کچھ باتیں کچھ کتابیں
صاحبو دو چار روز پہلے ایک ای میل آئی کہ ایک پروفیسر ہماری جامعہ کی، کچھ پرانی کتابیں بیچ کر پاکستان کے لیے فنڈ اکھٹا کرنا چاہتی ہیں۔ کتابیں اور رضاکار دونوں چاہییں۔ ناچیز کے پاس کتابوں کے معاملے میں تو "چیل کے گھونسلے میں ماس” والی صورتحال تھی (آخری کتاب ایک ڈالر، جی ہاں ایک ڈالر کہ آدھا جسکا پچاس سینٹ ہوتے ہیں، کی استعمال شدہ اشیا کی ایک دکان سے لی تھی، اور کہ جس بارے مشورہ یہ ہے کہ چونکہ اسی نام کی فلم دیکھ کر ناول کا مزا خراب ہو جائے گا اسلیے فلم پہلے دیکھ لیں)، سوچا چلو کچھ "دا خپلو لاسو خذمت” یعنی جسمانی مزدوری ہی کر لیں، نام بھیج دیا۔
وقت مقررہ پر مذکورہ جگہ پر پہنچا تو دو تین بڑی میزوں پر کتابوں کے انبار لگے تھے اور لوگ مزید کتابیں بھی ڈھو ڈھو کر لا رہے تھے۔ ایک یہودی سٹاف ممبر نے کافی کتابیں عطیہ کیں۔ پیسے وصولنے کو ایک دراز قامت، کافی وجیہہ ہندوستانی نوجوان کھڑا تھا اور ایک پاکستانی سٹاف ممبر بہ نام ہما، سب کو ہدایات دیتی پھر رہی تھیں۔ مجھے بھی کچھ کتابیں قریبی کمرے سے لانے اور میز پر ترتیب سے لگانے کا فرمان جاری ہوا۔ ادب، سفرنامہ، سائنس، درسی و غیر درسی، بہت کچھ تھا۔ ہلکی ہلکی بارش اب باقاعدہ رم جھم میں تبدیل ہو رہی تھی جب لوگوں نے آنا شروع کیا۔ رضاکار ہونے کے ناطے مجھے یہ صلہ دیا گیا تھا کہ لوگوں کے آنے سے پہلے ہی اپنی مرضی کی کتابیں چھانٹ کر الگ کر لوں۔دو ڈالر فی کتاب یقیناً برا سودا نہیں تھا اسلیے میں نے کچھ کتابیں الگ کر لیں جنکی فہرست ابھی پیش کرتا ہوں۔ لگ بھگ تین گھنٹے میں کوئی 800 ڈالر اکھٹے ہوئے جو پاکستانی ہائی کمیشن کے حوالے کیے جائیں گے۔ اس میں لوگوں کی جانب سے کتابوں کی قیمت اور چندہ دونوں شامل ہیں۔ وہ ہندوستانی دوست انتہائی مہذب طریقے سے ہر بندے سے کتاب کی قیمت کے علاوہ چندہ بھی لیتا رہا تھا اسلیے کتابوں کی نسبت پیسے زیادہ جمع ہوئے اور بہت سی کتابیں بچ بھی گئیں جنکے بارے میں یہ فیصلہ ہوا کہ جامعہ کی پاکستان سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے حوالے کی جائیں گی جو انکو ایک آنے والی تقریب میں بیچیں گے۔
بہت اچھا دن گزرا اور ہر رنگ، مذہب، اور ملک کے لوگوں کو مدد کرتے دیکھ کر انسانیت پر میرا یقین مزید پختہ ہو گیا۔ کتابیں تو بہت سی لینا چاہتا تھا لیکن ایک طرف تو جیب میں صرف چند ڈالر نقد تھے (جو کہ ایک طریقہ بھی تھا خود پر کنٹرول کا، تو دوسری جانب بیگم کے قہر کا بھی خیال آتا تھا)۔ انھی میں سے ایک کتاب بے نظیر بھٹو مرحومہ کی بھی تھی جو اٹھا تو لی تھی لیکن واپس رکھ دی۔ بہر حال جناب جو کتابیں میں لایا وہ یہ ہیں (بغیر کسی ترتیب کے):
- The reluctant fundamentalist
محسن حامد کا مشہور ناول
