Faisaliat- فیصلیات

کنجوس کہیں کے۔۔۔

Posted in Computing, urdu by Shah Faisal on مئی 28, 2010

نہیں نہیں میں اُنھیں نہیں کہہ رہا، وہ مجھے کہہ رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا؟ یہ دیکھیے:

ہائے میری قسمت۔۔۔ خیر آپ تو مفت سی ڈی کا مزا لے ہی سکتے ہیں۔ جی جی جائیے جائیے۔ ویسے بھی میری جامعہ کے انٹرنیٹ پر سی ڈی تو کیا ڈی وی ڈی کا ڈاؤنلوڈ بھی چند منٹوں کی بات ہے۔
😉

لیکن اگر آپ بھی بہتر رفتار کے انٹرنیٹ کے مالک ہیں اور میری طرح بے صبرے بھی، تو اپنی سی ڈی یا ڈی وی ڈی ڈاؤنلوڈ کر لیجیے، ابنٹو کی ویب سائٹ سے۔ اب اگر اُنکا بھلا چاہتے ہیں تو انکی سائٹ کی بجائے ٹورنٹ سے ڈاؤنلوڈ کر لیجیے۔ اب یہ نہ پوچھیے گا کہ یہ ٹورنٹ کیا بلا ہے۔ دعاؤں میں یاد رکھیے۔ جزاک اللہ۔

کچھ نیا آزمائیے۔۔۔ مثلاً اوپن آفس

Posted in Computing, urdu by Shah Faisal on فروری 12, 2010

صاحبو یقیناً آپ نے اوپن آفس کا نام سنا ہو گا۔ اگر نہیں سنا تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔

اوپن آفس مائکروسوفٹ آفس کی طرز کا آفس سوئٹ ہے۔ یہ آفس سوئٹ بھلا کیا ہوا؟ کچھ خاص نہیں بلکہ ان چند اطلاقیوں یا اپلیکیشنز کا مجموعہ جو عموماً ایک دفتر میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ مائکروسوفٹ ونڈوز کے استعمال کنندہ ہیں تو غالب امکان ہے کہ کوئی خط، درخواست، رپورٹ، وغیرہ تحریر کرنے کیلئے آپ م س ورڈ استعمال کرتے ہیں، حساب کتاب کیلئے ایکسل، پریزینٹیشن بنانے کیلئے پاور پوائنٹ، ای میلز کیلئے م س آؤٹ لُک، آؤٹ لُک ایکسپریس یا ونڈوز لائیو میل وغیرہ۔ اگر یہ کمپیوٹر آپ کا ذاتی ہے اور بیشتر مرتبہ تو سرکاری بھی، تو اس بات کا بھی امکان غالب ہے کہ آپ چوری شدہ ونڈوز استعمال کرتے ہیں۔ اس چوری سے بچنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ لینکس استعمال کریں جس بارے میں میں کافی پہلے لکھ چکا ہوں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ ونڈوز خرید بھی لیں تو وہ بہت سی اپلیکیشنز کے بغیر خاصی بیکار ہے، جن میں سے ایک آفس سوئٹ بھی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ آفس سوئٹ آپکو الگ سے خریدنا پڑے گا اوراسکی قیمت بلاشبہ ہزاروں میں ہے۔ اسکے علاوہ اس بات پر بھی غور کیجئے کہ آفس سوئٹ 2007 سے پہلے کا کوئی بھی م س آفس  آپکے کام کو فائل کی جس قسم میں محفوظ کرتا ہے وہ بھی مائکروسوفٹ کی ہی ملکیت ہے۔ اس کی آسان الفاظ میں مثال کچھ یوں ہو گی کہ ایک کمپنی ایک گاڑی بناتی ہے لیکن اس میں ایک خاص پٹرول ڈلتا ہے جو یہ کمپنی خود بناتی اور اپنی مرضی کی قیمت پر بیچتی ہے۔ اس غلامی سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے بھلا؟ جی ہاں۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ لینکس استعمال کیجئے۔ آپ کی کمپیوٹنگ ضروریات کا 80 فیصد یا اس سے بھی زیادہ اسی سے پورا ہو جائیگا۔ دوسری بات یہ کہ اگر آپ اس چھلانگ کو مارنے پر فی الحال تیار نہیں تو حتی الامکان کوشش کیجیے کہ اپنے ونڈوز کمپیوٹر میں ممکن ہو تو آزاد مصدر یعنی اوپن سورس ورنہ پھر مفت سوفٹویرز کا استعمال کیجئے۔ آزاد مصدر بھی مفت ہی ہوتا ہے لیکن اسکا سورس کوڈ کوئی بھی شخص دیکھ سکتا ہے اور ایک مناسب حد تک تبدیل بھی کر سکتا ہے جبکہ مفت سوفٹوئر ضروری نہیں کہ آزاد مصدر ہو لیکن بہرحال مفت ہوتا ہے اور آپ بغیر چوری کئے اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ بہت سی تجارتی کمپنیاں اپنے سوفٹوئر کی مفت لیکن محدود کارآمدگی (کیا یہ صحیح لفظ ہے؟) کی حامل اقسام  بناتی ہیں تا کہ اپنے پراڈکٹ کی تشہیر بھی کر سکیں اور لوگوں کو قیمتاً خریدنے پر آمادہ بھی۔ افسوسناک بات یہ کہ بہت سے مفت سوفٹوئر وائرس وغیرہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اسلئے ہر مفت سوفٹوئر کی تنصیب سے گریز ہی کرنا چاہئے اور صرف مستند ذرائع یا ویبسائٹس سے انکاحصول کرنا چاہئے۔ آزاد مصدر سوفٹویر کی ایک فہرست یہاں دیکھِیے اور میرے خیال میں یہ ویبسائٹ بھی محفوظ ہے اور ونڈوز میں کام کرنے والے سوفٹویر کے حصول کیلئے میں اکثر اسے ہی استعمال کرتا ہوں۔

