کوسووا مبارک
آپ سب کو ایک نیا اسلامی یورپی ملک مبارک ہو۔ آپ سب کو کوسووا کی آزادی مبارک ہو۔۔۔۔
دہشت کے سیب
عجیب بے تُکا سا عنوان ہے! اسکا بھلا کیا مطلب ہوا؟ دہشت گردی ہوتا، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہوتا یا زیادہ سے زیادہ دہشت کا پھل ہوتا۔۔۔۔ خیر آگے چلتے ہیں۔
صاحبو علمِ معاشیات یا اکنامکس سے میرا پہلا واسطہ اسوقت پڑا جب میں یونیوورسٹی میں زراعت پڑھ رہا تھا۔ اسوقت مجھے یہ سائنس ایک آنکھ نہیں بھائی تھی اور میں یہ بھی سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر اسکا زراعت جیسے مضمون کیساتھ کیا تعلق ہے۔ اس ضمن میں ایک سچا لطیفہ بھی یاد آ گیا سو گوش گزار کیے دیتا ہوں۔ اسی معاشیات کا امتحان تھا، ہم سب سر جھکائے Demand اور Supply کے معمے حل کر رہے تھے کہ مجھے اپنے پیچھے بیٹھے دوست کی سرگوشی سنائی دی "اوئے سنو، یہ فلاں نمبر سوال وہی سیب والا ہے نا؟” چند لمحے تو مجھے سجھنے میں لگے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے، لیکن جب سجھ آئی تو جی چاہا کہ زور زور سے قہقہے لگاؤں۔ وہ تو خیریت رہی کہ اپنی اس خواہش پر میں نے فوراً قابو پا لیا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ ہم نے معاشیات کا ایک قانون پڑھا تھاDiminishing Marginal Utility کے نام سے۔۔ لبِ لباب اسکا کچھ یوں ہے کہ جب آپ کوئی کام اپنی کسی خواہش کو پورا کرنے کیلئے کرتے ہیں تو اس کام میں آپکی خواہش کو پورا کرنے کی صلاحیت کو utility یا افادیت کہا جاتا ہے۔ کسی بھی کام یا چیز میں یہ صلاحیت محدود ہوتی ہے اور اس کام کوبار بار کرنے سے بتدریج اسکی افادیت کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ قانون سمجھاتے وقت استاد حضور نے ایک سیب کی مثال دی تھی کہ ایک محدود وقت میں کھانے پر پہلا سیب آپکو خاصا لذیذ لگے گا، بہ زبانِ معاشیات اسکی افادیت بہ درجہ اتم ہو گی۔ اسی وقت دوسرا سیب کھائیے تو وہ پہلے سے شائد کچھ کم لذیذ لگے اور تیسرا اس سے بھی کم۔ ایک موقع پر سیب کے نام سے ہی آپ کو قے ہونے لگے گی گویا اس عمل کی افادیت منفی ہو چکی ہو گی۔ یہی سیب تھا جسکی بابت میرا دوست استفسار کر رہا تھا۔
دوستو، اس وقت بیوقوفانہ حد تک سادہ نظر آنے والے اس معاشیاتی قانون سے زندگی میں بار بار واسطہ پڑیگا، اسکا اندازہ مجھے ہرگز نہیں تھا۔ اسی قانون کو سامنے رکھ کر مجھے دینِ اسلام کی یہ بات سمجھ آئی کہ کیوں اسلام میں مقدار کی نہیں معیار کی اہمیت ہے اور کیسے ایک شاہ کے صدقہ کیے ہزاروں اونٹوں سے ایک فقیر کا صدقہ کیا گیا دودھ کا آدھا پیالہ افضل ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی اس قانون کی ہماری آج کی زندگی میں اہمیت کی۔ حضور آپ خود سیانے ہیں، باقی چیزوں کا حساب آپ خود لگا لیں کہ اس قانون کا اطلاق کہاں کہاں ہوتا ہے، مثلاً ایک شخص کی پاس پہلے ایک گاڑی ہے تو وہ اس کیلئے کتنی مفید اور نتیجتاً اسے کتنی عزیز ہو گی، جب دو ہوں تو افادیت کتنی ہو گی اور دونوں کتنی عزیز ہوں گی اور اگر بہت سی ہوں تو کیا صورتحال ہو گی۔ عقلمند خواتین غالباً اسی قانون کو مدِ نظر رکھ کر شوہروں کو دوسری شادی نہیں کرنے دیتیں۔قصہ مختصر ذرا سوچیے تو وہ کونسا ایسا شعبہ ہائے زندگی ہے کہ جہاں یہ اصول کارفرما نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ علمِ معاشیات ہمارے رویوں کا کتنا وسیع طور پر احاطہ کرتا ہے۔ ہاں البتہ میرے نزدیک ایک عمل ایسا ہے کہ جہاں یہ اصول پوری طرح ناکام ہو جاتا ہے اور جہاں ہماری عام زندگی میں حد درجہ کار آمد علمِ معاشیات بھی بے بس نظر آتا ہے۔
