فیصلعین- میرا تصویری بلاگ
صاحبو آخر کار ناچیز سے رہا نہیں گیا اور ایک تصویری بلاگ بنام فیصلعین ترتیب دے ہی ڈالا۔ بیگم کو یقین ہے کہ ایسا کرنے کی بنیادی وجہ شہرت کی ہوس ہے لیکن میرا ایسا چنداں خیال نہیں۔ فوٹوگرافی کرنے کا میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس دنیا کو نت نئے زاویوں سے خود بھی دیکھوں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی دکھاؤں۔
میں شائد ان لالچی لوگوں میں سے ہوں جو منزل پر تو پہنچنا چاہتے ہیں لیکن راستے کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہتے۔ بہت سے لوگ منزل کی دوڑ میں راستے کو مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں اور جب منزل پر پہنچتے ہیں تو ایک نئی منزل انکی منتظر ہوتی ہے۔ میرا فوٹوگرافی کرنا اس نہ ختم ہونے والے چکر سے بغاوت ہی سمجھ لیجئے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ زمین بہت خوبصورت ہے لیکن ہم اسے محسوس کیے بغیر ہی جی جاتے ہیں، مر جاتے ہیں۔ شائد ان تصویروں سے چند لمحے اس دنیا کو اسی دنیا میں جینے کے مل جائیں۔
ایک ثانوی مقصد اپنے احساسات کا اظہار تصویروں میں کرنا بھی ہے گرچہ اسکے لئے کافی مشق چاہیے جو مجھ جیسے نیم حکیم کے بس کی بات نہیں۔
آپکی آراء کا انتظار رہیگا۔ میری دائمی سستی کے طفیل گرچہ کم کم ہی پوسٹ دیکھنے کو ملیں گی جسکے لئے پیشگی معذرت قبول کیجئے۔
ارے ہاں، یہ تصاویر آپ فلکر پر یہاں دیکھ سکیں گے۔
اردو بلاگ انگریزی بلاگ
صاحبو یہ تو گویا یوں ہی ہوا کہ سیبوں کا تقابل کر لیا جائے نارنگیوں سے۔ گھبرائیے نہیں اگر آپکو اس مثال کی سمجھ نہیں آئی تو اسمیں قصور آپکا نہیں کہ جب ایک زبان کے قالب پر دوسری زبان کا جسم منڈھ دیا جائے تو بس اتنا ہی حسن باقی بچتا ہے۔
خیر بات ہو رہی ہے اردو بہ مقابلہ انگریزی بلاگز کی۔ چچ چچ حضور کوئی مقابلے کی چیز ہو تو مقابلہ کیجئے، کہاں اردو کہاں انگریزی۔ نہیں ایسا نہیں کہ ایک اعلیٰ و ارفع ہے تو دوسری کم ظرف۔ میرے نزدیک تو ایک زبان ایک طرزِ معاشرت کا نام ہے ایک رویئے ایک سوچ کا نام ہے نہ کہ الفاظ کے ایک مجموعے کا۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ آج تک کسی انگریزی شاعر کو پان کھا کر کسی مشاعرے میں داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کرتے دیکھا ہے؟ یقیناً نہیں کہ ایسا کچھ رواج کسی بھی انگریز بلکہ پورے مغربی معاشرے میں موجود ہی نہیں۔ اب یہی غلطی تو ہمارے ہاں لوگ کرتے ہیں کہ انگریزی اخبارات کا مقابلہ اردو اخبارات سے کرتے ہیں، انگریزی کالم نگاروں کے وزن پر اردو کالم نگاروں کو تولتے ہیں اور انگریزی بلاگز کی کسوٹی پر اردو بلاگز کو جانچتے ہیں۔ نہیں صاحب یہ ممکن ہی نہیں۔ یہ دو مختلف قبائل دو مختلف طبقے دو مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ اب آپکو بُرا لگے تو معذرت پر میرے نزدیک تو یہی حقیقت ہے۔
دراصل صاحب نو آبادیاتی نظام نے ہمارے جسموں کو نہیں ہماری روحوں کو غلام بنایا ہے، ہماری سوچ کو بیڑیاں پہنائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلامیہ کالج کی جگہ ایچی سن کالج راج کرتا ہے، قومی کی جگہ دفتری زبان مستند ہے اور شلوار کرتے کی جگہ کوٹ پتلون ہے۔اس پر طرہ یہ کہ جب سوچتے ہم اردو اور بولتے انگریزی ہیں تو گویا کوا چلا ہنس کی چال۔ یقین نہ آئے تو کبھی آزما کر دیکھ لیجئے۔ میں تو کم از کم اردو سوچ کے ساتھ انگریزی بول یا لکھ نہیں سکتا، آپ البتہ مجھ سے زیادہ ذہین ہیں سو شائد یہ مسئلہ آپکو درپیش نہ ہو۔ ایسے میں انگریزی کا فقدان صرف ایک زبان سے لاعلمی نہیں رہتا بلکہ بڑھ کر آپکی ایسی خامی بن جاتا ہے جسکے بعد آپ معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہتے۔ نہ اچھی ملازمت ملتی ہے نہ اچھا رشتہ۔ اور تو چھوڑئیے مقامی آفیسر کلب کہ جسکی بدمزہ چائے اور نم دار بسکٹ سے کسی کالج کے گیٹ تلے بنے کھوکے کی چائے بھی بہتر ہوتی ہے، کے دروازے بھی آپکے لئے بند ہو جاتے ہیں۔ گویا زبان نہ ہوئی ایک ہتھیار ہو گیا جسکے ذریعے گورا صاحب اب اپنے بھورے بابو کے ذریعے آپکو دائمی غلامی کا تحفہ دے گیا۔
صاحب ہم شرمندہ قوم ہیں۔ ہم اپنی زبان، اپنی سوچ، اپنے طرز معاشرت، اپنے مذہب، اپنے وجود ہر شرمندہ ہیں۔ مجھے اپنی ڈاڑھی پر شرم آتی ہے تو میری بیوی کو اپنے حجاب پر۔ مجھے اپنے باپ پر شرم آتی ہے تو میری اولاد کو مجھ پر۔ ہم بیحد شرمندہ قوم ہیں صاحب۔
ایک طعنہ اور سنیے۔ ہم جاہل و گنوار تو ہیں ہی، کنویں کے مینڈک بھی ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے بس ہم فقط اپنے حصار میں قید ہیں۔ ہاں حضور درست ارشاد فرمایا۔ ہم اس قید سے نکلیں بھی تو کیسے کہ ہمارے لئے مقدم اپنی نسل کو بچانا ہے بجائے کسی چوپائے، پرندے یا کیڑے کی نسل کو۔ ہم اس قید سے نکلیں بھی تو کیسے کہ ہمارے لیے مقدم اپنے آس پاس کا ماحول، اپنی زندگی اور اپنے وطن کے مسائل ہیں نہ کہ امریکی، کسی یورپی قوم یا کسی ایسی قوم کے مسائل کےجسکو شائد یہ بھی نہیں پتہ کہ پاکستان نام کا ملک افریقہ میں ہے یا ایشیا میں۔ ہمارے لیے لائقِ توجہ ٹھہری زرداری اور نواز شریف کی سیاست بجائے اوبامہ یا گورڈن براؤن کے بیانات کے۔ ہمارے لئے اہم مسئلہ اس زمین پر پانی، بجلی، گیس کا ہے بجائے مریخ یا چاند پر پانی یا ہوا کے۔ بس حضور بس۔ ہم اسی دنیا میں ٹھیک ہیں۔ یہی دنیا جو کمپیوٹر کی پندرہ انچی سکرین سے باہر کی دنیا ہے۔ یہ دنیا جو سی این این یا بی بی سی کے تبصروں سے باہر کی کٹتے سروں، بہتے لہو اور جلتے گھروں کی دنیا ہے۔ ہم تو اسی دنیا کے باسی ہیں اور اسی دنیا پر ہی لکھ سکتے ہیں۔
ایک قصہ اور بھی۔ کہتے ہیں کہ دنیا کو بلاگستانِ اردو کا علم ہیں نہیں، یہاں تک کہ وطنِ عزیز کے لوگ بھی نہیں جانتے۔ وجہ شائد گوگل میں اردو نتائج کی کمی بتاتے ہیں۔دیکھو صاحبو پیاسا کنویں کے پاس آتا ہے کنواں پیاسے کے پاس نہیں۔ جن لوگوں کو اردو کی چاہ ہے وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر آپ تک پہنچ ہی جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اردو ویب سائٹس پر زیادہ آمد بیرونِ ملک رہائش پذیر ہموطنوں کی ہوتی ہے۔ اب جو صاحب دن میں چند لمحے کمپیوٹر کی سکرین کے آگے بیٹھیں اور اس مختصر وقت میں بجلی جانے کا بھی ڈر ہو اور دیگر کئی اہم کام بھی سر انجام دینا ہوں تو وہ آپکا بلاگ کیوں پڑھیں کہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں تک رسائی زیادہ آسان ہے۔ ہاں اگر آپ اچھے معیار کی کوئی متعلقہ بات لکھیں گے تو لوگ ضرور پڑھیں گے بلکہ اوروں کو بھی پڑھائیں گے۔ رہی بات گوگل کی تو یہاں مقدار کی بات آتی ہے، ذرا اردو میں کوئی چیز کھوجئے، آپکو بے تحاشہ صفحات فارسی کے ملیں گے کہ وہ لوگ اپنی زبان استعمال کرتے ہیں۔ شائد وجہ یہ ہے کہ ایران آج تک کسی ملک کی نوآبادیاتی کالونی نہیں رہا اور آج بھی اپنے طرزِ معاشرت و حکومت کو لیے، مغرب کے سامنے سینہ سَپر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انکے ہاں سے آنے والے پوسٹ ڈاکٹوریٹ حضرات بھی انگریزی سے بس کام ہی چلاتے ہیں کہ وہاں کی جامعات میں اعلٰی تعلیم بھی فارسی ہی میں دی جاتی ہے۔ تو بھیا آپ بھی اردو لکھیں اور لکھائیں، گوگل خود بخود اردو نتائج دینا شروع کر دیگا۔