بات ہو رہی تھی آفس سوئٹ کی۔  چند برس پہلے کی بات ہے کہ مائکروسوفٹ کی بدمعاشیوں کو دیکھتے ہوئے سن (اب سن اوریکل) والوں نے اپنے سٹار آفس (جو م س آفس کی طرز کا ایک آفس سوئٹ ہے اور قیمتاً دستیاب ہے) کی ایک مفت قسم متعارف کرائی جسے اوپن آفس کہا گیا۔ یہ کوئی بھی شخص انٹرنیٹ سے مفت حاصل کر سکتا ہے اور کسی بھی طرح م س آفس سے کم نہیں۔ مزے کی بات یہ کہ یہ آپکے کام کو ایک ایسی فائل قسم میں محفوظ کرتا ہے جو کہ خود آزاد مصدر ہے اور کوئی شخص اسکی ملکیت کا دعویدار نہیں جبکہ ایک اچھی بات یہ ہے کہ اوپن ڈاکومنٹ فارمیٹ کو کسی بھی م س آفس والے کمپیوٹر میں ایک اطلاقیے کی مدد سے پڑھا یا لکھا جا سکتا ہے جبکہ خود اوپن آفس میں تو مائکروسوفٹ کے فائل فارمیٹس کی سپورٹ موجود ہے ہی۔

ہر وہ کام جو آپ م س آفس میں کرتے ہیں، اوپن آفس میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً م س آفس میں تحریری کام کیلئے آپ ورڈ استعمال کرتے ہیں جو فائل کو doc فارمیٹ میں محفوظ کریگا جبکہ اوپن آفس میں یہی کام آپ رائٹر کی مدد سے کریں گے جو کہ فائل کو odt فارمیٹ میں محفوظ کریگا۔ اسی طرح حساب کتاب کے کام کیلئے م س آفس میں ایکسل ہے جسکا اوپن آفس میں متبادل کیلک کی شکل میں موجود ہے۔

جہاں تک بات ایک پرسنل انفارمیشن مینیجر کی ہے، یہ کام م س آفس والے آؤٹ لُک سے لیتے ہیں۔ یہی کام لینکس میں آپ ایوولوشن سے لے سکتے ہیں جبکہ ونڈوز والے بڑی حد تک اپنی ضروریات تھنڈر برڈ جو کہ میرا پسندیدہ ای میل کلائنٹ ہے، اور لائٹننگ سے لے سکتے ہیں۔ اگر آپ ایسی ای میل استعمال کرتے ہیں جو مائکروسوفٹ ایکسچینج سرور استعمال کرتی ہے تو آپ اپنی قسمت یہاں آزما سکتے ہیں گرچہ مجھے اسکے استعمال میں فی الحال کامیابی نہیں ہوئی۔ جی میل، یاہو، ہاٹ میل وغیرہ کےلئے تھنڈر برڈ ہی کافی ہے۔ انٹرنیٹ ایکسپلورر کی جگہ آپ فائر فاکس یا گوگل کروم استعمال کر سکتے ہیں۔

بات ذرا دوسری جانب نکل گئی یعنی یہ کہ ونڈوز کے ہر سوفٹویر کے مقابلے میں مفت، بسا اوقات آزاد مصدر اور بہتر سوفٹویر موجود ہیں لیکن اس پر انشاء اللہ پھر کبھی بات ہو گی۔  یہ تحریر تو اوپن آفس سے متعلق ہی رہنے دیں۔اوپن آفس کی ایک اور مزیدار بات extensions کا استعمال ہے۔ extensions یا add-ons کیا ہوتے ہیں، یہ بات فائر فاکس استعمال کرنے والے تو خوب جانتے ہونگے لیکن مختصراً یہ کہ یہ چھوٹے چھوٹے اطلاقیے ہوتے ہیں جو کسی بھی سوفٹویر کو بہتر بنانے یا آپکی ضرورت کے مطابق ڈھالنے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ اطلاقیے آپ کے اوپن آفس کے تجربے کو مزید خوشگوار اور پیداواری بنا سکتے ہیں۔

یہ ضروری نہیں کہ آپ اوپن آفس ہی استعمال کریں۔ اگر آپ ونڈوز استعمال کنندہ ہیں تو اپنے چینی بھائیوں کی فراخ دلی کا فائدہ اٹھائیں اور کنگ سوفٹ آفس استعمال کریں جو میرے اندازے کے مطابق بڑی حد تک م س آفس سے ہی مشابہ ہے۔ اسکے علاوہ بھی کئی آفس سوئٹ موجود ہیں جنکی ایک فہرست آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں اوپن آفس ان سب میں سے بہتر ہے۔ آپ بھی استعمال کیجئے اور اپنے تجربے سے ضرور آگاہ کیجئے۔ آزاد دنیا میں خوش آمدید!