ابھی علمِ معاشیات کے جس قانون کا میں نے آپ سے ذکر کیا ہے، یہ عام طور پر نو کلاسیکی اکنامکس کے زمرے میں آتا ہے کہ جس کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کا بیشتر حصہ استوار ہوا اور دنیا کی بہت سی معیشتوں نے اس نظام کو اپنایا، مثلاً سارا شمالی امریکہ، مغربی یورپ، جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ۔ اسکے بر عکس دنیا کا کچھ حصہ اس نظام کو نہیں مانتا جسے عرفِ عام میں سوشلسٹ ممالک کہا جاتا ہے۔ ان میں (سابقہ) سویت یونین اور دیگر مشرقی یورپی ممالک، چین، شمالی کوریا اور کچھ لاطینی امریکی ممالک مثلاً کیوبا وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ سوشلزم کا نظام اپنے اندر خاصی کشش رکھتا تھا اس لیے سرمایہ دار ممالک کہ جنکا سرغنہ امریکا تھا، کی پوری کوشش تھی کہ اس نظام کو پھیلنے سے روکا جائے اور یوں دنیا بھر کی دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ممکن ہو سکے، کہ جسکی سوشلزم میں کوئی صورت نہیں تھی۔ اس کشمکش کو سرد جنگ کا نام دیا گیا۔
سویت یونین کی افغانستان پر چڑھائی گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے کے مترادف تھی، امریکا نے افغانوں کی حریت اور پاکستانی عسکری دماغوں کی ذہانت کا پورا فائدہ اٹھایا اور نتیجتاً سویت روس کا شیرازہ بکھر گیا۔سرد جنگ تمام ہوئی، آہنی پردے کے ورے موجود بیشمار مشرقی یورپی ممالک مثلاً مشرقی جرمنی، پولینڈ، یوگوسلاویہ، چیکوسلوواکیہ، اور خود روس نے سرمایہ دارانہ نظام اپنانے کا اعلان کیا اور یوں امریکی اور اسکے ہمنوا ممالک کے تاجروں کیلئے نئی منڈیاں کھل گئیں۔جہاں اس سارے معرکے سے بیشمار تجارتی فوائد حاصل ہوئے، وہیں ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اب جبکہ کوئی دشمن ہی نہیں رہا تھا تو وہ اسلحہ ساز فیکٹریاں کہاں جائیں جو اربوں ڈالر مالیت کی تھیں، وہ ہزاروں کارکن کیا کریں جنکا واحد ہنر اسلحہ بنانا تھااور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی عوام کہ جن کے پیسوں سے یہ سب ہو رہا تھا، سے کس منہ سے ٹیکس وصول کیے جائیں؟
ویسے تو جنگیں ہمیشہ سے ہی کم وقت میں زیادہ منافع کمانے کا ایک ذریعہ رہی ہیں لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ میں اسلحہ سازی ایک بہت منافع بخش اور بہت بڑی صنعت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام جہاں آزاد منڈیوں کی بات کرتا ہے وہیں ان منڈیوں میں ریاستی عمل دخل کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ جہاں دولت کا لامحدود ارتکاز ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے وہیں نو کلاسیکی معاشیات اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ معیشت کا بہترین نظم صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہر انسان اپنی فطری خواہش یعنی افادیت کے بہ درجہ اتم حصول کی کوشش کریگا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ ایک آزاد (یعنی ریاستی عمل دخل سے پاک) منڈی میں تاجر اور خریدار آپس میں اپنی اپنی عقل و فہم اور معلومات کے مطابق سودا کرتے ہیں اور دونوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں اس سودے سے اپنی خواہش (یعنی منافع یا بچت) کو ممکنہ حد تک پورا کرنے کا موقع ملے۔