صاحب دنیا بھلے ایک عالمگیر گاؤں یا گلوبل ویلج بن گئی ہو، لوگ گلوبل نہیں ہوئے۔ یہ بات ضرور ہے کہ سرمایادارانہ نظام نے دنیا کے ہر حصے میں میک برگر یا کے ایف سی کا مرغِ مسلّم تو پہنچا دیا ہے لیکن اب بھی لوگ بندو کے کباب، پھجے کے پائے یا کراچی بریانی کھانا تو نہیں بھولے نا؟ پھر یہ اردو انگریزی کی بحث کو ہم تو نہیں سمجھے۔ صاحب یہ دنیا اور، وہ دنیا اور۔ یہ عوام کا چلن وہ خواص کا شیوہ، یہ گلی کوچے اور تھڑے کی دنیا وہ ڈرائنگ روم کی یخ بستہ فضا، یہ پرولتاریوں کی زبان وہ اشرافیہ کا شغل۔ نہ صاحب نہ ہم لنڈورے ہی بھلے۔ جن صاحب کو اپنی انگریزی کی مشق کا زیادہ شوق ہو وہ کسی پاکستانی یا ہندوستانی ٹی وی چینل پر ملازمت کر لیں کہ وہاں ایسے مواقع بسیار ملیں گے۔” یُو نو یہ آپکے کیرئیر کیلئے بھی بہت پروڈکٹیو ہو گا ۔۔۔” یہ اور بات کہ شائد آپ career کے ہجے carrier کر کے اپنی انگریزی دانی پر خوش ہو جاتے ہوں!!!
شکریہ دریچہ
سب سے پہلے تو دریچہ آپکا شکریہ کہ آپ نے مجھے ٹیگ کیا۔ مجھے جیسے نکمے بلاگر کیلئے بڑی عزت افزائی ہے۔ اب چونکہ یہ کھیل یقیناً ختم ہو چکا ہے تو میں آگے کسی کو ٹیگ نہیں کرتا۔ ویسے بھی چونکہ کچھ مصروفیت اور کچھ اپنی سستی کی وجہ سے میں دنیائے بلاگنگ سے ذرا دور دور ہی ہوں اور غالباً کئی نئے چہرے آ گئے ہیں کہ جنکا مجھے پتہ ہی نہیں۔ ہاں البتہ دو بلاگ بتا دیتا ہوں جو آجکل میں کم از کم ہر تیسرے چوتھے دن پڑھنے (یا دیکھنے) کی کوشش کرتا ہوں نہ چاہتے ہوئے بھی۔ وہ یہ اور یہ ہیں۔
آنے والے دنوں میں کچھ تحاریر لکھنے کا سوچ رکھا ہے جسمیں میرے نئے موبائل فون کا تعارف، کچھ خبریں آسٹریلیا کی اور ایک نیا سلسلہ ء تحاریر اُن صاحبان کیلئے کہ جو بیرون ملک تعلیم کا سوچ رہے ہیں، وغیرہ شامل ہوں گے انشااللہ۔ بشرطِ زندگی پھر ملاقات ہو گی۔
کینگرو کے دیس میں
ہاں صاحب آپکی ناراضگی بجا ہے لیکن کیا کیجئے کہ ایک اور سفر درپیش تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ مرحلہ کہ اصل سفر کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی ہے، آج تین ماہ ہونے کو آئے کہ تمام ہوا۔ فدوی آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا سے رقمطراز ہے اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ چین یعنی چائنا کہ ایک تو ہر طرف چینی جاپانی شکلوں کے لوگ ملتے ہیں اور پھر یوں بھی کہ دکانیں چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں۔ خیر یہ چینیوں کا ذکر تو یونہی درمیان میں آ گیا کہ آج کل اگر کسی گفتگو میں چین اور ہندوستان کا ذکر نہ ہو تو بولنے والے کی قابلیت پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ ذکر تو کرنا تھا اس عجیب و غریب جانور کا کہ جسے کینگرو کہتے ہیں۔ یہ دوپایہ تو یونہی مشہور ہو گیا وگرنہ آسٹریلیا کی سرزمین تو اور بھی کئی اقسام کے جانوروں اور پرندوں کا گھر ہے کہ جو شائد اور کہیں نظر نہیں آتے۔ کم از کم سرِ راہ تو بالکل نہیں۔ یہاں تو یہ حالت ہے کہ باورچی خانے کی کھڑکی میں میگپائی (کہ جسے آپ بلیک اینڈ وائٹ کوا کہہ سکتے ہیں) آ کر بیٹھ جائے گا تو گھر سے نکلنے پر انواع و اقسام کے طوطے آپکا استقبال کریں گے۔ یونیورسٹی کے درختوں پر سرِ شام ایک ننھا منا سا جانور جو غالباً پوسم ہے، نظر آئے گا تو جھیل کنارے بطخیں آپکو گھیر لیں گی۔