رند کے رند رہے۔۔۔

Posted in Computing, Photography, Photos, urdu by Shah Faisal on ستمبر 13, 2009

صاحبو خبر ہی کچھ ایسی ہے کہ فدوی ایک بار پھر اپنی hibernation سے باہر آنے پر مجبور ہو گیا ہے ورنہ لوگوں نے تو اپنی سی کر کے دیکھ لی بلکہ کچھ "براہِ راست” قسم کے نامے تو میرے نام یہاں اور یہاں بھی آئے (اور شائد کہیں اور بھی آئے ہوں لیکن دیکھ نہ پایا) کہ جنکا میں بہرحال تہہ دل سے مشکور ہوں کہ "آئے تو سہی،  بر سرِ الزام ہی آئے”۔۔۔

حضور اتنا تو آپ بھی جانتے ہیں کہ لینکس اپنا ذوق ہے اور فوٹوگرافی اپنا شوق۔ اب اگر یہ دونوں یکجا ہو جائیں تو کیا صورت بنے گی؟ تصور ہی بہت حسین ہے۔ خیر خبر کچھ یوں ہے کہ کچھ منچلوں (اور یہ ایسے ویسے لوگ نہیں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محقق ہیں) نے ایک اوپن سورس ڈیجیٹل کیمرا بنانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ چونکہ مارکیٹ میں موجود کیمرے اس سے بہت زیادہ کرنے کے اہل ہیں جو وہ اسوقت کر رہے ہیں، اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ایسا کیمرا بنایا جائے جو پروگرام کیا جا سکے۔ یعنی فوٹوگرافر حضرات اپنی مرضی سے کیمرے میں تبدیلیاں کر سکیں۔ شٹر سپیڈ، اپرچر، آئی ایس او سپیڈ، وغیرہ وغیرہ ایسی کئی چیزیں ہیں جن پر فوٹوگرافر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور اس کیمرے میں وہ ایسا بہت کچھ کر پائیں گے۔

تفصیلات میں جائیں تو کئی دلچسپ باتیں ملتی ہیں۔ مثلاً اس کیمرے کی چیدہ چیدہ خصوصیات میں سے سب سے نمایاں اسکا لینکس پر چلنا ہے۔ عدسے کینن کے جَڑے گئے ہیں جبکہ سینسر نوکیا این 95 فون کا ہے۔ باقی بھی کچھ "کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا” والا معاملہ ہے۔ نام اس کا فرینکن کیمرا ہے جو اسکی بدصورتی کو مد نظر رکھ کر رکھا گیا ہے لیکن اہل نظر کے قریب تو شائد یہ دنیا کا خوبصورت ترین کیمرا ہو گا۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہوتا ہے (جسکی ناکامی کی بہرحال کوئی وجہ بھی نہیں)، تو یقینا یہ فوٹوگرافی کی دنیا میں ایک انقلاب ہو گا اور کینن اور نائکون وغیرہ کیساتھ شائد کچھ ایسا ہی ہو گا جیسا اب مائکروسوفٹ کی ساتھ ہو رہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ کیمرا استعمال کون کریگا؟ تو صاحب فی الحال تو یہ کیمرا کمپیوٹیشنل فوٹوگرافی کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر بنایا جا رہا ہے لیکن وہ دن بھی دور نہیں جب شوقیہ اور پیشہ ور فوٹوگرافر حضرات (اور یقیناً خواتین بھی) اسے اپنے ہاتھ میں لینا پسند کریں گے۔اور ایسا کیوں نہ ہو کہ ڈیجیٹل فوٹو گرافی کی دنیا میں تیز تر تبدیلیاں آنے کے ساتھ ساتھ ہر فوٹوگرافر بہرحال کسی حد تک کمپیوٹیشنل فوٹوگرافر ہی ہے۔

ایک دلچسپ بات یہ کہ اس کیمرے کی ایک اہم صلاحیت ایچ ڈی آر بنانا بتائی گئی ہے (یہ مخفف ہے ہائی ڈائنامک رینج کا اور سادہ الفاظ میں ایک ایسی تصویر جو کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ روشنی میں موجود تفصیلات کو بیک وقت محفوظ کر سکے)۔ یہ کام تاوقت کمپیوٹر سوفٹوئر کی مدد سے ہی ممکن ہے لیکن کیا ان صاحبان کو یہ علم نہیں کہ پینٹکس کے کچھ ماڈل ( اور شائدکچھ اور کیمرے بھی) یہ کام پہلے ہی کرنے کے قابل ہیں؟ دوسری حیرت انگیز بات اسمیں نوکیا فون کے ننھے منے سینسر کا استعمال ہے جبکہ پیشہ ور فوٹوگرافر تو فل فریم کیمرا سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتے۔ شائد مستقبل میں اسمیں بڑے سائز کا سینسر استعمال کرنے کا ارادہ ہو۔ بہرحال اسکے علاوہ بھی کئی کام ایسے ہیں جو یہ کیمرہ سر انجام دے سکے گا اور یہی اسکا مقصد بھی ہے کہ فوٹو گرافر حضرات اپنا زیادہ وقت کمپیوٹر کی سکرین کی بجائے کیمرے کے عدسے کے پیچھے گزاریں۔ اسکا مطلب شائد یہ بھی ہے کہ اسوقت کے مقبول ترین فوٹو ایڈیٹنگ سوفٹوئر یعنی ایڈوبی فوٹو شاپ کی دکان بھی بند ہونے والی ہے (گرچہ یار لوگ تو ابھی بھی گمپ اور گمپ شاپ سے کام چلا ہی لیتے ہیں اور لینکس میں تو یہ آزادی پرانی بات ہے)۔ یہ بہت سوں کیلئے اچھی خبر یوں بھی ہے کہ پاکستان میں تو سوفٹوئر کی چوری کوئی اتنا بڑا جرم نہیں سمجھا جاتا لیکن اُنکے دل سے پوچھیں جو فوٹو شاپ خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ گرچہ یہ کیمرا مارکیٹ میں آتے آتے یقیناً کچھ وقت لگے گا لیکن بہر حال خبر تو اچھی ہے نا؟