اسی منطق کیوجہ سے اسلحہ سازی سمیت دیگر تمام منافع بخش صنعتیں مثلاً ادویہ سازی، معدنیات، رسل و رسائل اور توانائی وغیرہ حکومتوں کی گرفت سے نکل کر پرائیویٹ ہاتھوں میں جا پہنچیں اورتاوقت تاجر بتدریج ہر صنعت مثلاً تحقیق، تعلیم، صحت، پینے کا پانی وغیرہ بھی اپنا رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں عالمی بنک، آئی ایم ایف اور اسی قبیل کے دیگر اداروں نے تیسری دنیا میں بھی زبردستی کئی شعبوں کو سرکاری تحویل سے نکال کر تاجروں کے حوالہ کر دیا تھا۔ یقیناً آپ نے پرائویٹائزیشن، ڈاؤن سائزنگ اور اسی طرح کے کئی الفاظ اُس دور میں سنے ہوں گے اور یہ سلسہ اب بھی جاری ہے۔
صاحبو آپ کسی دوست کے گھر میں پانی مفت پینا پسند کرینگے، لاہور کے ریلوے سٹیشن پر شائد دس روپے کی پانی کی بوتل خرید لیں لیکن اگر آپ چولستان کے صحرا میں ہیں اور کئی دن کے پیاسے تو شائد پانی کے چند گھونٹوں کے بدلے آپ اپنی ساری دولت لُٹا دیں۔ یہ وہ وقت ہے جہاں علمِ معاشیات ہماری مدد کرتا ہے۔ چیز وہی ہے یعنی پانی لیکن مختلف مواقع پر اسکی افادیت مختلف ہے۔ کچھ ایسا ہی امریکی اور یورپی عوام کے ساتھ ہوا۔ یہ اقوام affluent nations کہلاتی ہیں۔ یہاں خوراک اور زندگی کی دیگر بنیادی اشیاء نسبتاً سستے داموں ملتی ہیں۔ ان چیزوں پر ایک عام امریکی یا یورپی کی رقم کا بہت کم حصہ خرچ ہوتا ہے۔ پھر بات آتی ہے عیاشی کی۔ شباب تو تقریباً مفت ہے، البتہ شراب پر کافی پیسہ لگ جاتا ہے۔ رہی بات گاڑی، گھر، الیکٹرانکس کی اشیا وغیرہ کی تو ہر شخص کبھی کبھار ہی خریدتا ہے، روز روز نہیں۔ ایسے میں تاجر کمائے تو کیسے؟
انسان جبلی طور پر تو حیوان ہی ہے اور دو بنیادی جذبے ہر انسان میں ہوتے ہیں۔ یہ ہیں خوف اور لالچ۔ اگر ایسا نہیں تو ذرا سوچیے کہ اللہ میاں نے جنت اور دوزخ دونوں کیوں بنائے؟ ایک طرف pull factor کام کرتا ہے تو دوسری طرف push factor یعنی اگر کسی کیلئے جنت کے لالچ تو کسی کیلئے دوزخ کا خوف مقدم ہے۔ ذرا واپس چل کر شروع میں بیان کردہ سیب کی مثال لیتے ہیں۔ آپ پہلا، دوسرا اور شائد تیسرا سیب خرید کر کھا لیں لیکن چوتھا اگر کوئی مفت بھی دے تو آپ نہ لیں۔ لیکن ایک لمحے کلئے غور کیجیئے کہ اگر سیبوں سے آپ کا پیٹ اور دل دونوں بھرے ہوں اور ایسے میں کوئی آپکو زبردستی سیب کھلانا شروع کر دے اور ایسا نہ کرنے کے پیسے مانگے تو آپ کیا کرینگے؟ یقیناً جان بچانے کیلئے آپ اسے پیسے دیں گے۔ بس یہی بات اہم ہے، یہیں پر اوپر بیان کردہ قانون فیل ہو جاتا ہے۔ گاڑیوں، گھروں، شراب، شباب سے پیٹ بھر جانے کے بعد لالچ تو رہا نہیں، سو خوف کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب دہشت کے مارےامریکی عوام جان بچانے کیلئے دھڑا دھڑ ٹیکس دے رہے ہیں، اپنی شخصی آزادی کہ جس کیلئے امریکہ ضرب المثل تھا، کی قربانی دے رہے ہیں اور دیگر بہت سے ایسے کام کر رہے ہیں یا قبول کر رہے ہیں جو وہ بصورتِ دیگر ہرگز ہرگز نہ کرتے۔اب ان کے دیے گئے ٹیکسوں پر جنگیں پنپ رہی ہیں اور اسلحہ ساز کارخانے دن دگنا رات چگنا منافع کما رہے ہیں۔ہماری بدقسمتی کہ دشمن چننے کی قرعہ اندازی میں مسلمان قوم کا نام نکل آیا اور ہم تقریباً گھر بیٹھے بیٹھے بن گئے زیرو سے ہیرو۔۔۔ نہیں، ولن!