آسٹریلیا کی کہانی بھی عجیب ہے۔ یوں سمجھیے کہ یہ دراصل ایک بہت بڑی جیل تھا جہاں سلطنتِ برطانیہ کے بدنامِ زمانہ مجرموں کو سزا کاٹنے بھیجا جاتا تھا کہ اس جزیرے سے فرار کا تصور ہی محال تھا۔ وقت گزرنے پر ان مجرموں اور جیل کے ملازمین وغیرہ نے یہیں آباد ہونا شروع کر دیا۔ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور امریکیوں کی طرح کہ جنہوں نے سرخ ہندیوں کا صفایا کر کے جدید امریکہ کی بنیاد ڈالی تھی، ان گوروں نے بھی 42000 سال سے آباد مقامی لوگوں (یعنی aboriginals/ aborgine) کی جگہ لی جنکی تعداد میں گوروں کے آنے کے بعد بڑی تیزی سے کمی آئی اور جو شائد تا حال جاری ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی آسٹریلوی وزیرِ اعظم نے ان مقامیوں سے مسروقہ نسلوں کی بابت معافی مانگی جسے میڈیا میں بڑی پذیرائی ملی۔ یہ الگ بات کہ ان مقامیوں کی نسلیں اب بھی اداس ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے ان لوگوں کی اکثریت ان پڑھ ہے، شدید غربت کی زندگی گزار رہی ہے، شراب، جوئے اور تمباکو میں لت پت ہے اور گم ہوتی زبانوں کی صورت اپنا صدیوں پرانا ورثہ کھو رہی ہے۔
قطع نظر اس سے کہ آسٹریلوی مجرموں کی نسل سے ہیں، امریکہ کے حامی ہیں یا شراب کے رسیا ہیں، مجھے یہ لوگ اچھے لگے۔ کھیلوں کے بے انتہا شوقین ہیں، عام زندگی میں کھلے ڈلے سے ہیں اور تصنع پسند نہیں۔ یونیورسٹی کے پروفیسر بھی سوٹ بوٹ کی جگہ آپکو برمودا یا پون شارٹس (یعنی ایسی پتلون جو گھٹنوں سے تو نیچے لیکن ٹخنوں سے اوپر ہو) میں نظر آتے ہیں اور برابری کی سطح پر آپ سے بات کرتے ہیں۔ شہر کے وسط میں آپکو بھکاری بھی دکھائی دیں گے جو آپ سے بڑی تمیز سے پیسے مانگیں گے اور بہانہ ایک ہی کہ بس کی ٹکٹ خریدنا ہے۔ آپکے انکار پر شکریہ ادا کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔
میری یہاں آمد پی ایچ ڈی کے سلسلہ میں ہے۔ ترقیاتی علوم (development studies) کا میدان ہے کہ جسمیں ناچیز غوطے کھا رہا ہے۔ آسٹریلوی قومی جامعہ (ANU) تحقیق کے اعتبار سے دنیا کی مانی ہوئی جامعات میں سے ایک ہے۔ ایسا کچھ نہیں جو پاکستان کی جامعات میں نہ ہو لیکن ماحول ایسا ہے کہ بندہ نہ کرتے کرتے بھی کچھ کر ہی لیتا ہے۔ پاکستانی طالبعلم خاصی تعداد میں ہیں۔ زیادہ تر آس-ایڈ (aus-aid) کے وظیفے پر ہیں گرچہ میں ایچ ای سی کا وظیفہ خوار ہوں۔ کافی لوگ اپنے خرچ پر بھی ہیں کہ کینبرا میں چھوٹی موٹی نوکری آسانی سے مل جاتی ہے۔ طلباء کے علاوہ بھی پاکستانی خاصی تعداد میں ہیں اور میرے یورپ کے تجربے کے برعکس زیادہ تر پڑھے لکھے اور خوشحال ہیں۔ مساجد بھی ہیں اور حلال گوشت کی دکانیں بھی البتہ باحجاب خواتین خال خال ہی دکھائی دیتی ہیں۔ سنا ہے کہ سڈنی اور میلبورن میں مسلمانوں کی بڑی آبادیاں ہیں جو زیادہ تر عربی بالخصوص لبنانی ہیں۔ یونیورسٹی میں البتہ باحجاب خواتین کافی دکھائی دیتی ہیں جو تقریباً ساری ہی ملیشیاء یا انڈونیشیاء سے پڑھنے آتی ہیں۔
اگر زبان اور گوری رنگت کو نکال دیا جائے تو کینبرا شائد ہی اسلام آباد سے مختلف ہو۔ سرکاری دفاتر، سبزہ، موسم آپکو بے اختیار اسلام آباد کی یاد دلا دیتے ہیں۔ یہ شہر بھی نوخیز ہے اور بالخصوص دارالحکومت بننے کیلئے آباد ہوا تھا۔ کرایے بھی خاصے ہیں کہ گھر کم ہیں اور لوگ زیادہ، بالخصوص طالبعلموں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ کینبرا شہر ایک مصنوعی جھیل کے ارد گرد آباد ہے اور گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ چونکہ یہ قرہ ارض کے southern hemishphere میں شامل ہے اسلئے جون، جولائی میں سردیاں پڑتی ہیں۔ برف تو پورے ملک میں صرف چند ایک پہاڑوں پر ہی پڑتی ہے لیکن ٹھنڈ البتہ کافی ہو جاتی ہے۔ اسوقت بھی لحاف اوڑھے ہیٹر چلا کر بیٹھا ہوں گرچہ اپنی پاکستانی بھائیوں کا دل جلانا ہرگز مقصد نہیں۔ بہرحال فی الحال تو اتنا ہی، کوشش رہے گی کہ کم کم ہی سہی کچھ نہ کچھ لکھتا رہوں کہ اب گھر پر بھی انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے اور کچھ اندازہ شب و روز کا بھی ہونے لگا ہے۔
