من کہ ایک مڈل کلاسیا
صاحب گئے برسوں میں ایک فلسفی بنام ڈیکارٹ، کے گزرے ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں کہ میری سوچ ہی میرے وجود کا ثبوت ہے۔ اگر میں اسی بات کو ایک مختلف انداز میں دیکھوں تو یوں کہوں کہ میری سوچ ہی میرا وجود ہے، میری شناخت ہے۔ یعنی میں وہی ہوں جو میں سوچتا ہوں۔ صاحب یہ سوچ بڑی طاقتور چیز ہے۔ یہ ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کر دیتی ہے لیکن عموماً ممکنات کو ناممکنات میں۔ افسوس کہ ہمارا تعلیمی نظام عموماً موخر الذکر بات پر ہی سارا زور لگاتا ہے۔ میری ناقص رائے میں اس میں کسی قدر قصور سائنسی طریقے کا بھی ہے جو پاپر صاحب کے خیال کہ سائنسی طریقے میں ہر مفروضہ جھٹلائے جانے کے قابل ہونا چاہیے، کے گرد گھومتا ہے۔ اب مجھ جیسے نیم خواندہ حضرات اس کا مطلب کچھ یوں لیتے ہیں کہ چونکہ کسی چیز کے ہونے کا کوئی ثبوت ہم پیش نہیں کر سکتے، وہ چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ حالانکہ یہ سائنسی طریقہ کار نہیں۔ اس کے برعکس بہت سے اعلیٰ پائے کے سائنسدان کچھ یوں کہتے ہیں کہ ہم مروجہ سائنسی طریقہ کار اور آلات کی حدود میں رہتے ہوئے، مثال کے طور پر، خدا کے وجود کا انکار یا اقرار نہیں کر سکتے۔ یعنی آج کی سائنس میں اگر کوئی بات مسلمہ (یعنی تسلیم شدہ) حقیقت ہے تو ضروری نہیں کہ وہ آئندہ بھی ایسی ہی رہے۔ گلیلیو، نیوٹن، آئن سٹائن سمیت بیشمار سائنسدانوں کی تھیوریز غلط یا محدود ثابت ہو چکی ہیں یا ہونے کو ہیں۔ دوسری جانب بہت سی سائنسی ایجادات یا دریافتیں بھی اتفاقات یا حادثات کی مرہون منت ہیں۔بات بہرحال دوسری طرف نکل گئی سو ان علمی باتوں کو پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔
اسوقت تو مجھے ایک عامیانہ سا اعتراف کر لینے دیجئے کہ میں ایک مڈل کلاسیا ہوں۔ نہیں یہ نہیں کہ یہ کوئی خامی ہے، یا خوبی۔ بس ایک صفت ہے بلکہ ہمہ صفت۔ یا یہ کہوں کہ مڈل کلاسیا ہونا ایک ذہنی کیفیت ہے، جیسا کہ اوپر ڈیکارٹ کے ذکر میں عرض کیا۔ کچھ لوگ پیدائشی مڈل کلاسیے نہیں ہوتے اور چند خوش یا بدنصیب (منحصر اس پر کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں) اس کیفیت سے باہر بھی نکل جاتے ہیں۔ میں شاید نسل در نسل مڈل کلاسیا ہوں۔ بہرحال آخر ایسا کیا ہے جو مجھے ایک مڈل کلاسیا بناتا ہے؟
سوچوں تو تین معاملات یعنی ریاست، سیاست اور معیشت میں میری سوچ، میرا کردار مجھے مڈل کلاسیا بناتا ہے۔عموماً یہ کردار ہوتا ہے ریاست کے تھانیدار کا، سیاست کے ٹھیکدار کا اور معیشت کے جمعدار کا۔ مثلاً پہلے ریاست کو ہی لے لیجئے۔ ہر چھوٹی یا بڑی، اچھی یا بُری، باضابطہ یا بے ضابطہ ریاست (یعنی سٹیٹ) ایک حاکم رکھتی ہے اور ہر حاکم ایک حکومت (گورنمنٹ) کے بل بوتے پر ہی ایک ریاست یا سٹیٹ چلا پاتا ہے۔ حاکم سے حکومت چھن جائے تو نہ صرف وہ حاکم نہیں رہتا بلکہ ریاست کا وجود بھی ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے- ایسے میں یہ عین ممکن ہے کہ حاکم اپنی ریاست سمیت، دوسری ریاست کا محکوم ہو جائے (جس سے شائد سب سے زیادہ نقصان حاکم اور پھر مجھ مڈل کلاسیے کا ہوتا ہے)- اس تمہید سے مراد یہ کہ حکومت اور نظامِ حکومت یا گورننس کا کسی بھی ریاست میں بہت اہم کردار ہوتا ہے اور یہ کردار کوئی اور نہیں میں یعنی مڈل کلاس ہی ادا کرتا ہوں، یعنی تھوڑا حاکم، تھوڑا محکوم، یہاں میں حکومت کا تھانیدار ہوں۔ اب یہ شاید حکومت کی خواہش اور محکومی کا خوف ہے جو مجھ سے ہر حاکم کی محکومی کراتا ہے، نوکری کراتا ہے، چاکری کراتا ہے۔ میرے نزدیک تعلیم کے حصول کا مقصد ایک اچھی نوکری ہے، ایک ڈگری کا ٹھپہ چاہئے، علم چاہے نہ ملے۔ کچھ لڑکیوں کے والدین انھیں صرف اس وجہ سے میڈیکل ڈاکٹر بناتے ہیں کہ اچھا رشتہ مل جائے گا۔ عموماً ایسی لڑکیاں شادی کے بعد گھر گر ہستی سنبھالتی ہیں اور پریکٹس نہیں کرتیں۔ اگر کہا جائے کہ یہ تو ان کے بلکہ سارے ٹیکس گزار طبقے کے ساتھ زیادتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ جی ہم کھاتے پیتے لوگ ہیں، ہمارے ہاں لڑکی کے نوکری کرنے کا رواج نہیں۔ یعنی ڈاکٹر بننے کا رواج تو ہے، ڈاکٹری کرنے کا نہیں۔ میں بھی ایک ایسی لڑکی جیسا ہی ہوں۔ تعلیم کا مقصد ڈگری کا استعمال ہے، علم کا استعمال نہیں۔ تعلیم کے ساتھ ہی جڑا شعبہ تربیت کا بھی ہے، یہ دراصل تربیت ہی ہے جو عملی زندگی میں کام آتی ہے۔ تربیت سے میری مراد کوئی فنی یا تکنیکی تربیت نہیں، نوکر (یا نوکر پیشہ) بننے کی تربیت ہے جو سکول کالج میں خوب ملتی ہے۔ سوال (یا کم از کم غلط وقت پر غلط سوال) نہ کرنے کی تربیت، معلومات کو بے چوں چراں حقائق مان لینے کی تربیت، حالات کو Given یا "بس ایسا ہی ہے” تسلیم کرنے کی تربیت، وغیرہ وغیرہ۔
ریاست کے بعد آتے ہیں سیاست کی جانب، جو دراصل ریاست کا ہی ایک جزو ہے۔ لیکن سیاست سے میری مراد حکومتی معاملات نہیں، روزمرہ کی سیاست ہے۔ معاشرے کی سیاست، سماج کی سیاست، مذہب کی سیاست۔ یہاں میں سماج کا ٹھیکیدار ہوں۔ میری لُغت اقدار، اخلاقیات، روایات اور ایسے ہزاروں دیگر الفاظ سے بھری پڑی ہے۔ امیر دماغ سے سوچتا ہے، غریب پیٹ سے۔ اب میں چونکہ امیر ہوں نہ غریب، اس لئے دل سے سوچتا ہوں۔ مذہب، قوم، وطن، معاشرت سب کا درد رکھتا ہوں۔ ملک سے باہر ہوں تو ملک کے لوگوں کا غم ستائے جاتا ہے، ملک کے اندر ہوں تو بڑھتی ہوئی فحاشی اور بے حیائی پر دل خون کے آنسو روتا ہے یعنی انہی لوگوں کی ہجو کرتا ہوں۔ حیرت کی بات یہ کہ ملک کے باہر ہوں تو یہ تفکر خاصا بدل جاتا ہے۔ یعنی ملک سے باہر آس پاس فحاشی نظر نہیں آتی اور ملک کے اندر رہوں تو ملک کے لوگوں کا نہیں، اپنا غم ستاتا ہے۔ قومیت کا سبق مجھے سکول، کالج، یونیورسٹی بلکہ میڈیا تک میں گھول گھول کر پڑھایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ جرنیلوں کے اپنے بچے باہر پڑھتے اور رہتے ہیں اور قوم کے بچے قومی غیرت کے نام پر جنگ کا ایندھن بنتے ہیں۔ میڈیا کے برزجمہر دبئی میں بیٹھ کر اپنا قومی فریضہ پرائم ٹائم سیاسی ٹاک شوز اور بریکنگ نیوز کی صورت پُورا کرتے ہیں۔ سیاستدان اور بیوروکریٹ گرمیوں کی چھٹیاں اپنے بچوں کے پاس یورپ، امریکہ، آسٹریلیا میں گزارتے ہیں اور "طبیعت زیادہ خراب ہونے کی صورت میں” مستقل وہیں منتقل ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف آپ کسی غریب سے "پاکستانیت” کی تعریف پوچھیں تو وہ آپ کا منہ دیکھنے لگے گا۔