ہم کس گلی جا رہے ہیں؟
صاحبو کچھ عرصہ پہلے جب میں نے بلاگنگ شروع کی تو ارادہ تھا کہ صرف خیالات پر لکھونگا، حالات یا واقعات پر نہیں۔ لیکن ایک سوچ لوگوں میں اسقدر عام ہوتے دیکھی ہے کہ مجبوراً ایک عصری موضوع پر لکھنا پڑ رہا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ چند دنوں سے اچھےخاصے پڑہے لکھے لوگوں کی زبانی سنتا آ رہا ہوں کہ ہمارے وطن میں طالبانائزیشن ہو رہی ہے۔ ان میں سے چند صاحبان خوفزدہ ہیں کہ اگر طالبانائزیشن ہو گئی تو ان کو داڑھیاں رکھنا پڑیں گی اور ان کی بیگمات کو برقعے اوڑھنا پڑیں گے۔
طالبانائزیشن کی تعریف مختلف لوگ اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں لیکن ایک بات سب مشترکہ طور پر قبول کرتے ہیں کہ طالبانائزیشن کا ایک لازمی عنصر لوگوں پر اپنا فیصل کردہ اندازِ زندگی یا لائف سٹائل ٹھونسنا ہے۔ بات ایسی غلط بھی نہیں۔ کچھ مذہبی انتہا پسند ایسا چاہتے بھی ہیں۔ وہ سجھتے ہیں کہ داڑھی میں ہی اسلام ہے، داڑھی سے باہر اسلام نہیں۔ البتہ انہیں شائد یہ معلوم نہ ہو کہ اسلام سے باہر تو داڑھی بہرحال ہے ہی۔ یہودی بھی لمبی لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں اور سکھوں کی داڑھیاں تو اور بھی لمبی ہوتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی لطیفہ اسوقت پیش آتا تھا جب میرے یورپی دوست سمجھتے تھے کہ میں مسلمان ہوں تو میری مادری زبان لازماً عربی ہو گی۔ اسی طرح مجھے یقین ہے کہ چند پاکستانی بھی یقیناً حیران ہوں گے اگر کوئی یہودی یا عیسائی اپنی مادری زبان عربی کو قرار دے تو۔ خیر بات ہو رہی تھی پاکستانی معاشرے میں طالبانائزیشن کے پھیلنے پر۔
صاحبو دو برس یورپ میں گزارنے کے بعد میں دو ماہ پہلے واپس آیا تو میرا خیال تھا کہ یہاں پھر سے ایڈجسٹ ہونے میں مجھے کچھ مشکل ضرور پیش آئے گی۔ لوڈشیڈنگ، گرمی، گرد، شور و غل، مذہبی انتہاپسندی، تشدد، جھوٹ، منافقت اور ایسا ہی بہت کچھ ملا کر دیکھیں تو کوئی اچھی تصویر نہیں بنتی۔ لیکن مزے کی بات کہ مجھے ان سب چیزوں کا پھر سے عادی ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ اگر کسی چیز نے زیادہ تکلیف دی تو وہ تھی ماڈرنائزیشن۔ آپ یقین کریں میں سچ کہہ رہا ہوں اور یہ صرف میرا نہیں بلکہ میری بیگم کا بھی مسئلہ تھا۔ ٹی وی کھول کر دیکھا تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ فیشن ٹی وی جو شائد یورپ میں بھی عام نہیں دکھایا جاتا بلکہ خرید کر دیکھنا پڑتا ہے، وہ یہاں مفت دیکھنے کو ملا۔ خیر فیشن ٹی وی تو بدیسی ہے، ابھی چند دن پہلے ایک دیسی چینل پر مقابلہ حسن دکھایا جا رہا تھا، غالباً اپنی ساری تفصیلات سے ساتھ !
لوگوں سے بات چیت کی تو خاصا بدلا ہوا ماحول پایا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں دو سال یورپ نہیں بلکہ شائد افغانستان گزار کر آیا ہوں۔ میں اور میری بیوی تبدیل تو کیا ہوتے، اب اپنی ہی ملک میں پینڈو سے لگتے ہیں۔ میں اپنی تعریف نہیں کر رہا کہ یورپ کی ہواؤں نے میرا کچھ نہیں بگاڑا، میں تو جیسا گیا تھا، ویسا ہی آیا ہوں لیکن اب یہاں شائد بہت کچھ بدل گیا ہے۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی کہانیاں سنتے سنتے آیا تو سڑکوں پر نئی نئی گاڑیاں، گھروں میں سپلٹ ایرکنڈیشنر اور ہاتھوں میں نت نئے موبائل فون دیکھے۔ نہیں یہ غلط ہے کہ ایسا کسی مخصوص طبقے میں ہو رہا ہے۔ میں اپنے دائیں بائیں رہنے والے عام سے، مڈل کلاس، نوکر پیشہ اور کاروباری طبقے کی بات کر رہا ہوں۔ جہاں معاشی خوشحالی آئی ہے وہاں رویے بھی تبدیل ہوئے ہیں، بلکہ بہت تبدیل۔
صاحبو ہمیں طالبانائزیشن سے خطرہ ہے۔ ہمیں ایسی سوچ سے خطرہ ہے جہاں لوگ اپنی مرضی کا اندازِ زندگی دوسروں پر ٹھونس دیں۔ لیکن ایسا تو لکیر کی دوسری انتہا پر بھی ہو رہا ہے۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمیں چاہتے نہ چاہتے ماڈرن کیا جا رہا ہے؟ شائد میں ایک کام انفرادی طور پر نہ کروں لیکن معاشرے کی روش دیکھتے ہوئے کرنے پر مجبور ہوں۔ شائد میری بیوی برقعہ اوڑہنا چاہتی ہے لیکن معاشرے کے بائیکاٹ کے خوف سے ایسا نہیں کر پا رہی۔ یعنی ہم پر ہماری مرضی کے بغیر ایک اندازِ زندگی ٹھونسا جا رہا ہے۔