اللہ میاں کا ورکنگ سٹائل
گئے دنوں کی بات ہے، ایک مذہبی کتاب میں پڑھا تھا کہ ہر خیر اور شر کو پیدا کرنے والی ذات اللہ میاں کی ہے۔ اسوقت تو چونکہ مولوی صاحب کے مولا بخش کا خوف سوچنے سمجھنے کی خواہش پر حاوی تھا، اسلئے میں نے بھی رَٹ کر سنا دیا۔ پھر برسوں بیت گئے، مجھے وہ رٹا بھی بھول گیا اور اسکا ترجمہ بھی۔ اب چند دن پہلے یہ بات پھر کہیں نظر سے گزری تو گویا دماغ میں کُھب سی گئی۔
اس بات کو تو چلو مان لیا کہ ہر خیر کا پیدا کرنے والا اللہ میاں ہی ہے، شر کو اسکی تخلیق کیسے مانیں؟ کیا دنیا کی ہر برائی اللہ میاں کی پیدا کردہ ہے؟ کیا یہ ساری قتل و غارت، بیحیائی، چوری، ظلم، نا انصافی اللہ میاں نے پیدا کی؟ ایک لحاظ سے دیکھیں تو ہاں، کیونکہ چونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے تو اچھی یا بری، ہر چیز اسی کی تخلیق ہے۔ بات سادہ سی ہے لیکن اتنی بھی نہیں۔ اللہ تعالٰی اپنی مخلوق سے محبت کرتے ہیں، ٹھیک؟ صاف بات ہے، کیا آپ اپنی کسی تخلیق سے محبت نہیں کرتے؟ ایک شاعر اپنی شاعری سے، ایک مصنف اپنی تصنیف سے، ایک سائنسدان اپنی ایجاد یا دریافت سے، ایک مصور اپنی تصویر سے، ایک ماں اپنے بچے سے، ایک استاد اپنے ہونہار شاگرد سے محبت نہیں کرتا؟ اگر یہ سب اپنی تخلیقات سے، اپنی ان تخلیقات سے کہ جنکا وجود مستعار لی ہوئی صلاحیتوں سے وجود میں آتا ہے، محبت کرتے ہیں تو اللہ میاں اپنی مخلوق سے محبت کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا کہا؟ مستعار لی ہوئی؟ ہاں یقیناً مستعار لی ہوئی ہی تو ہیں۔ ایک مصور کی جن انگلیوں نے وہ شاہکار تصویر بنائی، کیا وہ انگلیاں اس نے خود بنائی تھیں؟ کیا ماں نے بچہ جننے کی صلاحیت خود ہی پیدا کی تھی؟ کیا سائنسدان کا دماغ اسکی اپنی ایجاد ہے؟ نہیں، بلکہ یہ سب تو قدرت کا عطیہ ہیں اور ہمیں مستعار دی گئی ہیں اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے کہ خود جسکی وجہ سے ہم ہیں، ہماری reason to exist ہے۔ ورنہ ہمارا وجود چہ معنی؟ کائنات کی دوسری مخلوق کم تھی کیا؟ اس پوری دنیا میں جتنے انسان بستے ہیں، اتنی تعداد کے برابر حشرات الارض تو صرف ایک کلومیٹر (یا شائد ایک مِیل) میں ہی موجود ہیں۔ پھر باقی جانور، پیڑ، پودے، جِن، فرشتے، ان سب کا تو شمار ہی نہیں۔
خیر بات یہ نہیں ہو رہی کہ حضرتِ انسان کیوں تخلیق ہوا۔ اس موضوع پر سینکڑوں عالم فاضل لوگوں نے ہزاروں صفحات سیاہ کیے ہیں، آپ وہ پڑھ لیں یا پھر انتظار کریں اس دن کا کہ میں بھی ایک ایسا مضمون لکھوں۔ یہاں تو بات یہ ہو رہی ہے کہ خیر کیساتھ شر بھی اللہ میاں کی تخلیق ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کیوں ہے۔ چلیں یہ بات بھی مان لی کہ شر بھی اللہ میاں نے ہی پیدا کیا۔ اب اگر یہی حقیقت ہے تو اس شر کے امین کیوں برے ہوئے؟ مطلب یہ کہ برے لوگ کیوں برے ہوئے؟ وہ تو سیدھے سبھاؤ اس چیز کے حامل یا carrier ہیں کہ جو اللہ میاں کی تخلیق تھی اور جسے آخر کہیں تو رکھا جانا تھا، سو وہ برے لوگوں میں رکھ دی گئی۔۔۔۔