بات ہے سیاست کی تو میں سیاسی لیڈر کا جھنڈا بردار بھی ہوں۔ غریب سے آپ کسی کے حق میں نعرہ لگوا لیجئے، کسی کو ووٹ دلوا دیجئے، وہ سیاسی ضمیر کا تردد پال ہی نہیں سکتا۔ صرف پیٹ بھرنا چاہئے، چاہے ایک وقت کے لئے ہی سہی۔ دوسری جانب سیٹھ یعنی سرمایہ دار بھی "اصولی سیاست” کا تکلف نہیں کرتا، ہر پارٹی کو چندہ دیتا ہے، ہر لیڈر سے یاری رکھتا ہے، بس اسکے کاروبار پر زد نہ پڑے، اسکے سرمائے میں اضافے کا انتظام ہوتے رہنا چاہئے۔ یہ میں مڈل کلاسیا ہی ہوں جو فیس بُک، ٹوئٹر اور اسی قبیل کے دیگر سوشل میڈیا فورمز میں اپنے لیڈر کی جنگ لڑتا ہوں، بے تیغ، بلا معاوضہ۔ جب میرے اپنے ہی بنائے ہوئے بُت پاش پاش ہوتے ہیں تو سب سے بدزن ہو جاتا ہوں، سیاست کو گندا کام کہہ کر کنارہ کش ہو جاتا ہوں۔ سیاست دان مزید شیر ہو جاتے ہیں، غریب کا ووٹ مزید ارزاں ہو جاتا ہے۔
ریاست اور سیاست کے بعد بات آتی ہے معیشت کی۔ یہاں میں سیٹھ یعنی سرمایہ دار کاجمعدار ہوں، یعنی سیٹھ کا مال بیچتا ہوں اور یوں اسکے لئے مزید مال جمع کرتا ہوں۔ اگر قسمت اچھی ہو تو سیٹھ مجھے منشی رکھ لیتا ہے۔ میں ملکی یا غیر ملکی یونیورسٹیوں سے بزنس کی مہنگی ڈگریاں خرید لاتا ہوں اور ایف اے، بی اے پاس سیٹھ کی چاکری کرتا ہوں۔ تنخواہ چند ہزار یا چند لاکھ لیتا ہوں لیکن حساب کتاب کروڑوں اور اربوں کا رکھتا ہوں۔ سال کے آخر میں بونس، کسی تیسرے درجے کے سیاحتی مقام مثلاً دبئی یا تھائی لینڈ کا ٹکٹ اور کمپنی کی مہیا کردہ گاڑی میری مڈل کلاسیت کو چھپا دیتی ہے۔ چاہے کچھ وقت کے لئے ہی سہی، اپنے کالے رنگ پر چونے کا لیپ کر کے بگلوں میں جا ملتا ہوں۔ لیکن ہمیشہ قسمت یاوری نہیں کرتی۔ ایسے میں میں صرف صارف یا کنزیومر کا کردار ہی ادا کرتا ہوں۔ سیٹھ اپنے پیسے کے بل بوتے پر مجھے خوبصورت دنیا کے خواب دکھاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈیزائنر برانڈ کے کپڑے اور میک اپ مجھے جارج کلونی (یا ہیوگ جیکمین, وغیرہ وغیرہ) بنا دکھائیں گے اور میری بیگم کیتھرین زیٹا جونز (یا ڈریو بیری مور، وغیرہ وغیرہ) لگنے لگے گی۔
صاحب مجھے مڈل کلاسیا ہونے میں شرمندگی نہیں۔ یہ دنیا کا قانون نہیں تو کم از کم نظام ضرور ہے ہے۔ میں البتہ خوش ہوں کہ کم از کم مجھے اپنی بہت سی متضاد سوچوں اور باہم متصادم افعال کی وجہ تو معلوم ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
مطمئن ہوں کہ میرے مرنے کے بعد میرے خیالات بیان کرنے والے موجود ہیں
عزت افزائی کا شکریہ انکل، اللہ میاں آپکو عمر دراز عطا کریں اور آپ یونہی اپنی تحریروں سے روشنی پھیلاتے رہیں۔ آمین۔
ویسے ہمارے خیالات کسی کسی معاملے میں بہت مختلف بھی ہیں۔
🙂
بہت خوبصورت انداز میں حقیقت شناسی کی! اختتامی فقرہ لاجواب۔ ان لفظون کے پیچھے چھپی ہوئی سوچ اور تمنا کو سلام!
عزت افزائی اور تشریف آوری کا شکریہ جناب۔
کیا کہنے جناب۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ "میں کیا ہوں؟” 🙂
شکریہ جناب، ویسے آپ وہی ہیں جو آپ سوچ رہے ہیں۔
😉