Faisaliat- فیصلیات

مجھے نفرت ہے، یا شائد نہیں ہے۔۔۔

Posted in Humor, urdu by Shah Faisal on مارچ 10, 2007

یارو یہ سارا جھنجھٹ قدیر میاں کا پھیلایا ہوا ہے۔ نہ جانے آپ جناب کے دماغ میں کیا سمائی کہ بیٹھے بٹھائے ایک عدد بلاگ یہ لکھ مارا کہ مجھے فلاں فلاں باتوں سے نفرت ہے۔ باقی تو مجھے بھول گیا صرف ایک چیز یاد رہ گئی اور وہ تھی قدیر کی جرابیں جن سے انہیں نفرت ہے۔ میاں قدیر خدا جھوٹ نہ بلوائے محبت تو ہمیں بھی آپکی جرابوں سے ہرگز نہیں خصوصاً یہ جاننے کے بعد کہ آپکو نہانے سے بھی الرجی ہے۔ خیر بات یہں تک رہتی مگر آپ نے جناب بدتمیز صاحب کو بھی اس بحث میں گھسیٹ لیا۔ ارے نہیں صاحب یہ بدتمیز صاحب واقعی بدتمیز نہیں صرف تخلص کرتے ہیں یا شائد لقب ہی ہو، عرفیت بھی ہو سکتی ہے۔ خیر اب یہ سلسلہ جو چلا تو بدتمیز صاحب نے اچھے اچھوں کو مجبور کر دیا کہ وہ سرِبازار یہ بتائیں کہ اُنھیں کیا ناپسند ہے یا کون ناپسند ہے۔ اس ریلے میں جہاں افتخار اجمل انکل، راشد کامران، خاور کھوکھر اور متعدد دوسرے بلاگر صاحبان کہ جنکے نام اسوقت ذہن میں نہیں رہے اور جسکے لئے معذرت ، بہہ گئے وہیں ناچیز بھی تھا۔ اب بدتمیز نے زندگی میں پہلی مرتبہ کوئی فرمائش کی ہے تو پوری تو کرنا پڑے گی۔ ہاں زیادہ سوچ ساچ کر نہیں لکھونگا بس جو فی الوقت ذہن میں باتیں آئیں گی وہی عرض کر دونگا۔

ہاں تو جناب مجھے جو باتیں ناپسند ہیں (یا شائد نفرت بھی ہو) وہ کچھ یوں ہیں، بلا کسی خاص ترتیب کے:

1۔ اپنی غیبت کی عادت: آہ صاحب یقین کریں کس مشکل سے میں یہ کہہ پایا ہوں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ مجھے کسی کے پیٹھ پیچھے باتیں کر کے بڑا مزا آتا ہے۔ اور ہمیشہ ایسا کرنے کے بعد میں پچھتاتا بھی ہوں اور روزِ قیامت سے ڈر بھی بڑا لگتا ہے لیکن

؎ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

دعا کریں کہ چھوٹ جائے۔

2۔ اپنی وقت ضائع کرنے کی عادت: جو کام پانچ منٹ میں ہو سکتا ہے وہ شائد میں ایک گھنٹے میں کرتا ہوں، خصوصاً اگر وہ کام کمپیوٹر پر ہو اور انٹرنیٹ بھی مہیا ہو۔ اپنے سارے امتحانی پرچے میں آخری دن جمع کراتا ہوں، اس سے پہلے دل ہی نہیں چاہتا کام کرنے کو۔

3۔ رات کو دیر سے سونے کی عادت: کبھی کبھی تو سورج طلوع ہونے کے بعد سوتا ہوں۔ کوشش کر رہا ہوں کہ یہ عادت بھی چھوٹ جائے، فی الحال تو مشکل ہی نظر آ رہا ہے۔

4۔اپنی جلدبازی کی عادت: کئی مرتبہ نقصان بھی اٹھایا مگر ہنوز یہ عادت بھی قائم ہے۔

5۔ دوسروں کے متعلق جلدی اور اکثر غلط رائے قائم کرنے کی عادت: اب زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ بہتری آ رہی ہے۔

6۔ اپنی فضول خرچی کی عادت: اس بارے میں تو آپ بیگم سے ہی پوچھیں۔

7۔ دماغ کی جگہ دل سے سوچنے کی عادت: نتیجہ ہوتا ہے غلط فیصلے لیکن اللہ کے کرم سے آج تک کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔

8۔ غصہ کی عادت: جینیاتی ہے، لیکن جاننے والے بتائیں گے کہ اسپر کچھ کچھ قابو پا لیا ہے۔

9۔ بےسوچے سمجھے بولنے کی عادت: دراصل میں باتونی بھی ہوں اور پھر نتیجتاً کچھ اُلٹا سیدھا بھی بک دیا کرتا ہوں۔ کچھ اندازہ تو آپکو میرے بلاگ پڑھ کر بھی ہو گیا ہو گا۔

10۔ کام چوری کی عادت: جب تک انتہائی مجبوری نہ ہو، کوئی کام نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ پینے کا پانی بھی بیگم کو کہہ کر منگواتا ہوں، وہ آس پاس نہ ہوں تو پیاس بھی برداشت کر لیتا ہوں، خصوصاً اگر کمپیوٹر سامنے دھرا ہو۔

ویسے تو اور بھی بہت بُری بُری باتیں ہیں مجھ میں لیکن چونکہ صرف دس عدد لکھنے کی فرمائش تھی اسلئے یہ سلسلہ منقطع کرتا ہوں۔ ہاں آپ شائد وہ باتیں بھی پوچھنا چاہیں جو مجھے اوروں میں بُری لگتی ہیں۔ اب کیا صاحب اپنے اندر ہی اتنی برائیاں جمع ہیں کہ اوروں کے متعلق کچھ کہنا زیبا نہیں دیتا۔ ہاں چند باتیں مختصراً کہے دیتا ہوں:

1۔ اپنی صفائی پیش کرنا خصوصاً اگر میرا قصور نہ ہو۔

2۔ انسانوں کی یہ فطرت کہ وہ اپنی زندگی اوروں کی دیکھا دیکھی گزارتے ہیں، بعض اوقات یہ رویہ بھیڑ چال بھی کہلاتا ہے۔

3۔ صرف اپنے آپ کو صحیح اور بہترین سمجھنا۔ یہ بات ہماری قوم میں خصوصاً بہت زیادہ ہے۔ اسپر میں نے ایک بلاگ بھی لکھا تھا۔

4۔ ہر بات کا الزام اپنے حکمرانوں کو دینا اور یوں کر کہ اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو جانا۔ اسپر بھی انشااللہ کبھی تفصیلاً لکھونگا۔

اور بھی کچھ باتیں ہیں لیکن فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ امید ہے بدتمیز صاحب خوش ہو گئے ہونگے۔ یار ایسی مشکل مشکل باتیں نہ کروایا کرو، ساڈی وی کوئی عزت ہے، میرا مطلب ہے۔۔۔تھی!!!

 