صاحبو میں تو پریشان ہوں۔ ایک مڈل کلاس عام سی زندگی گزارنے والا پاکستانی جو شائد داڑھی تو نہیں رکھتا لیکن اس کی بیوی پردہ کرتی ہے، جو شائد پانچ وقت مسجد میں تو حاضری نہیں دیتا لیکن مخلوط پارٹیوں میں شرکت نہیں کرتا، وہ کہاں جائے؟ کیا اسکا طالبانائزیشن یا ماڈرنائزیشن میں سے ایک کو چننا لازمی ہے؟ کیا کسی ایک انتہا کو اپنانا ضروری ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر طالبانائزیشن اور ماڈرنائزیشن میں کیا فرق ہے؟ اسلام آباد، کراچی یا لاہور کی کسی برگر فیملی اور سوات، چارسدہ یا وانا کی کسی داڑھی اور برقعوں میں چھپے خاندان میں کوئی فرق ہے، شائد نہیں! یہاں مجھے اپنا ایک پسندیدہ گانا بہت یاد آ رہا ہے "ہم کس گلی جا رہے ہیں، اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ۔۔۔۔۔”
اب اس موضوع پر اجمل صاحب نے ایک سلسہ شروع کیا ہے جو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
میری گردن اور سنہری پٹہ
حضور ایک بات سے تو آپ اتفاق کریں گے کہ آج کے دور میں چند خوشقسمت لوگ ہی اپنے موجودہ حالات، اپنے ماحول اور اپنے طرزِ زندگی سے خوش ہیں، چاہے دیس ہو یا بدیس، گورا ہو یا کالا۔ اکثریت تو بس آنے والے وقت کے بہتر ہونے کی اُمید میں وقت گزار رہی ہے یا پھر ماضی میں رہ کر خوش ہے۔ میرے محلے کے دکاندار کو ہی لیجئے۔ آج کی نوجوان نسل سے نالاں ہے۔ جناب یہ نسل تو بالکل نکمی ہے، کام کاج آتا نہیں، بڑے چھوٹے کی عزت نہیں، سگریٹ پان اور دوسرے نشوں کی رسیا۔ میں نے پوچھابھیا پھر آپ پان سگریٹ کیوں بیچتے ہو؟ ٹھنڈی آہ بھر کر بولا جناب کیا کریں اس لعنت کے بغیر کاروبار میں مندہ ہوتا ہے، کوئی دکان پرہی نہیں آتا۔ ایک اخبار کے مالک سے پوچھا آپ عورتوں کی تصاویر کیوں چھاپتے ہیں؟ بولے اگر یہ نہ کریں تو رسالہ کون خریدے گا؟ ایک سیاستدان سے پوچھا جناب آپ جھوٹے وعدے کیوں کرتے ہیں؟ بولے بھیا آخر ووٹ بھی تو لینے ہیں اگر یہ وعدے نہ کروں تو آپ ووٹ دینگے بھلا؟ میں بغلیں جھانک کر ہی تو رہ گیا۔
ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم سب مجبور ہیں؟ کیا ہماری زندگیوں کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے؟ یہ سب ویسا کیوں نہیں جیسا ہم چاہتے ہیں؟ کم از کم ہماری اپنی زندگی تو ہماری مرضی کی ہو، ساری دنیا کی تو بات ہی جانے دیجیے۔ پھر مجھے بچپن کی سنی ایک کہانی یاد آئی۔ ایک فاقہ حال جنگلی کتے کا موازنہ ایک ایسے شہری کتے سے کیا گیا تھا جسکی زندگی کے سب پہلو قابلِ رشک تھے، سوائے گردن میں بنے اس نشان کے جسکی وجہ مالک کا پہنایا ہوا سنہری پٹہ تھا۔ کبھی کبھی یہ نشان مجھے اپنی گردن پر بھی دکھائی دیتا ہے!
صاحبو تھوڑی بہت کوشش تو میں نے بھی کی تھی اس پٹے کو اتار پھینکنے کی ۔ پتہ نہیں اسمیں کامیابی کتنی ہوئی لیکن ایک فائدہ ضرور ہوا۔ پہلے دنیا جتنی گنجلک لگتی تھی، اب اس سے تھوڑی کم لگتی ہے۔ تھوڑا سا غور کیا تو اس دنیا میں بسنے والے انسان مجھے تین اقسام میں منقسم نظر آئے۔ جی ہاں بالکل ویسے ہی جیسے قدیم (اور گاہے عصری) ہندو معاشرہ چار قسم کے انسانوں میں تقسیم تھا۔ برہمن، کھتری، ویش اور شودر۔ یقین مانیے یہ تقسیم ہر معاشرے میں، ہر دور میں رہی ہے۔ کچھ لوگ ہمیشہ ہر معاشرے میں خاص رہے ہیں۔ آج بھی ہیں۔ انکی نمایاں خصوصیت تو یہ ہے کہ ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں۔ اور بھی باتیں ہیں جو انہیں خاص بناتی ہیں۔ مثلاً کوئی مذہب نہیں رکھتے، پیسہ کمانے کا ہنر جانتے ہیں اور انسانی نفسیات پر گہرا عبور رکھتے ہیں، دل سے نہیں دماغ سے سوچتے ہیں، شہرت سے دور بھاگتے ہیں اسی لیے کم کم جانے جاتے ہیں۔ انکی زندگی کا ایک اور صرف ایک مقصد ہے۔۔۔ پیسہ، پیسہ اور بہت سارا پیسہ!
