ایمزون پر موجود کتابیں پڑھیئے۔۔ بالکل مفت
صاحبو اگر آپ بھی بندہ ناچیز کی طرح مفت خورے یا کنجوس ہیں تو یہ خبر آپکے اچھی ہے، گرچہ شائد نئی نہ ہو۔
ویسے تو کاپی رائٹ سے باہر کتابیں آپکو بہت سی سائیٹس پر مل جائیں گی لیکن عموماً یہ سب کتابیں نہایت پرانی ہوتی ہیں اور ان میں سے بہت سی شاید زمانہ حال کے حوالے سے اپنی افادیت اگر بالکل ختم نہیں تو کم از کم کافی کم ضرور کر چکی ہوتی ہیں۔
ایسے میں کیا ہی بات ہے جب ایمزون جو دنیا میں کتابوں کی شاید سب سے بڑی دکان ہے، پر موجود نت نئی کتانیں آپکو بالکل مفت مل جائیں۔ دھیان رہے کہ میں برقی کتابوں یعنی ای بکس کی بات کر رہا ہوں۔ انکو آپ ای بک ریڈر مثلاً ایمزون کنڈل یا ایمزون کی جانب سے مہیا کردہ کسی بھی طریقے (ونڈوز، میک، آئی او ایس، انڈرائڈ، ونڈوز فون، کسی بھی ویب براؤز وغیرہ) پر آرام سے پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے لئے صرف یہ ضروری ہے کہ آپکا ایمزون میں اکاؤنٹ ہونا چاہئے۔ ایک (خاصی) بُری خبر البتہ یہ ہے کہ ایمزون اپنی برقی کتب پاکستان کے کسی پتے پر بنائے گئے کسی اکاؤنٹ پر نہیں بھیجتا۔
ویسے تو کئی ویب سائیٹس آپکو ایمزون پر چھپنے والی مفت کتابوں کے بارے میں بتائیں گی لیکن دو ویبسائیٹس جو مجھے کار آمد لگی ہیں وہ ڈیلی فری ای بکس اور ون ہنڈرڈ فری بکس ہیں۔ ان میں سے اول الذکر کا ایک ونڈوز فون ایپ بھی موجود ہے جس سے مجھے اسکے استعمال میں کافی آسانی ہوتی ہے کہ کہیں بھی بیٹھے بٹھائے میں مفت کتابیں خرید سکتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اینڈرائڈ اور او آئی ایس میں بھی یقنا ایسی ایپس موجود ہوں گی جو ان یا ان جیسی ویبسائیٹس کےلئے مخصوص ہونگی۔ اگر نہ بھی ہوں تو آر ایس ایس فیڈز تو ہیں ہی جس کے ذریعے آپ ان پر موجود نئے مواد کو باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔
اگر آپکی نظر میں بھی ایسی کوئی سائیٹس ہیں تو ضرور بتائیے۔
ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن
صاحبو مجھے نہیں معلوم کہ ملک ریاض اچھا شخص ہے یا بُرا، مجھے بہرحال پسند ہے۔ بادی النظری میں تو اس کا کرپٹ نہ ہونا محال لگتا ہے کہ پاکستان میں چھوٹا سا کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا، یہ تو چند برسوں میں ارب یا شاید کھرب پتی بن گیا۔ وہ بھی کسی ہائی ٹیک، سلیکون ویلی قسم کے کاروبار میں نہیں بلکہ پراپرٹی کے بزنس میں جو پاکستان کے شاید غیر شفاف ترین (غلیظ ترین کہنا شاید کسی کے ساتھ ناانصافی ہو) کاموں میں سے ایک ہے۔ لیکن پھر بھی اسکی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ آج بھی اپنے ماضی کا ذکر فخر سے کرتا ہے۔ زیادہ سخت الفاظ میں کہوں تو اس نے اپنا باپ نہیں بدلا۔ کسی بادشاہ کی کہانی پڑھی تھی کہ ایک صندوق میں اپنی غربت کے دور کا لباس رکھ چھوڑا تھا جسے روز نکال کر دیکھتا تھا۔ پاکستان کے طاقتور ترین طبقات میں سے دو یعنی فوج اور بیوروکریسی میں اکثریت مڈل کلاس کی ہے، لیکن افسوس کہ اس بادشاہ کے برعکس، یہ سب اپنا اصل لباس اتار کر جلا دیتے ہیں، کچھ کاکول یا لاہور جا کر، کچھ کسی اونچے خاندان میں شادی کے بعد، کچھ سیکرٹری بن کر، کچھ بریگیڈئر یا جنرل کا ستارہ لگا کر۔ غرض یہ کہ کچھ جلد، کچھ دیر سے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک ریاض ان لوگوں کی قیمت لگا لیتا ہے، خرید لیتا ہے، جیب میں رکھتا ہے۔ اپنی اصل کو یاد رکھنے والے کو، اپنے پرانے کپڑوں کو سنبھال کر رکھنے والے کو، اپنے باپ کو نہ بدلنے والے کو خریدنا آسان نہیں ہو گا۔