تاک دھنا دھن تاک

Posted in Humor, Politics, urdu by Shah Faisal on فروری 5, 2007

صاحبو چند سال پہلے مجھ پر ایک عجیب انکشاف ہوا۔ ۔۔ ہم سب ناچ رہے ہیں، اندھادھند اُلٹا سیدھا بے ہنگم ناچ۔ کچھ اچھا ناچ رہے ہیں کچھ بُرا اور کچھ بہت ہی بُرا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ ارے۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اسی حیرت کے عالم میں میں ناچتے ناچتے رک گیا۔ ناچ دیکھنے کیلئے سب کو ناچتا دیکھنے کیلئے۔ خیریت؟ کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کچھ نے تو یوں پُوچھا گویا کہہ رہے ہوں ”دماغ تو ٹھیک ہے؟“ کسی چہرے پر حیرت، کسی پر ہمدردی اور بہت سی طنزیہ مسکراہٹیں۔ اپنے پرائے سبھی نے پوچھا۔ ”کچھ نہیں ذرا تھک گیا تھا“ میں نے بہانہ بنایا اور اٹھ کر پھر ناچنا شروع کر دیا۔ میرے آس پاس والوں کے چہروں پر اطمینان دوڑ گیا۔
پھر پچھلے سال میں کلاس میں بیٹھا تھا۔ پروفیسر صاحب نے ایک تھیوری پڑھائی “The Treadmill of Technological Advance” لُبِ لُباب اُس کا یہ تھا کہ جو کسان زراعت کی نئی تکنیک نہیں اپناتے وہ جلد ہی اس کھیل سے باہر ہو جاتے ہیں گویا جو زیادہ تیز دوڑے گا وہی باقی رہے گا۔ میں نے سوچا یہ تھیوری تو ہم سب کی زندگیوں پر لاگو ہوتی ہے۔ جو زمانے کے ساتھ نہ دوڑا وہ کچلا گیا، لوگوں کے پیروں تلے روندا گیا۔ اُٹھ میرے بھائی ناچ۔ ناچ ورنہ مارا جائے گا۔
ایک کہانی ہے بڑی پرانی۔ آپ نے بھی سنی یا پڑھی ہو گی۔ طفننِ طبع کے لئے دہرائے دیتا ہوں۔ ٹھگوں کا ایک ٹولہ بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر ہوا۔ ”حضور ہم آپ کے لئے ایک خاص لباس تیار کرنا چاہتے ہیں جواس سے پہلے نہ کسی نے دیکھا نہ سنا“۔ بادشاہ بڑے اچھے ذوقِ لطیف کا مالک تھا۔ پیرس ، اٹلی، ہالی وڈ کے سب ڈیزائنرز اُ س کے درباری تھے۔ سو فوراً تیار ہو گیا۔ ”حضور اس کام کے لئے ہمیں آٹھ دس عدد صندوق چاہیئں۔ نہیں نہیں، خالی نہیں، سونے چاندی ہیرے موتیوں وغیرہ کے بھرے ہوئے۔ اور اگرآپکا کریڈٹ کارڈ بھی مل جائے تو رنگ ذرا چوکھا آئے گا۔ لباس آپکو نیو ایر نائٹ پر پہنایا جائے گا“۔ بادشاہ نے سب کچھ من و عن تسلیم کر لیا۔ خیر مقررہ شام ٹھگ دربار میں حاضر ہوئے بمعہ ایک بھاری بھرکم صندوق کے۔”حضور ایک بات عرض کرناہم بھول گئے تھے کہ یہ لباس بے وقوفوں کو ہرگز دکھائی نہیں دے گا“۔ ٹھگوں کی یہ بات سُن کر بادشاہ سلامت اپنے تخت پر پہلو بدل کر رہ گئے لیکن بولے کچھ نہیں۔ ٹھگوں نے یونہی صندوق میں جہاں تہاں ہاتھ چلائے اور پھر بادشاہ سلامت کو گویا کوئی پوشاک پہنا دی۔آپ حضور نے ایک نظر درباریوں پر ڈالی جو ہکا بکا کھڑے تھے اور پھر کڑک کر وزیرِ اعظم (پرائم منسٹر نہیں) سے پوچھا ”کیسا ہے؟“ پہلے تو وزیر کے منہ سے نکلتا تھا ”جی کیا؟“ لیکن آخر وزیر تھا فوراً بولا ”حضور کا اس سے بہتر لباس تو میں نے آج تک نہیں دیکھا“۔ پھر کیا تھا ہر طرف سے مبارک سلامت کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ شاہی سواری محل سے نکلی۔ دو رویہ کھڑی عوام نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں(بادشاہ پر) بڑی بوڑھیوں نے بلائیں لیں (بادشاہ کی) اور شاعروں نے قصیدے پڑھے (اوہو بھئی ظاہر ہے بادشاہ کے) ۔ آخر ایک بچہ ہجوم سے نکل کر بادشاہ سلامت کے پاس آیا اور معصومیت سے پوچھا ”انکل آپ ننگے کیوں ہیں؟“
صاحبو یہی حال ہمارا تمہارا ہے۔ سب ناچ رہے ہیں لیکن اکثر تو جانتے ہی نہیں کہ ہم ناچ رہے ہیں۔ جو جانتے ہیں وہ مانتے نہیں اور جو مانتے ہیں وہ پوچھتے نہیں ”انکل ہم ناچ کیوں رہے ہیں؟“۔ بس سب ناچے جا رہے ہیں۔ کسی کو پیٹ نچا رہا ہے تو کسی کو سٹیٹس ، کسی کو کرسی تو کسی کو فیشن۔ سب کے سب تا ک دھنا دھن تاک ۔ اور اگر کوئی نہ ناچے تو؟ نہیں بھائی ہم سب عقلمند ہیں۔ بادشاہ حضور ننگے نہیں ہیں۔ جو ناچے وہ سکندر، جو نہ ناچے وہ بندر۔۔۔۔

(یہ بلاگ ماضی میں اُردو پواءنٹ کی ساءٹ پر چھَپ چکا ہے)