لو جی، ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اگر برے لوگ صرف اپنی ڈیوٹی نبھا رہے ہیں، اپنی وجہ ء تخلیق سے وفا کر رہے ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر جنت، دوزخ چہ معنی؟ سیدھی سی بات ہے، اللہ میاں نے مجھے پیدا کیا، شر کو پیدا کیا، مجھے اس شر کا گھر بنایا اور بس۔۔۔ پھر میرے لیے دوزخ کیوں؟ یہ کیسا انصاف ہے؟ نہ نہ۔۔۔۔ رُکیے، ٹھہریے، کیا آپ پریشان ہو رہے ہیں؟ چلو اچھی بات ہے، کیونکہ مجھے اس بات پر پریشانی ہوتی اگر آپ پریشان نہ ہوتے۔ کیونکہ یہ سب سوچ کر ہی تو میں بھی پریشان تھا، کافی پریشان کہ آجکل ہمارے اردگرد ہونے والے واقعات پے در پے شر ہیں، خیر کم کم ہی نظر آتی ہے۔ کیا وجہ ہے، یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اگر یہ سب اسکی طرف سے ہے تو کیوں ہے کہ وہ تو اپنی مخلوق سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ وہ اس شر کو ختم کیوں نہیں کر دیتا اور دوزخ کو نابود کیوں نہیں کر دیتا کہ پھر شر کی عدم موجودگی میں دوزخ کا وجود بھی لا یعنی ہے اور پھرجیسے کہانیوں میں ہوتا ہے کہ they all lived happily ever after۔۔۔ خیر پھر اللہ میاں نے مہربانی کی، رستہ دکھایا۔ اور اب میں دردِ زہ میں مبتلا ہو کر یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔۔۔۔
صاحبو یہ حقیقت ہے، اللہ میاں کا بھی ایک ورکنگ سٹائل ہے، جیسے آپکا، میرا، ہم سب کا ہوتا ہے۔ غصہ نہ ہوں، جذباتی نہ ہوں، پہلے میری بات سن لیں، پھر جو جی میں آئے کہہ لیجیے گا۔ ہاں تو بات ہے کام کرنے کے انداز کی۔ میرا انداز بڑا عجیب ہے، مجھ سے صبح نہیں اٹھا جاتا، ایسا کوئی بھی کام جسمیں علی الصبح اٹھنا شامل ہو، مجھ سے شائد کبھی نہ ہو گا۔ بالعموم کام پر آنے والا آخری آدمی میں ہی ہوتا ہوں۔ خیر بات میری نہیں اللہ میاں کی ہو رہی تھی، سو بندہ یہ کہہ یہ رہا تھا کہ ہماری طرح اللہ میاں کا بھی کام کرنے کا اپنا انداز ہے، سٹائل ہے۔ لیکن ایک بڑا بنیادی فرق ہے ہمارے اور اللہ میاں کے ورکنگ سٹائل میں۔ فرق یہ ہے کہ ہم انسانوں کے کام کرنے کے انداز ہماری عادات پر منحصر ہوتے ہیں، جبکہ اللہ میاں کا کام کرنے کا انداز بھی ہم انسانوں ہی کی عادات اور صلاحیتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ آپ شائد کہیں کہ یہ کیا بات ہوئی، اللہ میاں تو بے نیاز ہے، اسے ہماری عادتوں کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی کیا ضرورت، جو کرنا ہے سیدھے سیدھے کر دیں، اتنا لحاظ کیا کرنا، اتنے پاپڑ کیا بیلنا؟
ارے۔۔۔ مجھے ایک کہانی یاد آ گئی جو مکمل تو یاد نہیں سو کچھ خلاصہ ہی بیان کر دیتا ہوں۔ بات تو اللہ میاں اور ہم انسانوں کی ہو رہی ہے لیکن کہانی ہے ایک خاص قسم کے جِن کی، جی آپ درست سمجھے، کہانی ہے ہمارے آس پاس، دائیں بائیں کثرت سے موجود جنابِ شیطان کی۔ کہتے ہیں کہ ایک بزرگ سرِ بازار شیطان سے ملے تو گلہ کیا کہ وہ ہر وقت زمین میں فساد پھیلاتا ہے۔ شیطان نے کہا سَر جی میرا تو کوئی قصور نہیں ہوتا، واقعات خود ہی ایسا رُخ اختیار کر جاتے ہیں۔ اپنی بات کے عملی ثبوت کے طور پر شیطان نے پاس پڑی پرات میں انگلی ڈبوئی اور دیوار پر مل دی۔ اس پرات میں دراصل چینی کا شیرہ تھا جو دکان پر بیٹھا حلوائی جلیبیاں تلنے میں استعمال کر رہا تھا۔ جہاں شیطان نے شیرے سے لتھڑی انگلی ملی تھی وہاں ایک مکھی آ کر بیٹھ گئی جسے کھانے کو ایک چھپکلی لپکی۔ چھپکلی کو دیکھ کر حلوائی کی بلی بھاگی آئی لیکن پیر پھسلا تو حلوائی کی گرم گرم تیل سے بھری کڑاہی میں جا گری۔ حلوائی نے جلدی میں کڑاہی اُلٹی توسارا تیل پاس بیٹھے کتے پر گر گیا، کتا تو موقع پر فرائی ہو گیا لیکن اسکے مالک نے غصے میں آ کر حلوائی کو قتل کر دیا۔ دوسرے دکاندار موقع پر اکھٹے ہو گئے اور کتے کے مالک کو بھی مار ڈالا۔ شومئی قسمت کہ مرنے والا ایک سپاہی تھا جسکی فوج شہر سے باہر عارضی پڑاؤ ڈالے ہوئی تھی ۔ لشکر کو اطلاع پہنچی تو فوج نے شہر پر ہلہ بول دیا اور انتقاماً پورے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ شیطان کی اس حرکت کوآجکل غالباً سٹراٹیجک پلاننگ کہیں گے۔۔۔ قرآن مجید کی ایک آیت کے مطابق ہم سب سٹراٹیجک پلان بناتے ہیں لیکن سب سے بہتر planner یا منصوبہ ساز خود اللہ میاں کی ذات ہے!
خیر بات یہ ہو رہی تھی کہ اللہ میاں اپنا ورکنگ سٹائل ہمیں دیکھ کر ہی اختیار کرتے ہیں۔ یعنی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ہم لوگوں میں کسی بھی بات یا phenomenon کو سمجھنے، سیکھنے یا برداشت کرنے کی صلاحیت کتنی ہے۔ آسان سی مثال موت کی ہے۔ ہم سب نے مرنا ہے، اس دنیا کا مختصر قیام ختم ہونا ہے اور اُس دنیا میں قدم رکھنا ہے جو دائمی ہے۔ اب یہاں سے وہاں کا یہ ایک قدم موت کے پُل پر چل کر ہی ممکن ہوتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ آخر موت کی کیا ضرورت تھی، جس شخص کا قیام ختم ہو جاتا، اللہ میاں سیدھے سبھاؤ اس کو اُٹھا لیتے، ہر سہانی صبح ہمیں اطلاع ملتی کہ فلاں فلاں شخص غائب ہے یا ایسا ہی کچھ۔۔۔ لیکن کیا یہ کچھ عجیب نہ ہوتا؟ کیا ہمارے پانچ حواس یا senses کہ جنکی صلاحیت انتہائی محددو ہے اور جنکا کام ہمیں اس عارضی دنیا میں survive کرنے کیلئے محدود معاؤنت فراہم کرنا ہے، ایسے واقعات کو قبول بلکہ ہضم کر پاتے؟ کیا کہا؟ ہمارے حواس بہترین ہیں؟ ارے بھائی اگر سورج میرے انگوٹھے کے ناخن کے پیچھے چھپ جاتا ہے تو کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ میرے ناخن کی پور سورج سے بڑی ہے؟ کیا میں حرارت کو دیکھ کر محسوس کر سکتا ہوں یا تار میں دوڑنے والے کرنٹ کو سن، دیکھ یا چکھ سکتا ہوں؟ مثالیں تو ہزاروں ہیں لیکن غیر ضروری سو اصل بات کی طرف آتے ہیں۔
جب ہمارے پانچ حواس یا senses اس دنیا میں ہونے والی بہت سی باتوں کی نہیں سجھ سکتے تو اللہ میاں یقیناً یہ چاہتے ہیں کہ اس دنیا کو یوں چلائیں جو کم از کم کسی حد تک تو ہماری محددو سمجھ میں آئے، ہمارے دائیں بائیں وقوع پذیر عوامل کسی نہ کسی حد تک تو ہمارے حواس کی jurisdiction کے اندر ہوں۔ بس یہی ہے وہ بات کہ جسکی وجہ سے اللہ میاں ایسا ورکنگ سٹائل اپناتے ہیں جو ہم سب absorb کر سکیں۔ کوئی مرتا ہے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ صاحب اِس دنیا سے اُس دنیا کو سدھار گئے ہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ دل نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، گردے کمزور تھے یا سر پر چوٹ لگی تھی، غرض کوئی بھی ایسی وجہ کہ جو ہم انسانوں کی سمجھ میں آسکے۔