ارے ہاں، اگر آپ نے یہ تحریر یہاں تک پڑھ لی ہے تو گمان غالب ہے کہ آپ ایک انتہائی فارغ (یعنی "ویلے”) انسان ہیں۔ تو لگے ہاتھوں میرا تصویری بلاگ بھی دیکھتے جائیے اور فلکر اکاونٹ بھی۔ آپکی آراء کا انتظار رہیگا۔

ابنٹو : تیز سے تیز تر

Posted in Computing, urdu by Shah Faisal on اپریل 29, 2009

صاحبو اگر آپ میری طرح بد قسمت ہیں کہ مائکروسوفٹ ونڈوز سے آپکی جان چھڑائے نہیں چھوٹتی تو یقیناً اور بہت سے شکووں کے علاوہ ایک شکوہ آپکو رفتار کا بھی ہو گا۔ اب اگر دہرے پراسیسر اور ایک گیگا ریم کے ساتھ بھی کمپیوٹر مر مر کر چلے تو شکوہ تو جائز ہوا نا؟ ایسے میں اگر تقابل کیا جائے لینکس کے ساتھ تو عموماً لینکس نظام مثلاً ابنٹو یا ڈیبین تیز رفتار ہوتے ہیں۔ اس بات کا یقین مجھے پہلے بھی تھا لیکن ابنٹو کے تازہ نسخے نے اس یقین کو مزید پختہ ہی کیا ہے۔

لیکن اگر آپکو اندازہ نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں تو ابنٹو کا نیا نسخہ 9.04 المعروف جانٹی جیکالوپ آزمائیے۔ گھبرائیے نہیں۔ اسمیں گھاٹا کوئی نہیں کہ ونڈوز کے برعکس ایک تو یہ نظام مفت ہے پھر لائیو سی ڈی یا یو ایس بی کی مدد سے اپنے کمپیوٹر میں کسی قسم کی تبدیلی کیے بغیر اس نظام کو آزما سکتے ہیں (ویسے میں نے تو اس مرتبہ تنصیب بھی سی ڈی کی بجائے یو ایس بی سے، بذریعہ یونیٹ بوٹن، کی ہے)۔ ہاں مستقل بنیادوں پر استعمال کیلئے بہتر ہے کہ تنصیب یاانسٹالیشن کر لیں۔ ویسے آپ میری طرح اپنے کمپیوٹر کو دہریہ بھی بنا سکتے ہیں یعنی وہ ونڈوز اور لینکس ابنٹو دونوں نظاموں پر چلے ۔ رہی بات ابنٹو کے حصول کی تو آپ اسے انٹرنیٹ پر سے مفت اتار سکتے ہیں اگر آپ تیز رفتار انٹرنیٹ کے مالک ہیں تو۔ دوسری صورت میں کینانکل کو لکھ بھیجئے، وہ آپکو مفت سی ڈی بھیج دیں گے گرچہ چند ہفتوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔

ابنٹو سے اب میرے تعلق کو خاصا عرصہ ہو گیا ہے، ٹھیک سے یاد نہیں لیکن دو برس سے سوا ہونے کو آئے ہیں۔ اسی موضوع پرگزشتہ تحاریر آپ یہاں، یہاں اور یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ میرے ابنٹو کے استعمال کی چند ایک وجوہات ہیں، مثلاً:

ابنٹو مفت ہے، لینکس کی تقریباً تمام اقسام مفت ہی ہیں۔ آپ قانونی طور پر انکو انٹرنیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں، تقسیم کر سکتے ہیں، بیچ سکتے ہیں۔

ابنٹو کا ہر چھ ماہ بعد بہتر، نیا نسخہ منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ اس چھ ماہی نسخے کے علاوہ ہر تین سال بعد ایک طویل مدتی نسخہ لایا جاتا ہے جو ان لوگوں کیلئے ہے جو زیادہ مہم جو فطرت نہیں رکھتے اور تین سال تک کوئی بڑی تبدیلی نہیں چاہتے۔

ابنٹو اور لینکس کی دیگر اقسام پرانے کمپیوٹرپر ونڈوز کی نسبت بہتر رفتار کی حامل ہیں۔ ان اقسام میں سے بھی چند ایک خصوصیت کے ساتھ پرانے کمپیوٹروں کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ ایک اچھی مثال ابنٹو کی ایک قسم زبنٹو کی ہے۔

وائرس وغیرہ کا کوئی جھنجٹ نہیں۔

لوگ رضاکارانہ طور پر آپ کی مدد کرتے ہیں، مثلاً اپنے مکی بھائی نے ایک پورا فورم اس مقصد کے لئے ترتیب دے رکھا ہے، لینکس پاکستان والے بھی مدد کرتے ہیں اور ابنٹو کے اپنے فورم تو موجود ہیں ہی۔ لوگ آپکی مدد کرینگے لیکن آپ میں شکر گزاری، صبر، اپنی بات بہتر طریقے سے بیان کرنے کی صلاحیت اور کچھ سیکھنے کی لگن ہونا شرط ہے۔ سیکھ کر اوروں کو سکھانے کی لگن تو سونے پر سہاگہ ہے۔