اب آتے ہیں دوسری قسم کے لوگوں کی طرف۔ انکی سب سے بڑی اور نمایاں خصوصیت یہی ہے، یعنی نمایاں ہونا۔ یہ بھی گرچہ اقلیت ہے لیکن آپکو ہر طرف یہی نظر آئیں گے۔ اخبار، ریڈیو، ٹی وی اور کوئی بھی ایسی جگہ جہاں یہ نمایاں ہو سکیں۔ جی ہاں آپ صحیح سمجھے، یہ اداکار طبقہ ہے، نہیں نہیں صرف وہ نہیں جو ہالی وڈ، بالی وڈ یا ایسی دیگر جگہوں پر آپکو نظر آتا ہے۔ یہ تو اور بھی کئی مقامات پر پایا جاتا ہے مثلاً حکومتوں میں، سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں، تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں، اقوامِ متحدہ، عالمی بنک اور اسی قبیل کے دیگر اداروں میں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہمارے لئے رول ماڈلز (Role Models) ہیں یعنی ایک عام آدمی ان جیسا بننا چاہتا ہے، ان جیسا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، بولنا اور رہنا چاہتا ہے۔ ہمارے طرزِ زندگی (Lifestyles) انکی مرہونِ منت ہیں۔ ہمیں تہذیب یہ لوگ سکھاتے ہیں۔ ہمارا لباس، ہماری زبان، ہمارے رشتے سب پر انکا گہرا اثر ہے۔ یہ لوگ ہمارے دماغ، ہمارے تھنک ٹینک (think tank) ہیں، نئی نئی تحاقیق اور نئی نئی سائنسی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی اصطلاحالات کے ذریعے ہمیں انگشت بہ دنداں رکھتے ہیں۔مختصراً یہ کہ جو چاہے آپکا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ طبقہ بھی بڑا مظلوم ہے۔ انکی عزت، شہرت، دولت سب ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو انہیں یہاں تک لائے ہیں۔اگر یہ وہ سب نہ کریں جو اوپر والوں کا حکم ہے تو آسمان سے زمین پر پٹخ دیے جائیں۔ سکینڈلز، مقدموں وغیرہ میں الجھ کر ہیرو سے زیرو ہو جائیں۔ یہ طبقہ دراصل ان افراد پر مشتمل ہے جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی محنت ، ذہانت ، قسمت اور لوگوں کو متاثر کرنے کی قابلیت کی وجہ سے اوپر بیٹھے لوگوں کا چناو ہوتا ہے۔ چند مجاہد ان میں سے بھی ہر دور میں نکلے ہیں لیکن زہر کا پیالہ پینا پڑا، مجنوں کہلائے اور بستی بدر ہو گئے۔
پھر آتا ہے عام عوام کا طبقہ یعنی میں، شائد آپ بھی بلکہ ہم سب۔ ہمارے خواب ہمارے نہیں اور ہماری زندگی ہماری نہیں۔ہمارے خواب وہ جو اوپر مذکور طبقے نے دکھائے ہیں اور ہماری زندگی ان کے ہاتھ میں جو سب سے اوپر بیٹھے ہیں۔ عرفِ عام میں ہم مڈل کلاس کہلاتے ہیں اور لگ بھگ چھ ارب کی تعداد ہے ہماری۔ فیکٹریوں، کھیت، ہسپتالوں، سکولوں کی رونق ہم اور معیشت کا انجن بھی ہم۔ ہم صارف (consumer) طبقہ ہیں۔ ہم نہ ہوں تو کاروبار بند ہو جائیں، منڈیاں (markets) اجڑ جائیں اور حکومتیں فارغ ہو جائیں۔ لیکن وائےافسوس کہ ہم کمزور ترین طبقہ ہیں اور سب سے زیادہ منقسم بھی۔ اپنے اردگرد کے حالات کو دیکھتے ہیں اور جیسا سب کر تے ہیں ویسا ہم بھی کرتے ہیں۔ اس طرح شائد ہم انفرادی ذمہ داری سے تو جان چھڑا لیتے ہیں لیکن اپنے گلے میں پٹہ پہن کر رسی کسی اور کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ اوپر بیٹھے لوگوں کی نظروں میں ہمارا رنگ، نسل، مذہب کوئی معنی نہیں رکھتا، انکے نزدیک ہم سب شودر ہیں، انسان نما حیوان (gentiles) ہیں, ان کے اشاروں پر ناچنے والے حیوان۔ اور یوں یہ کھیل جاری ہے، تاک دھنادھن تاک کا کھیل!