اب مجھے یہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ ہر خیر اور ہر شر کا پیدا کرنے والا اللہ میاں ہے اور اس بات کا مطلب بھی کہ ہم لوگ اپنا مکر یا پلاننگ کرتے ہیں اور اللہ میاں اپنی پلاننگ کرتے ہیں اور یقیناً اللہ میاں کی پلاننگ بہتر ہوتی ہے۔وہ کیسے؟ سیدھی سی بات ہے، پراجیکٹ منیجمنٹ یا پلاننگ ایک مضمون کے طور اکثر سوشل سائنسز میں پڑھایا جاتا ہے اور عملی زندگی میں ہم سب کا واسطہ اس سے کسی نہ کسی طور پڑتا ہے، اس میں منیجر اپنی محدود معلومات کی بنا پر فیصلے کرتا ہے، وہ calculated risks لیتا ہے یعنی بالکل ہی تُکے نہیں مارتا۔ اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ کسی بھی کمپنی میں اعلٰی عہدوں پر مامور عملے کو کہ جنھیں اکثر ایگزیکٹیوز (executives) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، باقیوں کی نسبت کئی گنا زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے، یہ پیسہ اس بات کیلئے نہیں ہوتا کہ وہ دن میں کتنا کام کرتے ہیں بلکہ اس بات کیلئے ہوتا ہے کہ وہ فیصلوں کی گھڑی میں اپنی محدود معلومات یا limited information کے باوجود کیسے اور کتنے اچھے فیصلے لیتے ہیں۔ اب اگر ہم سب کو مکمل معلومات یا perfect information ہو تو پھر تو ہم سبھی اچھے فیصلے لے سکتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب انسان اپنی محدودو صلاحیتوں اور محدود معلومات کے باوجود اچھے فیصلے لے سکتا ہے تو اللہ میاں کیوں نہیں کہ جنکی معلومات بھی مکمل ہیں اور صلاحیتیں بھی حواسِ خمسہ کی محتاج نہیں۔
اب یہ بات تو صاف ہو گئی ہے کہ شر کا وجود اس دنیا کے چلانے کو ضروری ہے۔ ہمارا ہر ہر عمل کہیں نہ کہیں ردعمل پیدا کرتا ہے اور یوں گلشن کا کاروبار چلتا ہے۔ اسی لیے تو ہمارے پیارے نبیۖ نے کہا کہ بُرے کو برا مت کہو، برائی کو برا کہو۔ یہی بات تو امام غزالی کی لامحدود رجائیت پسندی یا optimism کی وجہ ہے۔ ہر "ہونے” کی۔۔۔ چاہے وہ واقعہ ہو یا انسان، جانور ہو یا شیطان۔۔۔ وجوہات یا valid reasons ہوتی ہیں اور اسکا کردار ہوتا ہے۔ یوں ہی جیسے کبھی گاڑی کا بونٹ اٹھا کر دیکھیے تو آپکو بیشمار پرزے نظر آئیں گے۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا کام ہے اور اسکے بغیر گاڑی کے چلنے میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ پٹرول جلتا ہے، سپارک پلگ اسے جلاتے ہیں اور پلگ کا یہ شعلہ بیٹری سے آنے والے کرنٹ کا محتاج ہے۔ سلنڈر اپنے پیٹ میں ہونے والے اس دھماکے کو پسٹن کو منتقل کرتا ہے جو کرینک شافٹ کے ذریعے پہیوں کو گھماتا ہے۔ جب ایک چھوٹی سی گاڑی کے چھوٹے سے انجن میں موجود ہزاروں چھوٹے چھوٹے پرزے کسی وجہ سے وہاں موجود ہیں تو ہم اور ہمارے ارد گرد کی ساری کائنات، ساری مخلوق اور سارے واقعات بے وجہ کیسے ہو گئے؟ یوں سمجھیے کہ اللہ میاں تو بس چابی گھما کر انجن سٹارٹ کرتے ہیں، پھر اسکی ساری مخلوق اپنے اپنے کام میں لگ جاتی ہے۔
ایک سوال تو تشنہ رہ گیا۔ اگر بہ قولِ اقبال ؎ ” نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں، کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں” تو پھر دوزخ کیوں ہے؟ جب میں وہی کر رہا ہوں کہ جسکے لئے میں پیدا کیا گیا ہوں تو اس بات میں میرا کیا قصور، میرے لیے سزا کیوں؟ صاحبو سچی بات بتاؤں تو مجھے نہیں پتہ۔۔۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ چونکہ اللہ میاں کی صلاحیتیں ہم انسانوں کے بر عکس لامحدود ہیں، اسے کسی بھی چیز بشمول برائی یا شر کے، "ہونے” یا exist کرنے کی محتاجی نہیں۔ ہمیں اسنے ہر منیجر کی طرح محدود صلاحیتیں دی ہیں، اور فیصلے کا اختیار بھی دیا ہے۔ ایسا فرشتوں یا جانوروں کے کیس میں نہیں۔ انکے برعکس انسان intelligent being ہے۔ مزے کی بات تو یہ کہ کوشش کر کے یہ صلاحیتیں بھی بڑھائی جا سکتی ہیں، اتنی زیادہ کہ پھر انسان اناالحق کا نعرہ لگاتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے جزا بھی ہے اور سزا بھی۔۔۔ آپکا کیا خیال ہے؟
11 comments