تقسیم اور تبدیلی کی آزادی کی وجہ سے لینکس کی بیشمار اقسام ہیں۔ خود ابنٹو بھی لینکس کی ہی ایک قسم ہے لیکن اسکی بھی آگے کئی اقسام ہیں۔ اس سب کا فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنے مطلب کی چیز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ مثلاً اب میں اپنے سفری، بلکہ بستری کمپیوٹر کیلئے ابنٹو کا یہ نسخہ آزمانے کا سوچ رہا ہوں۔

مختصر یہ کہ اس سب میں فائدہ ہی فائدہ ہے نقصان کوئی نہیں۔ آزمائش شرط ہے۔ آپکے تجربات کا انتظار رہیگا۔

ہمارا نیا نوکیا -۲

Posted in Computing, urdu by Shah Faisal on اکتوبر 3, 2008

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ خاکسار ہیچمدار کو اتنا وقت اور ارادہ میسر ہو ہی گئے کہ اس سلسلے کو جو ناچیز نے اگست میں شروع کیا تھا آگے بڑھایا جائے۔ اس ضمن میں محترم روغانی صاحب کی یاد دہانی بھی گویا میری  پشت پر آخری تنکا ثابت ہوئی۔ تو صاحب پڑھیئے اور سر دھنئیے مگر اپنا۔ جناب بد تمیز صاحب، کہ بارے جن کے ظن ہے کہ یہ محض انکا تخلص ہی ہے، نے سب سے پہلے یہ پہیلی بوجھی تھی کہ بالآخر وہ کونسا خوشنصیب فون تھا جو اس جیب کی زینت بنا، اگرچہ جیب میں رکھنے کی نوبت کم کم ہی آتی ہے۔ کیوں؟ پڑھتے رہیئے۔

تو جناب یہ نوکیا ای اکسٹھ آئی تھا، جو اُس کسوٹی پر پورا اترا جو پچھلی تحریر میں بیان کی تھی اور مندرجہ ذیل سطور میں بھی آپکو نظر آئے گی۔ ویسے یہ پہیلی اتنی مشکل اسلئے نہیں تھی کیونکہ ایک مرتبہ جب یہ فیصلہ ہو گیا کہ نوکیا ہی لینا ہے اور کہ جسمیں وائی فائی یا وائر لیس انٹرنیٹ  کے علاوہ مکمل کی بورڈ بھی موجود ہو تو  پھر نوکیا ای نوے، ای اکہتر اور ای اکسٹھ آئی ہی رہ جاتے ہیں۔ اس میں سے بھی اگر ای نوے کو بوجہ قیمت اور حجم نکال دیں تو اصل معرکہ ای اکہتر اور ای اکسٹھ آئی کے مابین ہی تھا۔

صاحب شائد آپکو یاد نہ ہوں وہ خصوصیات جو پیش نظر تھیں سو انکو دہرا دینا نا مناسب نہ ہو گا :

۱۔  بطور فون عمومی خصوصیات مثلا آواز کی کوالٹی وغیرہ: نوکیا کے معاملے میں اس بارے زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔

۲- ای میل خصوصاً پش ای میل: کسی زمانے میں تو بلیک بیری ہی اس سلسلے کا بے تاج بادشاہ تھا لیکن اب نوکیا بھی یہاں پنجے تیز کر رہا ہے، بشمول دوسرے کھلاڑیوں کے۔  کئی دیگر فون مثلاً ونڈوز پر چلنے والے فون بھی اس سلسلے میں اچھے ہیں۔ دراصل اہم  بات اس خصوصیت کے ہونے یا نہ ہونے کی نہیں بلکہ اسکے استعمال کی قیمت کی ہے۔ اگر آپکا فون کنکشن فکسڈ ڈیٹا پلان پر نہیں تو فون کا بل آسمان سے باتیں کر سکتا ہے۔ پاکستان میں شائد پانچ سو روپے ماہانہ کے عوض آپکو یہ سہولت مختلف موبائل کمپنیوں سے مل سکتی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے دوست زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔ اسوقت نوکیا پُش ای میل کی سہولت  مفت مہیا کر رہا ہے لیکن مستقبل بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ان ای میل اکاونٹس کے لیے ہے جو آپ عام زندگی میں استعمال کرتے ہیں مثلاً جی میل، یاہو  وغیرہ۔ پُش ای میل کا مطلب یہ ہے کہ آپکا فون ہر وقت آپکے ان باکس کی نگرانی کریگا اور جونہی کوئی نئی میل آپکے اکاونٹ میں وارد ہو گی، آپکو فوراً مطلع کریگا۔ ظاہر ہے کہ اسکے لئے یا تو آپ کا انٹر نیٹ سے مسلسل رابطہ ضروری ہے اور یا پھر آپکا فون کنکشن استعمال ہو گا۔ اسوقت پاکستان میں آپ لگ بھگ پندرہ روپے کے عوض تقریباً ایک میگا بائٹ ڈیٹا ڈاونلوڈ کر سکتے ہیں۔ زونگ والوں نے غالباً ڈیٹا کی مقدار کی جگہ وقت کے حساب سے بلنگ کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن بہرحال میری معلومات اس سلسلے میں محدود ہیں۔