ہم اور وہ ۔۔۔ منجی کِتھّے پاواں؟؟؟
دوستو میں کنفیوز ہوں، بہت سخت کنفیوز۔ ارے میں نے بڑی محنت، بڑی لگن سے اپنے آپ کو اس دنیا میں پوزیشن (position) کیا تھا۔ ہم کون ہیں؟ ہم کیا ہیں؟ وہ کون ہیں؟ ان سب باتوں کے جواب مجھے فَرفَر یاد تھے بلکہ رَٹے ہوۓ تھے۔ لیکن میں اتنا خوش قسمت نہیں ہوں شايد۔
ہم اکٹھے بیٹھے تھے۔ "تم پاکستانی ہو؟” اُس نے پوچھا۔ ایں؟ ہاں ہوں تو سہی! "میں پاکستان جا چُکا ہوں، اچھا ملک ہے۔ میرے کچھ دوست بھی بن گۓ ہیں وہاں۔” مارکو بولا۔ یہ سن کر میں فوراً ہی اس لمبے تڑنگے جرمن کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اسکا بھی مجھے حیران کرنے کا پورا پروگرام تھا شايد۔”دراصل میں فوج میں تھااور افغانستان جا چکا ہوں”۔ یہ سن کر میں نے مزید غور سے اُسکی طرف دیکھا۔ شايد اسکی آنکھوں میں خون ہو۔۔۔ یا اور کوئی خاص بات جس کو دیکھ کر میں کہہ سکوں کہ یہ قاتل ہے، مسلمانوں کا دشمن۔ بدقسمتی سے مجھے ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ شايد اسلۓ بھی کہہ بقول اُس کے وہ وہاں بارودی سرنگیں صاف کرنے گیا تھا۔ وہ بولتا رہا اپنے بارے میں، اپنے گھر کے بارے میں، عام سی باتیں، عام سے لہجے میں، جیسے ہم سب کرتے ہیں۔ اور میں سوچ رہا تھا "اگر اس شخص سے میری ملاقات محاذ پر ہوتی آمنے سامنے۔۔۔ تو بات کتنی مختلف ہوتی؟” اور آج ہم ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ شرمندگی بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا ” وہ لوگ پاگل ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیۓ تھا، انہیں سزا ملنی چاہیۓ”۔ اُسکا اشارہ اُن جرمن فوجیوں کی طرف تھا جنکی تصاویر میڈیا میں چَھپی تھیں، اِنسانی کھوپڑیوں کے ساتھ۔۔۔
پھر چند دن بعد مجھے ایک اور جھٹکا لگا۔ پراکاش جنوبی بھارت سے ہے اور ہمارے گروپ کے چند لائق ترین ارکان میں سے ایک۔ ایک دن یونہی کارگل کی بات چل نکلی۔ کہنے لگا "پاکستان تو ہار گیا تھا”۔ میں غصے سے بھر گیا۔ ہونہہ۔۔۔ ایک سات کا تناسب تھا، اتنا جانی نقصان ہوا بھارت کا کہ دہائی دینے امریکا پہنچ گئے وہ لوگ۔ پھر مجھے خیال آیا یقیناً یہ سب پراکاش نے اپنے ملکی اخبارات میں پڑھا ہو گا یا پھر اپنے نیتاؤں سے سُنا ہو گا۔ اسکا کیا قصور؟ اور یہی تو نرمان اروڑہ کے ساتھ بھی ہوا ہو گا۔ نرمان سُچا پنجابی ہے۔ بڑا ملنسار، خوش اخلاق۔ اُسنے ایک شام منائی بھارت کے نام۔ بھانت بھانت کے لوگ آۓ۔ قسمت کا مارا میں بھی چلا گیا۔ اُسنے بھارت کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔ خطے کی تاریخ بتاتے بتاتے بولا ” یہ سرزمین ہمیشہ سے حملہ آوروں کی پسندیدہ رہی ہے۔ مسلمان بھی آئے، غزنوی تو سونے کے لالچ میں کئی مرتبہ آیا”۔ یہ سُن کر میرا دل چاہا کہ کھڑا ہوں جاؤں اور زور زور سے چلاؤں "ارے یہ بکواس کر رہا ہے، وہ بُت شکن تھا، لُٹیرا نہیں”۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ میرے اندر ایک جھماکا سا ہوا۔ ارے یہ کیا؟ اتنا فرق، اتنا تضاد۔۔۔ سوچ میں، تاریخ میں، نقطۂ نظر میں؟ پھر مجھے خیال آیا اِسکا بھی کیا قصور ہے، اس نے اپنی درسی کتابوں میں یہی کچھ پڑھا ہو گا۔ میری تاریخ بھی تو مطالعۂ پاکستان کی کتابوں سے شروع ہو کر اُنہی پر ختم ہو جاتی ہے!!!
