سیاروں کو سفر
صاحبو میں فلکیات میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا، ہاں سٹیون ہاکنگ کی ایک کتاب وقت کا سفر کا ترجمہ پڑھ کر کچھ دلچسپی ضرور ہو گئی تھی لیکن میرے نزدیک اس دنیا کے مسئلے کیا کم ہیں کہ ہم دوسری دنیاؤں کو مسخر کرنے چل دیں؟ بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے، عرض یہ کہ جہاں ناچیز فوٹو گرافی کا شوق رکھتا ہے وہیں ایک مشغلہ ڈاکومنٹری فلمیں بھی ہیں۔ کچھ یہی وجہ کہ نیٹ جیو، ڈسکوری، ہسٹری چینل وغیرہ سے بات آگے بڑھ کر یا تو کارٹون نیٹورک پر ختم ہوتی ہے یا کھیل کے چینلوں پر لگی نورا کشتیوں پر۔
بہرحال جب مکی بھائی کے پے در پے تراجم دیکھے اور ابو شامل کے فلمستان پر نظر پڑی ہے تو دونوں کا کچھ ملا جلا اثر اس پوسٹ کی صورت ظاہر ہو رہا ہے۔ یہ کہنا تو کچھ فضول ہی ہے کہ اب اردو بلاگستان سے کتنا رشتہ رہ گیا ہے اور کیا میں خود کو بلاگر کہنے میں حق بجانب بھی ہوں یا نہہں۔ خیر اس سے پہلے کہ آپ یہاں سے تشریف لے جائِیں، مدعا بیان کر دیتا ہوں۔
ڈاکومنٹری کے شوقین خواتین و حضرات یہاں دل ٹھنڈا کر لیں اور فلکیات کے دیوانے یہ آسٹریلین ڈاکومنٹری بہ نام voyage to planets ضرور دیکھیں۔ میرا خیال تھا کہ یہ شائد امریکہ میں بنی ہو گی لیکن یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آسٹریلیا بھی اس میدان میں پیچھے نہِیں۔
اسکے علاوہ اے بی سی کے دیگر پروگرام آن لائن دیکھے جا سکتے ہیں لیکن تیز رفتار انٹرنیٹ شرط ہے۔
ڈاکومنٹری دیکھ کر بتائیے کہ کیسی لگی۔ مجھے تو اسکی اقساط کا انتظار ہی رہتا ہے۔
اور ہاں بھائی لوگو، آپکے تبصروں سے علم ہوا کہ یہ ڈاکومنٹری آسٹریلیا سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی۔ اب یا تو آپ آسٹریلیا کے کسی آئی پی سے سائٹ پر جائیں (میرے محدود علم کے مطابق ایسے کئی طریقے موجود ہیں) اور یا پھر اس بات کا انتظار کریں کہ یار لوگ اس کے ٹورنٹ بنا ڈالیں۔ ویسے اگر کوئی پاکستانی دوست اس کو بانٹنے کی ذمہ داری لے لیں تو میں انھیں اسکی اب تک کی اقساط مہیا کر سکتا ہوں۔ ہے کوئی؟ 🙂
کینگرو کے دیس میں
ہاں صاحب آپکی ناراضگی بجا ہے لیکن کیا کیجئے کہ ایک اور سفر درپیش تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ مرحلہ کہ اصل سفر کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی ہے، آج تین ماہ ہونے کو آئے کہ تمام ہوا۔ فدوی آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا سے رقمطراز ہے اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ چین یعنی چائنا کہ ایک تو ہر طرف چینی جاپانی شکلوں کے لوگ ملتے ہیں اور پھر یوں بھی کہ دکانیں چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں۔ خیر یہ چینیوں کا ذکر تو یونہی درمیان میں آ گیا کہ آج کل اگر کسی گفتگو میں چین اور ہندوستان کا ذکر نہ ہو تو بولنے والے کی قابلیت پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ ذکر تو کرنا تھا اس عجیب و غریب جانور کا کہ جسے کینگرو کہتے ہیں۔ یہ دوپایہ تو یونہی مشہور ہو گیا وگرنہ آسٹریلیا کی سرزمین تو اور بھی کئی اقسام کے جانوروں اور پرندوں کا گھر ہے کہ جو شائد اور کہیں نظر نہیں آتے۔ کم از کم سرِ راہ تو بالکل نہیں۔ یہاں تو یہ حالت ہے کہ باورچی خانے کی کھڑکی میں میگپائی (کہ جسے آپ بلیک اینڈ وائٹ کوا کہہ سکتے ہیں) آ کر بیٹھ جائے گا تو گھر سے نکلنے پر انواع و اقسام کے طوطے آپکا استقبال کریں گے۔ یونیورسٹی کے درختوں پر سرِ شام ایک ننھا منا سا جانور جو غالباً پوسم ہے، نظر آئے گا تو جھیل کنارے بطخیں آپکو گھیر لیں گی۔