۳- انٹرنیٹ بذریعہ  وائرلیس لین یا وائی فائی: میں چونکہ موبائل فون کے ماہانہ اخراجات کے معاملے میں خاصا کنجوس ہوں تو یہ خصوصیت میرے لئے بہت ہی ضروری تھی۔ اتنی کہ اس کے بغیر میں کوئی فون نہ لیتا۔ پام فون نہ لینے کی ایک اہم وجہ بھی یہ تھی کہ اسوقت تک پام کا کوئی ماڈل وائی فائی سے لیس نہیں تھا۔ اب غالباً حال ہی میں انکے دو ماڈل اس سہولت سے لیس آئے ہیں۔ میرا زیادہ وقت چونکہ گھر یا یونیورسٹی میں گزرتا ہے کہ جن ہر دو جگہوں پر مجھے وائرلیس انٹر نیٹ میسر ہے تو فون کمپنی کو انٹرنیٹ کے اضافی پیسے دینے کے کوئی تک نہیں بنتی۔ ہاں البتہ آپکی فون کمپنی اچھا پیکج دے تو بہرحال تھری جی یا پاکستان کے معاملے میں جی پی آر ایس کا اپنا ہی مزہ ہے کہ جہاں فون کا سگنل، وہاں انٹرنیٹ اور ای میل آپکی جیب میں۔

۴- پرسنل انفارمیشن مینیجمنٹ کی اعلی خصوصیات یعنی کیلنڈر، نوٹس، فون ڈائری، وغیرہ: زیادہ اہم نہیں کہ ای سیریز کے فون ان خصوصیات کے حامل ہیں، ہر اچھے سمارٹ فون کیطرح۔

۵- ذاتی کمپییوٹر/ پی سی میں موجود پم مثلاً مائکروسوفٹ آوٹ لک کے ساتھ معلومات یا ڈیٹا کی ترسیل یعنی سنکرونائزیشن: اس معاملے میں نوکیا فون اتنا اچھا تو شائد نہ ہو جتنا ونڈوز پر چلنے والے فون ہیں لیکن بہرحال برا بھی نہیں۔ پام کی ایک اضافی خصوصیت لینکس پر چلنے والے اطلاقیوں سے ہمکلام ہونے  کی ہے جبکہ باقی سب فون تُک بندی کرنے کی حد تک ہی لینکس کے ساتھ چل پاتے ہیں ۔ لیکن  یہ میرے لئے اتنا اہم اسلئے نہیں تھا کہ انٹرنیٹ پر براہ راست یہ کام ہو سکتا ہے۔ میری ای میل، ایڈریس بک، نوٹس وغیرہ مائکروسوفٹ ایکسچینج پر ہیں اور نوکیا ای سیریز کے فون کامیابی سے ایکسچینج سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ باقی ماڈل بھی شائد ہوتے ہوں، مجھے علم نہیں۔

۶- دفتری فائلوں مثلا ایم ایس ورڈ، ایکسل، ایڈوبی پی ڈی ایف، وغیرہ کو پڑھنے، لکھنے اور ترمیم کرنے کی صلاحیت: کچھ حد تک اہم لیکن بہت زیادہ نہیں۔

۷- مکمل کی بورڈ یعنی ایسا کی بورڈ جیسا آپکے کمپیوٹر میں ہے: وائرلیس انٹرنیٹ کے علاوہ یہ دوسری اہم ترین خصوصیت تھی جو میرے مدنظر تھی۔ وجہ استعمال کی سہولت ہے۔ ای میل کی تحریر، چیٹنگ، ایس ایم ایس وغیرہ کا جو مزہ مکمل کی بورڈ استعمال کرنے پر آتا ہے، وہ مجھ سے پوچھیں۔ اب تو حالت یہ ہے کہ لیپٹاپ چلانے کی زحمت بھی نہیں کرتا اور بعض اوقات تو بستر یا صوفے پر لیٹے لیٹے ہی ای میل اور چیٹنگ ہو جاتی ہے۔ ای اکہتر کے مقابلے میں ای اکسٹھ آئی کا کی بورڈ بڑا اور استعمال میں آسان ہے، لیکن بہر حال ای نوے سے چھوٹا ہی ہے۔ ونڈوز پر چلنے والے کئی موبائل سلائڈ کی بورڈ رکھتے ہیں جسکی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی، گرچہ کچھ لوگ انھیں بھی پسند نہیں کرتے۔

۸۔ سکرین کا سائز اور کوالٹی، دھوپ میں نظر آنے کی صلاحیت: اہم ہے، خصوصاً اگر آپ فون پر انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں۔ ای اکہتر کے مقابلے میں ای اکسٹھ آئی کی سکرین بڑی ہے لیکن ای اکہتر کی سکرین بھی استعمال میں مشکل نہیں۔