میں نے بحریہ ٹاؤن کا نام پہلی مرتبہ غالبا 2004 میں ایک ساتھی سے سنا جس کے ساتھ میں بنک الفلاح میں ملازمت کرتا تھا۔ وہ بڑی خوشی سے مجھے بتایا کرتا کہ اسکا بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ ہے۔ میں چونکہ اس قسم کے معاملات یعنی زمین، جائداد وغیرہ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا تھا اسلئے زیادہ جاننے کی کوشش نہ کرتا۔ پھر ایک دوست نے بتایا کہ اسکے دفتر کے ایک ساتھی کو، جسکی تعلیم غالبا٘ ٹاؤن پلاننگ میں تھی، ملک ریاض نے ملازمت دی ہے۔ یوں ملک ریاض کا نام سننا شروع ہوا اور یہ بات اچھی لگی کہ کوئی پراپرٹی ڈویلپر ایسا بھی ہے جو ٹاؤن پلاننگ کر کے "کالونیاں” بناتا ہے۔ یہ کالونی کی اصطلاح کم از کم میرے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں بہت عام تھی (شاید اب بھی ہو) جہاں عموما٘ شہر کی آبادی بڑھنے پر شہر کے آس پاس کی زمین کو رہائشی علاقے میں تبدیل کر لیا جاتا۔ یہ کام عموما٘ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ (یا پاکستانی لحاظ سے زیادہ موزوں اصطلاح "پراپرٹی ڈیلر”) کرتے تھے۔ یہ زرعی زمین عام طور پر سستے داموں لی جاتی، زیادہ سے زیادہ ڈویلپمنٹ یہ کی جاتی کہ چونے کی لکیروں سے پلاٹوں کی حد بندی کر لی جاتی، ایک آدھ پختہ سڑک بنا لی جاتی یا چند ایک بجلی کے کھمبے لگا لئے جاتے۔
پھر یہی زمین کئی گنا قیمت پر بیچ دی جاتی۔ باقی شہری ضروریات (یا سہولیات) یعنی پانی، بجلی، گیس، بجلی، گلیاں، نکاسی آب وغیرہ کی فراہمی کا دار و مدار کالونی کے نئے مکینوں کے زور بازو پر یا سیاسی روابط پر ہوتا۔ مجھے یقین تو نہیں لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ چند ایک شہروں بلکہ علاقوں کو چھوڑ کر سارے پاکستان میں رہائشی سکیموں کا چلن یہی ہو گا، خصوصا٘ وہ جو نجی شعبہ ڈویلپ کرتا ہے۔ اب اس بات میں تو شک نہیں کہ اسلام آباد اور دیگر شہروں کے چند علاقے جہاں رہائشی سہولیات کو کوئی تصور موجود ہے، عام آدمی کی پہنچ سے کتنے باہر ہیں اور ہر شخص فوج میں افسر بھی نہیں کہ دوران ملازمت یا ریٹائرمنٹ کے بعد کسی چھاؤنی یا چھاؤنی نما علاقے (یعنی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹیز وغیرہ) میں رہ سکے۔ ویسے تو ایک مہذب معاشے میں پائی جانے والی دیگر عمومی سہولیات بھی پاکستانی مڈل اور لوئر کلاس کی پہنچ سے باہر ہی ہیں، لیکن اس بحث کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں اور فی الوقت صرف ہاؤسنگ کی بات کرتے ہیں۔
ایسے ماحول میں جب ملک ریاض نے مڈل کلاس کو شہری سہولیات دینی شروع کیں تو یہ بات ہر کسی کے لئے باعث حیرت تھی۔ میں بحریہ ٹاؤن غالبا 2009 میں صرف ایک مرتبہ گیا ہوں جب ایک دوست وہاں پلاٹ لینا چاہ رہا تھا اور دفتری کاروائی وغیرہ کرنا تھی۔ یورپ، شمالی امریکہ، آسٹریلیا میں رہتے ہوئے جن مناظر کے آپ عادی ہو جاتے ہیں یعنی صفائی، روڈ سائنز، پارک، سبزہ، گھروں کے باہر کچرے کے ڈبے، وہ وہاں بھی نظر آئے۔ جو لوگ پاکستان میں رہتے ہیں اور جنکا اسلام آباد کے چنیدہ سیکٹرز یا ملک کے دیگر شہروں میں موجود کینٹونمنٹ یا چھاؤنی کے علاقوں میں جانا کم کم ہی ہوتا ہے، انکے لئے یقینا٘ بحریہ ٹاؤن حیران کن اور متاثر کن ہے۔ یہ غالبا٘ 2004 ہی کا ذکر ہے، اپنی بنک کی ملازمت کے دوران وہ منظر بھی دیکھا کہ پلاٹ لینا تو دور کی بات، ایسی ہی ایک سکیم (غالبا٘ بحریہ یا کوئی ڈی ایچ اے وغیرہ) کے صرف درخواست فارم ہی کی قلت تھی اور لوگ بلیک میں خرید رہے تھے کہ درخواست جمع کرا سکیں۔
ایسا کیوں ہے؟ سچی بات جو بہت تلخ بھی ہے، یہی ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ نہیں ہم سب ایک دوسرے کو انسان بھی سمجھتے ہیں اور شاید کچھ عزت بھی کرتے ہوں۔ لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا۔ جن کے ہمیں انسان سمجھنے سے فرق پڑتا ہے، وہ ایسا نہیں سوچتے، سمجھتے۔ ایسے میں ملک ریاض نے اگر عام آدمی کو انسان سمجھا اور ایک وعدہ پورا کیا تو یہ یقینا٘ قابل تعریف ہے۔ جہاں پورے پیسے دے کر بھی آپکو علاج، تعلیم، خوراک، پانی اور ایسی ہی بہت سی بنیادی سہولیات کے نام پر حکومت اور نجی شعبہ دونوں دھوکہ دیتے ہوں، وہاں ملک ریاض ایک علامت بن گئی ہے۔ مڈل کلاس لوگوں نے اپنی خون پسینے کی کمائی سے اس پر اعتبار کیا ہے۔ اس لحاظ سے وہ ان سیاستدانوں سے ہزار گنا بہتر ہے، جن پر مڈل کلاس اپنے مفت کا ووٹ تک ضائع نہیں کرتی، پیسہ خرچ کرنا تو دور کی بات ہے۔
اس لحاظ سے تو گالی کسی اور کے لئے بنتی ہے، گالی تو سیاستدانوں، فوجی جرنیلوں، کرپٹ افسر شاہی اور خود ہمارے لئے بنتی ہے۔ ملک ریاض تو ایک بہت گہری برائی کی صرف ظاہری علامت ہے۔ ملک ریاض تو ایک کاروباری ہے جو پیسے کو دو سے چار کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ اس نے اس ملک کے، اس معاشرے کے مروجہ اصولوں کے مطابق کاروبار کیا ہے۔ اس نے تو ہم سب کو ہماری اشرافیہ کا اصل چہرہ دکھایا ہے اور اس لحاظ سے ہمارا محسن ہے۔ بجائے اسکے کہ ہم اسکی کاروباری ذہانت کی داد دیتے، اس سے فائدہ اٹھاتے، ہم جل رہے ہیں، بھن رہے ہیں اور اسے گالیاں دے رہے ہیں۔
میرا بس چلتا تو ملک ریاض اور اسکے کاروبار پر یونیورسٹیوں میں کورس کرواتا، ریسرچ کرواتا۔ تا کہ ہماری نوجوان نسل کو علم ہوتا کہ جس ملک میں رہتے ہیں، اس میں پیسہ کیسے بنایا جاتا ہے، اسکے ادارے کیا کیا کام کرتے ہیں اور اس معاشرے میں کس ڈگری اور کس ہنر کی کتنی ویلیو ہے۔ صرف منفی نہیں، مثبت پہلو بھی ہیں۔ جو کام وہ کر سکتا ہے، وہ حکومت کیوں نہیں کر سکتی؟ ایک عام آدمی کو اتنی قیمت میں اس معیار کا گھر کیوں نہیں دے سکتی؟ وہ شہری سہولیات کیوں نہیں دے سکتی جو بحریہ ٹاؤن میں ہیں؟
کیا میں بحریہ میں گھر خریدوں گا؟ میں نہیں جانتا۔ مجھے نہیں معلوم بحریہ کا مستقبل کیا ہے۔ ملک ریاض جو سہولیات دے رہا ہے، وہ اسکے بعد بھی جاری رہیں گی یا نہیں؟ سڑکوں کی مرمت، پارکوں کی دیکھ بھال، کچرے کو ٹھکانے لگانا یا بلا تعطل بجلی کی فراہمی، یہ سب کب تک جاری رہے گا؟ دس سال، تینتیس سال یا ننانوے سال؟ اور ویسے بھی میری دلچسپی بلکہ شاید آپ کی بھی، تو اس بات میں ہے کہ یہ سب سہولیات ایک عام علاقے میں ایک عام شہری کو کب ملیں گی؟ پاکستان میں ایک عام انسان کو انسان کب سمجھا جائے گا؟ پاکستان تو کب کا آزاد ہو گیا، پاکستانی کب آزاد ہو گا؟
9 comments