آسٹریلیا کی کہانی بھی عجیب ہے۔ یوں سمجھیے کہ یہ دراصل ایک بہت بڑی جیل تھا جہاں سلطنتِ برطانیہ کے بدنامِ زمانہ مجرموں کو سزا کاٹنے بھیجا جاتا تھا کہ اس جزیرے سے فرار کا تصور ہی محال تھا۔ وقت گزرنے پر ان مجرموں اور جیل کے ملازمین وغیرہ نے یہیں آباد ہونا شروع کر دیا۔ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور امریکیوں کی طرح کہ جنہوں نے سرخ ہندیوں کا صفایا کر کے جدید امریکہ کی بنیاد ڈالی تھی، ان گوروں نے بھی 42000 سال سے آباد مقامی لوگوں (یعنی aboriginals/ aborgine) کی جگہ لی جنکی تعداد میں گوروں کے آنے کے بعد بڑی تیزی سے کمی آئی اور جو شائد تا حال جاری ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی آسٹریلوی وزیرِ اعظم نے ان مقامیوں سے مسروقہ نسلوں کی بابت معافی مانگی جسے میڈیا میں بڑی پذیرائی ملی۔ یہ الگ بات کہ ان مقامیوں کی نسلیں اب بھی اداس ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے ان لوگوں کی اکثریت ان پڑھ ہے، شدید غربت کی زندگی گزار رہی ہے، شراب، جوئے اور تمباکو میں لت پت ہے اور گم ہوتی زبانوں کی صورت اپنا صدیوں پرانا ورثہ کھو رہی ہے۔
قطع نظر اس سے کہ آسٹریلوی مجرموں کی نسل سے ہیں، امریکہ کے حامی ہیں یا شراب کے رسیا ہیں، مجھے یہ لوگ اچھے لگے۔ کھیلوں کے بے انتہا شوقین ہیں، عام زندگی میں کھلے ڈلے سے ہیں اور تصنع پسند نہیں۔ یونیورسٹی کے پروفیسر بھی سوٹ بوٹ کی جگہ آپکو برمودا یا پون شارٹس (یعنی ایسی پتلون جو گھٹنوں سے تو نیچے لیکن ٹخنوں سے اوپر ہو) میں نظر آتے ہیں اور برابری کی سطح پر آپ سے بات کرتے ہیں۔ شہر کے وسط میں آپکو بھکاری بھی دکھائی دیں گے جو آپ سے بڑی تمیز سے پیسے مانگیں گے اور بہانہ ایک ہی کہ بس کی ٹکٹ خریدنا ہے۔ آپکے انکار پر شکریہ ادا کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔
میری یہاں آمد پی ایچ ڈی کے سلسلہ میں ہے۔ ترقیاتی علوم (development studies) کا میدان ہے کہ جسمیں ناچیز غوطے کھا رہا ہے۔ آسٹریلوی قومی جامعہ (ANU) تحقیق کے اعتبار سے دنیا کی مانی ہوئی جامعات میں سے ایک ہے۔ ایسا کچھ نہیں جو پاکستان کی جامعات میں نہ ہو لیکن ماحول ایسا ہے کہ بندہ نہ کرتے کرتے بھی کچھ کر ہی لیتا ہے۔ پاکستانی طالبعلم خاصی تعداد میں ہیں۔ زیادہ تر آس-ایڈ (aus-aid) کے وظیفے پر ہیں گرچہ میں ایچ ای سی کا وظیفہ خوار ہوں۔ کافی لوگ اپنے خرچ پر بھی ہیں کہ کینبرا میں چھوٹی موٹی نوکری آسانی سے مل جاتی ہے۔ طلباء کے علاوہ بھی پاکستانی خاصی تعداد میں ہیں اور میرے یورپ کے تجربے کے برعکس زیادہ تر پڑھے لکھے اور خوشحال ہیں۔ مساجد بھی ہیں اور حلال گوشت کی دکانیں بھی البتہ باحجاب خواتین خال خال ہی دکھائی دیتی ہیں۔ سنا ہے کہ سڈنی اور میلبورن میں مسلمانوں کی بڑی آبادیاں ہیں جو زیادہ تر عربی بالخصوص لبنانی ہیں۔ یونیورسٹی میں البتہ باحجاب خواتین کافی دکھائی دیتی ہیں جو تقریباً ساری ہی ملیشیاء یا انڈونیشیاء سے پڑھنے آتی ہیں۔
اگر زبان اور گوری رنگت کو نکال دیا جائے تو کینبرا شائد ہی اسلام آباد سے مختلف ہو۔ سرکاری دفاتر، سبزہ، موسم آپکو بے اختیار اسلام آباد کی یاد دلا دیتے ہیں۔ یہ شہر بھی نوخیز ہے اور بالخصوص دارالحکومت بننے کیلئے آباد ہوا تھا۔ کرایے بھی خاصے ہیں کہ گھر کم ہیں اور لوگ زیادہ، بالخصوص طالبعلموں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ کینبرا شہر ایک مصنوعی جھیل کے ارد گرد آباد ہے اور گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ چونکہ یہ قرہ ارض کے southern hemishphere میں شامل ہے اسلئے جون، جولائی میں سردیاں پڑتی ہیں۔ برف تو پورے ملک میں صرف چند ایک پہاڑوں پر ہی پڑتی ہے لیکن ٹھنڈ البتہ کافی ہو جاتی ہے۔ اسوقت بھی لحاف اوڑھے ہیٹر چلا کر بیٹھا ہوں گرچہ اپنی پاکستانی بھائیوں کا دل جلانا ہرگز مقصد نہیں۔ بہرحال فی الحال تو اتنا ہی، کوشش رہے گی کہ کم کم ہی سہی کچھ نہ کچھ لکھتا رہوں کہ اب گھر پر بھی انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے اور کچھ اندازہ شب و روز کا بھی ہونے لگا ہے۔
7 comments