۹۔ فون کا حجم ، وزن، ظاہری شکل، ٹھوس پن وغیرہ: بہت اہم ہے، اب آپ جیب میں اینٹ لئے تو نہیں گھوم سکتے نا؟ ای نوے کی سب سے بڑی خامی اور ای اکہتر کی خصوصیت۔ ای اکسٹھ درمیان میں ہے گرچہ جیب میں رکھنا اسکو بھی مشکل ہے۔ بیلٹ سے لگائے پھرتا ہوں۔ عید پر شلوار قمیص پہن کر باہر گیا تو عجب مصیبت تھی کہ اب کیا اسے شلوار سے لٹکاوں؟ سامنے والی جیب میں ڈال تو لیا لیکن جیب بھی لٹک رہی تھی۔ ہی ہی ہی۔ ای اکہتر آسانی سے جیب میں آ جاتا ہے۔ ای نوے کیلئے آپکو سیکرٹری رکھنا پڑے گی۔۔۔ یا پڑے گا۔ شکل کا فیصلہ آپ پر ہے۔۔۔ میری مراد فون کے شکل سے ہے۔ کچھ لوگ بلیک بیری سے مماثل یعنی ای اکسٹھ پسند کرتے ہیں، کچھ کو ای اکہتر اچھا لگا۔ میٹیریل کی جہاں تک بات ہے، عمومی طور پر نوکیا کے سب بزنس ماڈل ٹھوس ہوتے ہیں اور پلاسٹک کی نسبت دھات کا کافی استعمال ہوتا ہے۔

۱۰۔ بعد از فروخت سروس اور برانڈ کا عمومی تاثر، استعمال شدہ فون کی مارکیٹ میں قدر وغیرہ: پاکستان میں نوکیا کے علاوہ بھی فون ہیں؟ ٹھیک ہے، ہیں لیکن نوکیا خو نوکیا دے کنا مڑاں۔۔۔ اب البتہ لوگ دوسرے برانڈ مثلا سونی، سام سنگ یا سمارٹ فونز میں ایچ ٹی سی وغیرہ لے رہے ہیں، گرچہ ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہی ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ مرمت کی سہولت ہے یا نہیں۔ چائے پانی، بارش، گرد وغیرہ سب سے آپکے فون کا پالا پڑتا ہے، اگر نہیں تو شائد آپ اسے استعمال ہی نہیں کرتے۔

۱۱۔ ڈیٹا ٹرانسفر کے متفرق طریقے مثلاً تار یا بلیو ٹوتھ:  یہ سہولت تقریبا ہر دوسرے جدید فون میں ہے۔ ای اکہتر میں بلیو ٹوتھ ۲ ہے جبکہ ای اکسٹھ میں پرانا ورژن ہے گرچہ اس سے کوئی بڑا مسئلہ ہونا تو نہیں چاہیے۔

۱۲- قیمت (یقینا یہ ایک اہم نکتہ ہے): وجہ تو صاف ظاہر ہے۔ جب میں نے ای اکہتر اور ای اکسٹھ کا موازنہ کیا تو قیمت میں تو تقریبا دو سو آسٹریلوی ڈالر کا فرق تھا لیکن کام میں نہیں۔ پھر ای ایکسٹھ آئی فروری ۲۰۰۷ میں آیا تھا اور تب سے اسکی کئی خامیاں دور کی جا چکی ہیں ( یاد رہے کہ اس سے پہلے ای اکسٹھاورایباسٹھ آئے تھے) جبکہ ای اکہتر بالکل نیا تھا اور اسکو جمتے جمتے کچھ وقت تو لگے گا ہی۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی چیز کا بالکل نیا ماڈل لے کر آپ اس کمپنی کی بڑی خدمت کرتے ہیں جو اسکو بناتی ہے اور پھر آپکے خرچے پر اسکو بعد میں بہتر بناتی ہے۔ ای نوے تو پرانا ہے لیکن اگر چار سو ڈالر میں ایک کام ہو رہا ہو تو اسکے لئے ہزار ڈالر خرچ کرنے اور سیکرٹری رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟

۱۳۔ یاداشت/ میموری میں اضافے کی صلاحیت: بدقسمتی سے ای اکسٹھ زیادہ سے زیادہ صرف دو گیگا کا مائکرو ایس ڈی کارڈ ہی سپورٹ کرتا ہے، ای اکہتر ۸ گیگا تک چلا جاتا ہے۔ لیکن اگر آپکو گانے اور فوٹو نہیں رکھنے تو پھر ۲ گیگا ختم کر کے دکھائیں، مان جاونگا۔

۱۴۔ فون کے استعمال کی آسانی (آئی فون غالبًا سب سے نمبر لے گیا ہے لیکن سمبیان پر چلنے والے فون عموما ونڈوز والوں سے آسان اور سہل خیال کیے جاتے ہیں): میرے لئے یہ اتنا زیادہ اہم نہیں تھا۔

۱۵۔ متفرق خصوصیات مثلا کیمرہ، موسیقی، جی پی ایس کی موجودگی: میرے لئے کیمرہ تو اتنا اہم نہیں تھا لیکن جی پی ایس کی خواہش تھی۔ بعد میں جب علم ہوا کہ نوکیا کمپنی جی پی ایس کی صوتی سہولت کو استعمال کرنے کا الگ سے کرایہ لیتی ہے تو شوق ختم ہو گیا، گاڑی کیلئے علیحدہ جی پی ایس لینا زیادہ بہتر فیصلہ ہے۔ ایک مرتبہ پیسے لگائیں، ماہانہ بل سے جان چھڑائیں۔ اگر نہیں تو میرے اگلے بلاگ کا انتظار کریں جہاں مفت جی پی ایس کے کچھ اطلاقیے بتاونگا۔