- A brief history of everything
موٹی سی ایک کتاب ہے لیکن ابھی تک سمجھ نہیں آیا کہ کس بارے میں ہے۔غالباً فلسفہ ہے۔
- The City: A Global History
شہروں کی تاریخ کے بارے میں ایک کتاب۔ شہر کب کہاں کیسے شروع ہوئے اور اب کیسے ہیں۔ کیوں لے لی، پتہ نہیں لیکن موضوع دلچسپ لگا۔
- Insight Guide:Pakistan
ایک ٹورازم گائڈ ہے، تصویریں اچھی لگیں تو لے لی۔ ارادہ ہے کسی کو تحفے میں دے دونگا۔
- Bureaucracy: Its role in Third World Development
بیوروکریسی (افسر شاہی) کے بارے میں ایک کتاب، کچھ تعلق میری پی ایچ ڈی سے بنتا تھا سو لے لی۔
- The reconstruction of religious thought in Islam
علامہ اقبال کے لکچروں کا ایک مجموعہ۔ مشہور عالم کتاب ہے۔
- Max Weber: An intellectual portrait
یہ کتاب بھی میری پی ایچ ڈی سے متعلق ہے۔ ویبر کو آج کل پڑھ رہا ہوں یا یوں کہیے کہ پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ موصوف جدید علم عمرانیات، بشمول دیگر علوم، کے بے تاج بادشاہ ہیں اور فدوی انکے سحر میں گرفتار۔
- Orientalism
ایڈورڈ سعید کی شہرہ آفاق کتاب جسمیں مشرق سے متعلق مغرب کی بنائی گئی غلط تصویر کے بخیےادھیڑ کر رکھ دیے موصوف نے۔
- Islands of Tasmania
فوٹوگرافی اور سیاحت سے متعلق ایک تصویری کتاب۔ چونکہ فدوی فوٹو گرافی میں بھی طبع آزمائی کرتا اور منہ کی کھاتا ہے، اسلیے لے لی۔ یہ اور بات کہ یہ گورے لاکھوں کے کیمرے اور فوٹو گرافی میں ماسٹرز کی ڈگریاں لے کر بھی ایسی کتابیں نہ چھاپیں تو تف ہے ان پر۔
یہ غالباً میری زندگی میں "اپنے پیسوں سے” لیا گیا کتابوں کا سب سے بڑا مجموعہ ہے (کہ بچپن میں ابا جان کے ہمراہ کتابوں کی دکان پر جاتے تھے تو اتنی اٹھا لیا کرتے تھے جتنی اٹھا سکتے ہوتے تھے)۔ بہرحال اب مسئلہ یہ ہے کہ ان سب کی باری کب آتی ہے۔ محسن حامد کا ناول تو دو تین راتوں کی مار ہے، علامہ اقبال اور اے بریف ہسٹری آف ایوری تھنگ کو آخر میں دیکھونگا۔ ویبر اور بیوروکریسی سے متعلق کتاب کو یونیورسٹی میں بھگتانے کی کوشش کرتا ہوں۔ بس دعا کیجیے۔
اور ہاں، یہ پوسٹ کچھ کچھ اس پوسٹ کے جواب میں بھی لکھی گئی ہے، اگرچہ میرا ریکارڈ یہ ہفتے وغیرہ منانے کے سلسلے میں از حد خراب ہے، ہاں اگر کوئی سال وغیرہ منانا ہو تو بات بھی بنے، ہفتہ تو سات ہی دنوں میں گزر جاتا ہے۔
کتابیں تو آپ نے شاندار چنی ہیں اب جیسے جیسے پڑھتے جائیں باقی لوگوں کو بھی شریک علم کرتے جائیں۔۔
جہاں تک ایونٹ کی بات ہے تو شاید یہی وہ جذبہ اور انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہے جس کی وجہ سے انسان دشمن سیاستدان ایک ملک کی عوام کو دوسرے ملک کی عوام کے بارے میں متنفر کیے رہتے ہیں اور ان کے رابطوں میں رکاوٹ بنے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی تمام لوگوں کو جزائے خیر دے۔