پھر اُنہی دنوں ایک اور جنگ چِھڑ گئی۔ حزبُ اﷲ نے مار مار کر اسرائیلی فوج کا دھڑن تختہ کر دیا۔ اِس بار کی جنگ مختلف تھی، عرب بہتر ہتھیاروں کے مالک تھے، اُنکے گرینیڈ اسرائیلی ٹینکوں کو چیر کر نہ رکھ دیتے تو حالات کافی مختلف ہوتے۔ خیر اُنہی دنوں ایک کہانی چَھپی، اٹھارہ انیس سالہ ایک نوجوان محاذ پر بھیجا گیا۔ جاتے جاتے ماں کو کہہ گیا "امی وعدہ کریں کہ واپس آؤں گا تو آپ مجھے Playstation (ویڈیو گیم) دِلا دیں گی”۔ وہ کبھی واپس نہ آیا، محاذ پر کام آ گیا۔ یہ پڑھ کر مجھے افسوس تو ہوا لیکن سَچی بات ہے کہ اتنا نہیں۔ وہ اسرائیلی تھا، ایک یہودی۔ اور یہودی مسلمانوں کے دشمن ہوتے ہیں، سازشی، دھوکہ باز۔۔۔
نہیں نہیں ایسا نہیں کہ میں نے جواب نہ ڈھونڈے ہوں۔ کچھ جواب ملے بھی تھے، بہت آسان۔۔۔۔ ارے بھئ سیدھی سیدھی بات ہے۔ ہم مسلمان، وہ کافر۔ ہم پاکستانی، وہ بدیشی، ہماری چمڑی کالی، اُنکی گوری۔ چلو جی گَل مُکی مٹی پاؤ، میں نے سوچا۔ پھر ایک مسئلہ ہو گیا۔ ایک دن میں نے انٹر نیٹ پر زمین کو دیکھا۔ آپ بھی کہیں گے کہ ارے بدھو، اِسکے لئے اتنے جتن کیوں؟ نظر جھکاؤ ہر طرف زمین ہی زمین۔ دیکھنا ہے تو چاند کو دیکھو، وہ قریب سے کیسا لگتا ہے، وہاں کے دن وہاں کی راتیں کیسی ہیں؟ لیکن خیر میں نے اِس کا اُلٹ کیا، یعنی زمین کو خلا سے دیکھا۔ ایک کُرہ سا تھا، گول مٹول۔ کوئی کونا نہیں، کوئی قطبِ شمالی یا جنوبی نہیں۔ اور ویسا تو بالکل بھی نہیں جیسا میرے قدموں تلے نظر آتا ہے۔ میں حیران رہ گیا۔ ارے اتنا فرق، صرف جگہ کے بدلنے سے؟؟؟ پھر اشتیاق بڑھا، میں ” زُوم اِن” (zoom in) کر کے قریب گیا، اب پانی نظر آیا، ہر طرف نیل ہی نیل۔۔۔ اور قریب جانے پر سبزہ، پھر یہ سبزہ میدانوں میں بدل گیا، پہاڑ اُبھر آئے، صحرا بِچھ گئے، درخت، فصلیں، فصلوں تلے مٹی، اور اب تو سائنسدانوں نے مٹی کو بھی اقسام در اقسام تقسیم کر دیا ہے۔ یہ تقسیم کہاں تک جاتی ہے؟ اور کہاں تک جائے گی؟ ہم سب انسان، ٹھیک؟ مسلمان اور کافر، ٹھیک؟ شیعہ اور سُنی، ٹھیک؟ سبز پگڑیوں والے اور سفید پگڑیوں والے اور ٹوپیوں والے اور ننگے سروں والے، ٹھیک؟ اور تو اور صوادی اور ضوادی، ٹھیک؟ ایں؟ نہیں؟ ارے کیوں نہیں صاحبو، الحمد شریف میں ” ضالّین” اور ” دوالین” پڑھنے والے ایک کیسے ہو سکتے ہیں؟؟؟
تو صاحبو، اب میں کنفیوز ہوں کہ اپنی منجی کِتھّے پاواں؟ پردے اُٹھے ہیں، روشنی ہوئی ہے لیکن میرا حال تو چمگادڑ والا ہے، روشنی میں اندھا پن۔۔۔ شائد میں چمگادڑ ہوں، شائد ہم سب چمگادڑ ہیں۔ اندھیروں میں دیکھنے والے اور روشنی سے ڈرنے والے۔ اسی لئے تو جانتے بوجھتے ساری ساری عمر اندھیروں میں گزار دیتے ہیں۔
بس بہت ہو گیا۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ زمین کو چاند سے دیکھوں گا، جذباتی ہوئے بغیر۔ کم از کم کوشش ضرور کرونگا۔ ” اُن” کا جوتا پہن کر دیکھونگا کہ کیسا لگتا ہے۔ ہاں ہاں معلوم ہے، مسئلہ تو ہو گا۔ اگر ذرے پر منفی یا مثبت چارج نہ ہو تو درمیان میں لٹکتا رہتا ہے، نہ اِس طرف نہ اُس طرف۔ شائد اِسی لئے ہم سب اپنے آپ پر چارج کی چادر چڑھائے پھرتے ہیں۔ خیر میں اپنی منجی اِتھّے ہی پاواں گا، دیکھوں تو کیا ہوتا ہے؟ صاحبو دعا کرنا!!!
7 comments