۱۶۔ مارکیٹ میں دستیاب سوفٹویر اپلیکیشنز/ اطلاقیوں کی تعداد اور انکی قیمت: نوکیا کیلئے کافی مفت اطلاقیے مل جاتے ہیں۔ پام بھی اچھا ہے، ونڈوز موبائل کے بے تحاشا اطلاقیے موجود ہیں جبکہ آئی فون خاصا پیچھے ہے خصوصا اسوقت جب آپ ایپل والوں کی دکان سے ہی اطلاقیے لینے پر مجبور ہیں۔ یار لوگوں نے اسکا حل نکالا ہوا ہے لیکن پھر بھی اطلاقیے محدود تعداد میں ہیں۔ اسوقت میرے فون میں تقریباً سب اطلاقیے مفت ہیں، شائد ایک آدھ پیسوں والا ہے لیکن انکے بھی ہیک مل جاتے ہیں آسانی سے۔ انکا استعمال کم ہی کرتا ہوں کہ ضمیر کچوکے دیتا ہے، چوری تو چوری ہوتی ہے نا جی؟

۱۷۔ ٹچ سکرین: اسکی مجھے زیادہ خواہش نہیں تھی لیکن اب بعض اوقات اسکی کمی محسوس ہوتی ہے۔ غالباً نوکیا کا کوئی بھی فون ٹچ سکرین نہیں لیکن دوسرے ایسے فون موجود ہیں جنمیں مکمل کی بورڈ کے ساتھ ساتھ ٹچ سکرین کی سہولت بھی ہے۔

اچھا جناب کیا رہ گیا کہنے کو؟ ہاں یاد آیا ایک تو یہ کہ نوکیا کے علاوہ وہ کون کون سے فون تھے جو زیر غور تھے اور دوسرا یہ کہ اسوقت میرے فون میں کون کون سے اطلاقیے موجود ہیں یا یہ کہ فون کا استعمال کیسے ہو رہا ہے۔

پہلے سوال کا جواب تو ابھی دیے دیتا ہوں۔ دوسرے کے لئے آپکو اگلی قسط کا انتظار کرنا پڑے گا کہ بات بہت طویل ہو جائے گی۔ میرے ذہن میں تھا کہ میں نے فون پر زیادہ سے زیادہ سات، ساڑھے سات سو ڈالر لگانے ہیں اگر کوئی بہت اہم وجہ اس سے زیادہ خرچ کرنے کی نہ ہو۔ اس ضمن میں کچھ فون تو بجٹ سے باہر ہی تھے مثلاً نوکیا کا ای نوے یا ایچ ٹی سی کا ٹائی ٹن ۲۔ ایچ ٹی سی کا ایس ۷۴۰ بھی زیرغور تھا لیکن پھر انٹر نیٹ پر کچھ تبصرے اسکے خلاف پڑھے تو ارادہ ترک  کر دیا، گرچہ مجھے اچھا ہی لگ رہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایچ ٹی سی ایک نہایت ہی معتبر نام ہے سمارٹ فون کی دنیا میں۔ اور اب تو گوگل کا انڈرائڈ نظام بھی دستیاب ہے انکے فون پر۔ سام سنگ کی بلیک جیک سیریز بھی نظر سے گزری مگر اونہوں۔۔۔ ایسوس کا ایم ۵۳۰ و بھی اچھا تھا اور خاصا موڈ بن گیا تھا اسکو لینے کا۔ بلیک بیری کے مختلف ماڈل تھے لیکن ان میں وائر لیس انٹر نیٹ نہیں تھا اور یہی مسئلہ پام کے ساتھ بھی تھا، گرچہ پام کا بھی بڑا نام ہے پی ڈی بنانے میں۔ فون کی دنیا میں انکی آمد گرچہ پرانی نہیں۔  سونی ایریکسن کا پی ون آئی؟ نہیں نہیں۔ اسکے علاوہ بھی چند ایک تھے لیکن آخر میں بات نوکیا ای اکسٹھ آئی اور ای اکہتر پر آن ٹہری۔ اتفاق سے مجھے دونوں استعمال کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ ای اکہتر کئی طرح سے ای اکسٹھ آئی سے بہتر ہے اور کیوں نہ ہو کہ دونوں کے مابین تقریباً ڈیڑھ سال کا فرق ہے۔ سب سے نمایاں خوبی تو اسکا سائز ہے، پھر یہ کافی تیز رفتار ہے جبکہ ای اکسٹھ پر ریم محدود اور پراسیسر سُست رفتار ہے۔ وزن میں بھی ای اکہتر کم ہے اور اسمیں جی پی ایس بھی ہے۔ یاداشت کو آٹھ گیگا تک بڑھایا جا سکتا ہے جبکہ ای اکسٹھ آئی میں یہ صرف دو گیگا ہے۔ جن باتوں میں یہ پیچھے ہے وہ ہے سکرین اور کی بورڈ کا سائز۔ اگر آپکے انگوٹھے موٹے ہیں تو شائد آپ ایک کی جگہ دو دو بٹن دباتے جائیں۔ سکرین کے سائز کا فرق اتنا پتہ نہیں چلتا کہ شائد اسکی ریزولوشن بہتر ہے یعنی کم جگہ پر زیادہ نقطوں سے تصویر بنتی ہے سو چھوٹی تصویر بھی واضح نظر آتی ہے۔ جہاں تک سائز کی بات ہے تو ای اکسٹھ اتنا بھی گیا گزرا نہیں کہ بلیک بیری اور پام کے اکثر سیٹ تقریباً اسی سائز میں آپکو کم سہولیات دیتے ہیں۔ قیمت کا فرق تو ظاہر ہی ہے۔ مرضی آپکی اپنی ہے بھیا۔ میری نظریں تو مستقبل میں شائد انڈرائڈ کے حامل فون پر ہونگی۔