے، گالی تو سیاستدانوں، فوجی جرنیلوں، کرپٹ افسر شاہی اور خود ہمارے لئے بنتی ہے۔ ملک ریاض تو ایک بہت گہری برائی کی صرف ظاہری علامت ہے۔ ملک ریاض تو ایک کاروباری ہے جو پیسے کو دو سے چار کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ اس نے اس ملک کے، اس معاشرے کے مروجہ اصولوں کے مطابق کاروبار کیا ہے۔ اس نے تو ہم سب کو ہماری اشرافیہ کا اصل چہرہ دکھایا ہے اور اس لحاظ سے ہمارا محسن ہے۔ بجائے اسکے کہ ہم اسکی کاروباری ذہانت کی داد دیتے، اس سے فائدہ اٹھاتے، ہم جل رہے ہیں، بھن رہے ہیں اور اسے گالیاں دے رہے ہیں۔

میرا بس چلتا تو ملک ریاض اور اسکے کاروبار پر یونیورسٹیوں میں کورس کرواتا، ریسرچ کرواتا۔ تا کہ ہماری نوجوان نسل کو علم ہوتا کہ جس ملک میں رہتے ہیں، اس میں پیسہ کیسے بنایا جاتا ہے، اسکے ادارے کیا کیا کام کرتے ہیں اور اس معاشرے میں کس ڈگری اور کس ہنر کی کتنی ویلیو ہے۔ صرف منفی نہیں، مثبت پہلو بھی ہیں۔ جو کام وہ کر سکتا ہے، وہ حکومت کیوں نہیں کر سکتی؟ ایک عام آدمی کو اتنی قیمت میں اس معیار کا گھر کیوں نہیں دے سکتی؟ وہ شہری سہولیات کیوں نہیں دے سکتی جو بحریہ ٹاؤن میں ہیں؟

کیا میں بحریہ میں گھر خریدوں گا؟ میں نہیں جانتا۔ مجھے نہیں معلوم بحریہ کا مستقبل کیا ہے۔ ملک ریاض جو سہولیات دے رہا ہے، وہ اسکے بعد بھی جاری رہیں گی یا نہیں؟ سڑکوں کی مرمت، پارکوں کی دیکھ بھال، کچرے کو ٹھکانے لگانا یا بلا تعطل بجلی کی فراہمی، یہ سب کب تک جاری رہے گا؟ دس سال، تینتیس سال یا ننانوے سال؟ اور ویسے بھی میری دلچسپی بلکہ شاید آپ کی بھی، تو اس بات میں ہے کہ یہ سب سہولیات ایک عام علاقے میں ایک عام شہری کو کب ملیں گی؟ پاکستان میں ایک عام انسان کو انسان کب سمجھا جائے گا؟ پاکستان تو کب کا آزاد ہو گیا، پاکستانی کب آزاد ہو گا؟

11 Responses

Subscribe to comments with RSS.

  1. خورشید آزاد said, on جون 14, 2012 at 5:59 صبح

    میں سمجھتا ہوں سیاست دانوں کی نااہلی کا ذمہ دار میرے اور آپ سمیت ہر پاکستانی ہے۔ ایسے میں یہ انتہائی افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ حکومت اور سیاست دانوں کی نااہلی کی وجہ سے آپ ملک ریاض جیسے بھیڑیئے کی تعریف کررہے ہیں۔ کیا آپ کو اس بات کی پرواہ ہے کہ ملک ریاض نے پیسے کی طاقت سے کتنتے عام لوگوں کی ذاتی اور حکومت پاکستان(دوسرے الفاظ میں پاکستانیوں) کی زمین ہڑپ لی ہوگی۔ جناب یہ ذہنیت کہ دوسرے کے گھر میں آگ لگی ہے مجھے کیا نے آج پاکستان کی یہ حالت کردی ہے۔ پاکستانیوں کی انفرادی فائدہ کے پیچھے اجتعماعی فائدے کو قربان کرنے کی لت نے ملک ریاض جیسے لوگوں کو ارب پتی بنا دیا۔