 

زمانہ خراب ہے۔۔۔

Posted in Humor, urdu by Shah Faisal on فروری 5, 2007

صاحبو ایک وقت تھا جب لوگ ڈائری لکھتے تو یوں گویا گناہ کر رہے ہوں، یعنی چھپ چھپ کر۔ پھر وقت گزرا اقدار بدلیں اور extroverts غالب آگئے۔ یعنی ہر کام کھلم کھلا ، چاہے اچھا ہو یا برا۔ ویسے بھی اب تو یار لوگ کہتے ہیں کہ اچھائی اور برائی subjective ہیں یعنی کچھ بھی بذاتِ خود اچھا یا برا نہیں ہے۔ ہم لوگ اپنی سمجھ، ماحول اور معاشرے کے مطابق اچھائی یا برائی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لادین یعنی سیکولر معاشروں میں تو یہ بات شائد ٹھیک بھی ہے۔ اسی لیے میرے خیال میں یہ معاشرے بڑے ”غریب“ ہیں۔ جو بات ہمارے ہاں کا مولوی فوراً بتا دیتا ہے، یہاں اسی بات کا فیصلہ کرتے برسوں لگ جاتے ہیں۔ کئی سیاسی پارٹیں، کئی ریسرچیں اور کئی لابسٹ ادارے لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنی بات کو صحیح منواتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں؟ مولوی صاحب نے کہہ دیا سو کہہ دیا۔ ہے کوئی مائی کا لال جو سامنے آئے اور چیلنج کرے۔ خیر میں بھی حلقہء اسلام سے خارج کیے جانے کا رسک نہیں لوں گا اس لیے یہ نہیں کہوں گا کہ یہ سب غلط ہے۔ بھائی میں نے پاکستان واپس بھی آنا ہے آخر۔
بہرحال بات ڈائری لکھنے کی ہو رہی تھی۔ دوستو اب جب سبھی لوگ ورچول ڈائری یعنی بلاگ لکھ ہی رہے ہیں تو میں کیوں پیچھے رہوں اور خواہ مخواہ کا نکو بنوں، سو میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ میں بھی بلاگ لکھوں گا۔ کچھ غیرت تو بیگم نے دلائی ہے کہ کبھی کچھ کر بھی لیا کرو اور کچھ ویسے ہی اردو سے کافی دن کی دوری ہو رہی تھی۔ اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں اردو کا بہت بڑا فین ہوں۔ دراصل مجھے کوئی اور زبان آتی بھی نہیں، بس انگریزی، سرائیکی اور پشتو میں کام چلا لیتا ہوں۔ یہاں برلن میں تو ویسے بھی اپنا آپ گونگا لگتا ہے۔ ہر غیرتمند قوم کی طرح یہاں بھی لوگ صرف اپنی بولی یعنی جرمن بولتے ہیں جو مجھے آتی نہیں سو زیادہ کام اشارے کنایوں سے چلتا ہے۔ ویسے یہ اشارے شریفانہ ہوتے ہیں (نوٹ برائے ریکارڈ )۔
ہاں تو دوستو ہر شریف آدمی کی طرح یہ میرا پہلا بلاگ ہے (لیکن آخری ہرگز نہیں)۔ اب یہ کتنے دن چلے گا، اسکا فیصلہ تو وقت کرے گا یا پھر آپ۔ حکومت ِ پاکستان البتہ فی ا لحال بے بس ہے کیونکہ یہاں جرمنی میں صحافی ”غائب “ نہیں ہوتے۔ شاید ہوتے بھی ہوں لیکن اخباروں میں میں نے کہیں نہیں پڑھا (ویسے انکے اخبار جرمن زبان میں چھپتے ہیں)۔ ویسے تو یہ بڑی نا مناسب بات ہو گی کہ میں اپنے سارے اچھے اور برے خیالات اس ”عریاں‘ ‘ ڈائری کے ذریعے آپ تک پہنچاؤں لیکن کیا کیجئے کہ
… زمانہ خراب ہے
امید ہے آپ سے ملاقات رہے گی۔ میرے پاس کہنے کو کیا ہے، اس کا ذکر آنے والے دنوں میں کروں گا، فی ا لحال کچھ سسپنس رہنے دیں۔۔۔

(یہ بلاگ ماضی میں اُردو پواءنٹ کی ساءیٹ پر چھَپ چکا ہے)