Faisaliat- فیصلیات

ہم کس گلی جا رہے ہیں؟

Posted in Life, Politics, urdu by Shah Faisal on نومبر 26, 2007

صاحبو کچھ عرصہ پہلے جب میں نے بلاگنگ شروع کی تو ارادہ تھا کہ صرف خیالات پر لکھونگا، حالات یا واقعات پر نہیں۔ لیکن ایک سوچ لوگوں میں اسقدر عام ہوتے دیکھی ہے کہ مجبوراً ایک عصری موضوع پر لکھنا پڑ رہا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ چند دنوں سے اچھےخاصے پڑہے لکھے لوگوں کی زبانی سنتا آ رہا ہوں کہ ہمارے وطن میں طالبانائزیشن ہو رہی ہے۔ ان میں سے چند صاحبان خوفزدہ ہیں کہ اگر طالبانائزیشن ہو گئی تو ان کو داڑھیاں رکھنا پڑیں گی اور ان کی بیگمات کو برقعے اوڑھنا پڑیں گے۔
طالبانائزیشن کی تعریف مختلف لوگ اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں لیکن ایک بات سب مشترکہ طور پر قبول کرتے ہیں کہ طالبانائزیشن کا ایک لازمی عنصر لوگوں پر اپنا فیصل کردہ اندازِ زندگی یا لائف سٹائل ٹھونسنا ہے۔ بات ایسی غلط بھی نہیں۔ کچھ مذہبی انتہا پسند ایسا چاہتے بھی ہیں۔ وہ سجھتے ہیں کہ داڑھی میں ہی اسلام ہے، داڑھی سے باہر اسلام نہیں۔ البتہ انہیں شائد یہ معلوم نہ ہو کہ اسلام سے باہر تو داڑھی بہرحال ہے ہی۔ یہودی بھی لمبی لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں اور سکھوں کی داڑھیاں تو اور بھی لمبی ہوتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی لطیفہ اسوقت پیش آتا تھا جب میرے یورپی دوست سمجھتے تھے کہ میں مسلمان ہوں تو میری مادری زبان لازماً عربی ہو گی۔ اسی طرح مجھے یقین ہے کہ چند پاکستانی بھی یقیناً حیران ہوں گے اگر کوئی یہودی یا عیسائی اپنی مادری زبان عربی کو قرار دے تو۔ خیر بات ہو رہی تھی پاکستانی معاشرے میں طالبانائزیشن کے پھیلنے پر۔
صاحبو دو برس یورپ میں گزارنے کے بعد میں دو ماہ پہلے واپس آیا تو میرا خیال تھا کہ یہاں پھر سے ایڈجسٹ ہونے میں مجھے کچھ مشکل ضرور پیش آئے گی۔ لوڈشیڈنگ، گرمی، گرد، شور و غل، مذہبی انتہاپسندی، تشدد، جھوٹ، منافقت اور ایسا ہی بہت کچھ ملا کر دیکھیں تو کوئی اچھی تصویر نہیں بنتی۔ لیکن مزے کی بات کہ مجھے ان سب چیزوں کا پھر سے عادی ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ اگر کسی چیز نے زیادہ تکلیف دی تو وہ تھی ماڈرنائزیشن۔ آپ یقین کریں میں سچ کہہ رہا ہوں اور یہ صرف میرا نہیں بلکہ میری بیگم کا بھی مسئلہ تھا۔ ٹی وی کھول کر دیکھا تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ فیشن ٹی وی جو شائد یورپ میں بھی عام نہیں دکھایا جاتا بلکہ خرید کر دیکھنا پڑتا ہے، وہ یہاں مفت دیکھنے کو ملا۔ خیر فیشن ٹی وی تو بدیسی ہے، ابھی چند دن پہلے ایک دیسی چینل پر مقابلہ حسن دکھایا جا رہا تھا، غالباً اپنی ساری تفصیلات سے ساتھ !
لوگوں سے بات چیت کی تو خاصا بدلا ہوا ماحول پایا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں دو سال یورپ نہیں بلکہ شائد افغانستان گزار کر آیا ہوں۔ میں اور میری بیوی تبدیل تو کیا ہوتے، اب اپنی ہی ملک میں پینڈو سے لگتے ہیں۔ میں اپنی تعریف نہیں کر رہا کہ یورپ کی ہواؤں نے میرا کچھ نہیں بگاڑا، میں تو جیسا گیا تھا، ویسا ہی آیا ہوں لیکن اب یہاں شائد بہت کچھ بدل گیا ہے۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی کہانیاں سنتے سنتے آیا تو سڑکوں پر نئی نئی گاڑیاں، گھروں میں سپلٹ ایرکنڈیشنر اور ہاتھوں میں نت نئے موبائل فون دیکھے۔ نہیں یہ غلط ہے کہ ایسا کسی مخصوص طبقے میں ہو رہا ہے۔ میں اپنے دائیں بائیں رہنے والے عام سے، مڈل کلاس، نوکر پیشہ اور کاروباری طبقے کی بات کر رہا ہوں۔ جہاں معاشی خوشحالی آئی ہے وہاں رویے بھی تبدیل ہوئے ہیں، بلکہ بہت تبدیل۔
صاحبو ہمیں طالبانائزیشن سے خطرہ ہے۔ ہمیں ایسی سوچ سے خطرہ ہے جہاں لوگ اپنی مرضی کا اندازِ زندگی دوسروں پر ٹھونس دیں۔ لیکن ایسا تو لکیر کی دوسری انتہا پر بھی ہو رہا ہے۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمیں چاہتے نہ چاہتے ماڈرن کیا جا رہا ہے؟ شائد میں ایک کام انفرادی طور پر نہ کروں لیکن معاشرے کی روش دیکھتے ہوئے کرنے پر مجبور ہوں۔ شائد میری بیوی برقعہ اوڑہنا چاہتی ہے لیکن معاشرے کے بائیکاٹ کے خوف سے ایسا نہیں کر پا رہی۔ یعنی ہم پر ہماری مرضی کے بغیر ایک اندازِ زندگی ٹھونسا جا رہا ہے۔
صاحبو میں تو پریشان ہوں۔ ایک مڈل کلاس عام سی زندگی گزارنے والا پاکستانی جو شائد داڑھی تو نہیں رکھتا لیکن اس کی بیوی پردہ کرتی ہے، جو شائد پانچ وقت مسجد میں تو حاضری نہیں دیتا لیکن مخلوط پارٹیوں میں شرکت نہیں کرتا، وہ کہاں جائے؟ کیا اسکا طالبانائزیشن یا ماڈرنائزیشن میں سے ایک کو چننا لازمی ہے؟ کیا کسی ایک انتہا کو اپنانا ضروری ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر طالبانائزیشن اور ماڈرنائزیشن میں کیا فرق ہے؟ اسلام آباد، کراچی یا لاہور کی کسی برگر فیملی اور سوات، چارسدہ یا وانا کی کسی داڑھی اور برقعوں میں چھپے خاندان میں کوئی فرق ہے، شائد نہیں! یہاں مجھے اپنا ایک پسندیدہ گانا بہت یاد آ رہا ہے "ہم کس گلی جا رہے ہیں، اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ۔۔۔۔۔”

اب اس موضوع پر اجمل صاحب نے ایک سلسہ شروع کیا ہے جو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