  2. Duffer Dee said, on جون 14, 2012 at 6:49 صبح

    بحریہ ٹاؤن سے متعلق آپ کی ساری باتیں بالکل ٹھیک ہیں
    میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو ملک صاب کی بدمعاشی کی وجہ سے اپنی پشتینی زرخیز زرعی زمینوں سے جبرا بے دخل کر دئے گئے یا پھر کوڑیوں کا مول لگایا گیا۔ ہماری تو صرف ستائس کنال زمین ذد میں آئی اور آج تک منشیوں سے اسکے "خسرے نمبر” ہی کنفرم نی ہو رہے۔ قتل شتل والی باتوں میں بھی کسی نی کسی حد تک صداقت ہو گی ہی کہ سننے میں تو یہ بھی آیا ھے۔ بہر حال اندھے قتلوں کا آج تک سراغ نہیں ملا
    حکومت بھی یہی سب کچھ کر رہی ھے لیکن بدلے میں ملک صاب بہر حال کچھ ڈیلیور کر گئے ہیں
    یعنی ملک صاب کے مندرجہ بالا فارمولے کے تحت عام شہریوں کو ایسی سہولیات ملتی رہیں تو آپ اس پہ راضی ہیں؟
    اگر ہاں تو فیر یہ آزاد پاکستان اور آزاد پاکستانی والی بات کچھ سمجھ نی آتی

  3. وقار علی روغانی said, on جون 14, 2012 at 7:35 صبح

    ڈفر جی فیصل بھائی بھی ہم جیسے ہیں نا ۔ اگر ملک صاحب میرے شہر مردان میں یا فیصل بھائی کے شہر ڈیرہ میں کوئی "کالونی” بنانے کے لئے ہماری چند کنال یا مرلے زمین زبردستی ہڑپ کرجاتے تو پھر ہم کبھی بھی ان کو اچھا آدمی نہیں کہتے ، اس وقت تو وہ ہمیں باقی گندے لوگوں سے پرے ایک اچھی لوکیشن کی حامل اور جدید سہولیات سے آراستہ پرسکون رہاشی سکیم دے رہے ہیں تو کیوں نہ ہم ان کو اچھا آدمی تصور کریں !!!! بس یہی ہمارا اصل مسئلہ ہے!!!

  4. Shoukat Halani said, on جون 14, 2012 at 4:06 شام

    What good writing , keep it up i like your style

  5. karakoramzone said, on جون 15, 2012 at 1:19 صبح

    بلکل آب درست فرما رہے ہیں اگر لوگوں کی زمینیں فیصل نے لی
    ہے تو عدالت  سے روجو کریں۔ افتیخار چودری کے بیٹے کو 
    عدالت میں فیصلہ ہونے سے پہلے ہی لوگ بیگناہ سابت کرنے کی کوشش کر ہے ہیں۔  پاکستان میں اچھے لوگ بحی ہیں۔ 

  6. Shah Faisal said, on جون 16, 2012 at 2:27 صبح

    سب دوستوں کی تشریف آواری اور تبصروں کا شکریہ۔
    خورشید آزاد صاحب، میں نے ملک ریاض کی جن خوبیوں کی تعریف کی ہے، وہ اس میں موجود ہیں۔ وہ نیم خواندہ ہونے کے باوجود ایک اچھا کاروباری ہے اور اس نے اسی ملک میں رہ کر پیسہ بنایا ہے۔ جن اصولوں پر چلتے ہوئے اس نے یہ سب کچھ حاصل کیا ہے، وہ اسکے کاروبار سے بہت پہلے موجود تھے۔ مثلا پٹواری کلچر تو شاید پاکستان بننے سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ اسی طرح جس ادارے کے ساتھ لین دین میں اسکی اٹھان شروع ہوئی (یعنی کہ فوج)، اسکی غیر شفافیت پر ابھی تک کوئی سوال نہیں اٹھا رہا جو کہ ایک انتہائی افسوس ناک بات ہے۔
    ایک ملک ریاض کو پھانسی لٹکا دینے سے کیا یہ سب تبدیل ہو جائے گا؟ کیا فوج اپنے پراپرٹی کے اور دیگر کاروبار بند کر دے گی یا بیوروکریسی انسان بن جائے گی؟ میرے خیال میں، جیسے کہ اوپر بھی عرض کیا، ہمیں اہمارے نظام کی سڑاند کا ایک نظارہ دکھایا ہے۔ باقی ارب اور کھرب پتی چونکہ سامنے نہیں آتے اسلئے ہمارے خیال میں وہ سب حلال خور فرشتے اور دودھ کے دھلے ہیں۔
    روغانی صاحب سچ بتاؤں تو مجھے آپکے تبصرے کی سمجھ نہیں آئی 🙂 طنز تو آپ نے یقینا کیا ہے لیکن کہنا کیا چاہتے تھے، یہ علم نہیں ہو سکا۔