کوشش تو میری ہو گی راشد کہ جو کچھ تھوڑا بہت سیکھوں آگے منتقل کروں گرچہ یہ کام آسان نہیں
😦
میکس ویبر تو ماہر سماجیات تھا۔ اس کا تھوڑا سا تعارف ایک کورس میں پڑھا تھا۔ کافی دلچسپ تھا۔
آپ کس مضمون میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں؟ سماجیات میں؟
کتابوں کا مجموعہ دلچسپ معلوم ہو رہا ہے۔
جی آپ درست فرما رہے ہیں۔ لیکن بہتیری جگہ
sociology
کا ترجمہ عمرانیات بھی ملتا ہے۔ مجھے شک تھا کہ عمرانیات کا ترجمہ
humanities
بنتا ہے لیکن اسے یقیناً
علم بشریات کہتے ہیں۔ مثلاً دیکھیے اردو وکی پیڈیا۔
نہیں میں کسی مضمون میں پی ایچ ڈی نہیں کر رہا، موضوع البتہ عمر نے بتا دیا ہے کہ دیہی ترقی اور غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق ہے۔
جس طرح فزکس ، کیمسڑی وغیرہ سائنس کے مضامین ہیں
اسی طرح سماجیات ، تاریخ ، فلسفہ وغیرہ عمرانیات یعنی ہیومینیٹیز کے مضامین ہیں۔
تو بس سوشیالوجی کا ترجمہ سماجیات ہے جو کہ عمرانیات کا مضمون ہے۔
علم بشریات میں نے پہلی دفعہ سنا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ ہمارے وکی پیڈیا والے مہربانوں کی نئی ایجاد ہے۔ 🙂
آپ کے متعلقہ شعبہ کی ویب سائٹ میں نے دیکھی ہے۔ دلچسپ معلوم ہو رہا ہے۔ اپنے تحقیق کے متعلق کچھ نا کچھ ضرور بیان کیا کریں۔ اس طرح ایک منفرد بلاگ پڑھنے کو ملے گا۔ 🙂
حضور سچی بات بتاؤں تو آپ نے مجھے چکرا کر رکھ دیا ہے۔
اگر آپ سوشیالوجی کو سماجیات کہنے پر مصر ہیں تو ضرور کہیے لیکن پاکستان میں اسے عموماً عمرانیات ہی کہا جاتا ہے بلکہ شعبہ عمرانیات کئی جامعات میں موجود ہے۔ ابن خلدون نے شاید اسے پہلے پہل علم العمران کہا تھا (گرچہ مجھے حتمی علم نہیں) اور میری کیا مجال کہ میں ابن خلدون کو غلط کہوں۔ اُس وقت غالباً ہندی اور فارسی کی شادی سے پیدا ہونے والا لفظ سماجیات موجود نہیں تھا۔
اردو وکی پیڈیا آپ، مجھ ہم جیسے رضاکاروں کا کمال ہے اور میں انکی قدر کرتا ہوں۔ اگر آپکو ہیومینیٹیز کا ترجمہ بشریات درست معلوم نہیں ہوتا تو آپ اسے خود وکی پر تبدیل کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ اس سے بہتر ترجمہ پیش کریں گے۔
اور ہاں آپ اگر اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ میں اپنی پی ایچ ڈی کیلیے کسی ایک مضمون کا نام لوں تو پھر آپ اسے ترقیاتی علوم سمجھیے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ترقیاتی علوم کوئی مضمون نہیں بلکہ کئی بنیادی مضامین کا مجموعہ ہے اور معاشرتی علوم یعنی سوشل سائسنز میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہیومینیٹیز اور سوشل سائنسز میں بھی فرق ہے تھوڑا بہت لیکن آپ نے دونوں کو اکھٹا ہی کر دیا۔
اگرچہ یہ سب تفریق انسان کی بنائی ہوئی ہے اور پھیلتی سکڑتی رہتی ہے لیکن تا حال عموماً سوشل سائنسز اور ہیومینیٹیز الگ الگ شعبے تصور کیے جاتے ہیں اور اسکا ایک ثبوت جامعات میں انکے الگ الگ شعبہ جات، سکول، کالج، فیکلٹی وغیرہ ہونا ہیں۔
یہ سب میری محدود معلومات کی مطابق ہے اور غالب امکان ہے کہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہونگے، اسی لیے خوشی ہو گی اگر آپ میری اور دیگر دوستوں کے علم میں اضافہ کر سکیں تو۔
ارے واہ۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت دن گذرا ہو گا، مجھے یقین ہے۔ پھر کتابیں تو لاجواب۔۔۔۔۔۔۔۔
احباب نے آپ کی پی ایچ ڈی بارے سوال کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ تو پہلے مجھے ایک اندازہ لگانے دیں۔ آپ غالباَ زراعت کے طالبعلم رہے ہیں اور اب اس کی ایک نہایت دلچسپ شاخ دیہی ترقی سے گٹھ جوڑ کیے بیٹھے ہیں۔۔۔۔ تو میرا اندازہ ہے آپ یا تو دیہی ترقی بارے ہی کچھ پکا رہے ہیں یا پھر صرف ترقی بارے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں جی؟
جی عمر، دیہی ترقی اور غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق موضوع ہے میری تحقیق کا، اب اسے سوشیالوجی، اینتھرو پالوجی، دیہی ترقی، یا ترقیاتی علوم کہیں بھی فٹ کر دیں ہو جائے گا تھوڑا بہت۔
🙂
اگر ميں ہوتا تو يہ کتابيں آپ کيلئے نہ چھوڑتا مگر بعد ميں پڑھنے کو دے ديتا
بہت ہی عمدہ کام ہوا ہے۔ پرتھ کی یونیورسٹی میں کچھ طلباء اسی طرح فنڈ رائزنگ کرنا چاہ رہے تھے۔
اور جناب آپ دوبارہ کہاں چلے گئے ہیں؟؟
رضوان صاحب کیا مطلب کہاں چلا گیا ہوں؟
کچھ سمجھ نہیں آیا۔
🙂
بھائی جی
سب سے پہلے تو آپ اپنا غصہ ٹھنڈا کریں کہ اس گفتگو میں بھڑک اٹھنے والی کوئی بات نہیں ہے۔
میں شوشل سائنز اور ہیومینیٹیز سے بخوبی واقف ہوں۔ میری یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے کچھ کورسز سوشل سائنسز کے زمرے پر پڑھائے جاتے ہیں۔ اور کچھ مضامین ہیومینیٹیز کے زمرے میں۔
دنیا کی اکثر یونیورسٹیوں مین تمام مضامین تین زمرہ جات میں تقسیم کیے جاتے ہیں
سائنس
سوشل سائنس
ہیومینٹیز
سماجیات کا مضموں سوشل سائنس اور ہیومنیٹیز دونوں میں تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ ادارے ایم ایس سی کی ڈگری دیتے ہیں۔ اور کچھ ایم اے کی۔ یہ منحصر ہے کہ وہ کس فیکلٹی میں پڑھائے جا رہے ہیں۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے گورنمنٹ کالج لاہور میں سوشیالوجی کو سماجیات اور ہیومینیٹیز کو عمرانیات کہا جاتا تھا۔
ابن خلدون والی مثال آپ نے بالکل فضول دی ہے۔ اس طرح تو نیوٹن کے زمانے میں فزکس کو نیچرل فلاسفی کہا جاتا تھا۔ اردو زبان ابن خلدون تک کہاں پہنچ گئی؟
مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کیا آپ کیا پڑھ رہے ہیں۔ میں نے تمام سوال ازرہ تجسس اور معلومات کے لئے پوچھے ہیں۔ آپ کے شعبہ اور تحقیق کے بارے مٰں دلچسپی معلوم ہوئی تو پوچھ لیا۔
ارے آپکو ایسا کیوں لگا کہ میں غصے میں ہوں 🙂
ابن خلدون کا حوالہ اسلیے دیا تھا کہ اسے عموما سوشیالوجی کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ مجھے ابن خلدون کا علم نہیں کہ میں نے اسے نہیں پڑھا۔ البتہ یقیناً آپ جانتے ہیں کہ نیچرل سائنسنز کی نسبت سوشل سائںسز عموماً کم تیز رفتاری سے تبدیل ہوتی ہیں اور کچھ سائنسدان اور انکا کام کلاسیکی تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ارسطو، سقراط، افلاطون، ابن خلدون وغیرہ وغیرہ کے حوالے دیے جاتے ہیں۔
ویسے آپ کیا پڑھ رہے ہیں یا پڑھ چکے ہیں؟
یار فیصل یہ بلوگ وغیرہ مجھ سے نہیں پڑھے جاتے مگر تمہارا بلوگ کچھ خاص ہے. اگرچے تم سے یاد الله ہوئے تو چند سال ہونے کو ہیں مگر آج جانے کیوں تمہارا بلوگ پہلی بار دیکھا اور اچھا لگا ، فلمی زبان میں کہیں تو مگامبو خوش ہوا.تمہارا نیا بلوگ ، کچھ کتابیں کچھ باتیں اس گریٹ ، کچھ نی کتابیں اس بلوگ کی وساطت سے میری وش لسٹ میں شامل ہو گیں ہیں، اس کے لئے شکریہ.
باقی آیندہ
صداقت
زہے نصیب صداقت بھائی، آپکو یہاں دیکھ کر بیحد خوشی ہوئی ہے۔ سچی بات کہوں تو اب زیادہ بلاگ میں بھی نہیں پڑھتا بس جو سامنے آ جائے۔
پندیدگی کا شکریہ، امید ہے آپ آتے جاتے رہیں گے۔
میں بھی راشد بھائی کی بات سے اتفاق کروں گی ۔ کتابیں پڑھنا ہم جیسوں کے بس کی بات نہیں
چنانچہ آپ شریک کرتے رہیں اپنے مطالعہ میں ہمیں بھی
لیکن فیصل بھائی آپ کی سائٹ کو آر ایس ایس فیڈ کرنے کا سمجھ نہیں آرہا
یعنی مجھ سے نہیں ہو رہا
شکریہ
تشریف آوری کا شکریہ ماریہ فیڈ کا لنک یہ ہے: https://shahfaisal.wordpress.com/feed/
فیصل یہ کام تو بہت اچھا ہوا، اپنی پروفیسر صاحبہ اور ہندوستانی ساتھی کو مبارکباد پہنچائے گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب جزائے خیر دے۔
کتابوں کے حوالے سے اس گرما گرم بحث حصہ لینے کا موڈ نہیں۔ اسلئے خدا حافظ۔
http://www.express.com.pk/epaper/index.aspx?Issue=NP_LHE&Page=Magazine_Page12&Date=20100918&Pageno=12&View=1
تشریف آوری کا شکریہ عبداللہ لیکن آپ کے دیے لنک کا اس تحریر سے ربط کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
یہ لنک میں نے تمام بلاگر کی سائٹس پر پیسٹ کیا ہے اور محض اس لیئے کہ جو لوگ بغیر جانے بوجھے جھوٹا پروپگینڈہ کرتے ہیں اور جو بغیر تصدیق اس پر ایمان لے آتے ہیں انہیں بھی حقیقت حال سے کچھ آگاہی ہو !!!!!!!!!!