  7. ebahriatown said, on اگست 1, 2014 at 11:12 شام

    ””””” پاکستان میں تین ہزار ایسے افراد ہیں جنکی ماہانہ آمدنی ایک کروڑ سے زیادہ ہے تین سو افراد ارب پتی ہیں جن میں سے ایک ملک ریاض بھی ہیں مگر اس ملک اور عوام پر جب بھی کوئ مشکل گھڑی آتی ہے ملک ریاض دل کھول کر اپنے ملک اور قوم کی مدد میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ جبکہ باقی تمام صاحب ثروت لوگ ایسے موقعوں پر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ مگر ہم عجیب قوم ہیں جو ہمارے لیے مخلص ہو ہم اسے ہی سب سے زیادہ ستاتے ہیں۔

  8. Nadeem Rehman Malik said, on اکتوبر 27, 2014 at 3:21 صبح

    شاہ فیصل صاحب۔ آپ کا ارٹیکل ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن پرھا۔۔۔بہت عمدہ لکھا ہے آپ نے۔۔۔۔میں ملک ریاض حسین پر ایک کتاب ” بشر دوست ” کے نام سے لکھ رہا ہوں۔۔اگر آپ کی اجازت ہو تو میں آپ کا یہ مصمون اپنی کتاب میں شامل کر لوں۔۔۔۔میرا وعدہ ہے کہ کتاب چھپنے پر آپ کہ ایک چہپے بھجوں گا۔۔۔۔امید ہے آپ فراخ دلی سے اجازت دیں گتے۔۔۔شکریہ ندہم رحمن ملک موبائل # 03017875630 عی میل: nadeemlovetoall@gmail.com./facebook.com/nadeemlovetoall

  9. اسماعیل اعجاز خیالؔ said, on نومبر 18, 2014 at 4:57 شام

    سب سے پہلے تو ایک اچھی تحریر اور اچھے موضوع پر توجہ دلانے کا شکریہ اور داد قبول فرمائیے کہ ہمارے ہاں تو منفی بات کرنے کا ہی رواج ہے جبکہ آپ نے منفی بات کو مثبت پیائے میں ڈھالا کہ ملک ریاض سے سیکھا جائے ترقی کے ساتھ ساتھ خوشحالی کا حصول
    دیکھئے جناب شاہ فیصل صاحب توجہ چاہوں گا آ؂ کی محبت کے ساتھ ساتھ ، ملک ریاض تو دو سے چار بنا بھی رہا ہے اور نام بھی کما رہا ہے ، المیہ تو اس بات کا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح صاحب نے ایک وسیع عریض کالونی ملکَ پاکستان کی صورت میں بنا کر دی جس کا تھیم علامہ اقبال کا تھا اور جس کی تعمیر میرے اور آپ کے مـاں باوا نے اپنا سب کچھ لٹا کر گنوا کر کی آج 67 ، 68 سال کے بعد اس پاکستان کالونی میں بسنے والوں نے پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ کیسی قوم پیدا کی کتنے محبّین پیدا کئے ۔۔۔۔ سوائے چند درد مند اساتذہ کہ جو آج بھی موٹا چشمہ لگائے سادہ لباس شیروانی جناح کیپ ہاتھ میں سہارا لینے والی چھڑی کے یا پھر ہر گھڑی تیـار کامران ہیں ہم پاکستانی فوج کے جوان ہیں ہم کے ۔۔۔۔ ہر طرف میرا تیرا چل رہا ہے

    تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے
    نہ تیرا دل قربان نہ میری جان ہی قربان ہے
    اس کی بنیادوں میں نہ تیرا نہ ہی میرا لہو
    اس سے تیری آبرو نہ اس سے مری آبرو
    اِس سے تیرا نام نہ اِس سے مری پہچان ہے
    نہ تیرا دل قربان نہ میری جان ہی قربان ہے

    جب تک آپ مہذب لوگ ایماندار لوگ اس معاشرے کو نہیں دیں گے آپ محل تعمیر کروا دیجیے کچھ نہیں بدلے گا

    ؔ آپ کی توجہ کا طلبگار

    اسماعیل اعجاز خیالؔ

  10. جاوید said, on دسمبر 26, 2015 at 4:40 صبح

    ملک صاحب نے بہت سارے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی دیے بلکہ ان ایک ملازم جو کہ جگر کی بیماری میں مبتلا تھا اس کا چائنہ سے علاج بھی کروایا بقول اسکے ایک کروڑ کا خرچہ ھوا اور اسکے بعد عمرہ کروایا اور میں نے خانہ کعبہ میں ملک صاحب کیلئے بہت دعائیں کی اور ملک صاحب نے اپنے اس ملازم کو شاندار گھر بھی بنا کر دیا ھے


جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

%d bloggers like this: